اردو دنیا کے ممتاز ڈراما نگار اور ادیب انل ٹھکر چل بسے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-05

اردو دنیا کے ممتاز ڈراما نگار اور ادیب انل ٹھکر چل بسے


سوشل میڈیا کی اطلاع کے بموجب اردو دنیا کے ممتاز بزرگ ادیب انل ٹھکر بروز ہفتہ 4/اپریل کو ہبلی (کرناٹک) میں بعمر 86 سال وفات پا گئے۔
آٹھ ناولوں کے خالق، دو سو سے زائد افسانے اور کئی ڈراموں کے خالق، ہدایت کار، اداکار اور ماہر نفسیات، چتربھوج ٹھکر کی پیدائش 6/جون 1934 کو ورسامیڑی (ضلع کچھ) گجرات میں ہوئی تھی۔ ان کے تعلیمی سفر کا آغاز پاکستان کے تاریخی شہر لائل پور (موجودہ نام: فیصل آباد) سے ہوا تھا۔ جہاں انہوں نے اردو اور ہندی کے ساتھ گجراتی زبان کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا۔
تقسیم ملک کے سانحہ کے بعد اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ ہبلی (کرناٹک) چلے آئے تھے۔ البتہ انل ٹھکر کی بڑی بہن، جو ان سے عمر میں تقریباً بیس برس بڑی تھیں، آخری عمر تک کَچھ (گجرات) میں ہی قیام پذیر رہیں اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ دونوں بڑے بھائی مرتے دم تک ہبلی میں رہے اور وہیں پیوند خاک بنے۔
1953 میں انل ٹھکر نے اسکول آف آرٹ (دھارواڑ، کرناٹک) میں تعلیم کے دوران اپنی ایک ہم جماعت گریجا سے شادی کی۔ 2006 میں اپنی اہلیہ کی وفات تک ان کی طویل رفاقت رہی۔
انل ٹھکر کے پسماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ بڑی صاحبزادی انیتا ممبئی میں اپنی سسرال میں رہتی ہیں اور بڑے صاحبزادے مدھوکر ہبلی ہی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ چھوٹے صاحبزادے راہول کمپیوٹر انجینئر ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ پونا میں رہائش پذیر ہیں جبکہ چھوٹی صاحبزادی انورادھا اپنی فیملی کے ساتھ کیلیفورنیا (امریکہ) میں قیام پذیر ہیں۔

ماہنامہ "چہار سو" راولپنڈی نے جولائی/اگست 2011 کا شمارہ "انل ٹھکر" کے فن و شخصیت پر مختص کیا تھا۔ اس شمارے میں شامل اپنے ایک صفحہ کے سوانحی مضمون میں انل ٹھکر لکھتے ہیں:
میری مطبوعات درج ذیل ہیں۔
تین ڈرامائی مجموعے:
(1) خالی خانے 1982 ، (2) اندھے رشتے (طویل ڈرامہ) 1986 ، (3) چوتھی دیوار 2006۔
افسانوں کے مجموعے:
گرم برف 1990۔ موسمی پرندے 1999۔ صفر ضرب صفر 2007۔
ناول:
اوس کی جھیل 2002۔ خوابوں کی بیساکھیاں 2008 (اردو، دیوناگری اور کنٹری میں ترجمہ بھی ہوا ہے)۔

"گرم برف" افسانوں کا مجموعہ دیوناگری میں بھی شائع ہوا ہے۔ میرے تقریباً سبھی افسانے کنٹری ترجمہ ہو کر جانے مانے کنٹری رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ "اکھڑے لوگ" ڈرامہ بھارتیہ بھاشا پریشد کلکتہ کے شریشٹھ بھارتیہ یک بابی شماره 2، میں اردو کے ڈراموں کے ساتھ شائع ہوا۔
1991 میں بلراج ورما (دہلی) نے افسانوں کے ایک منتخب مجموعے "تین خط۔ تین زندگیاں" میں میرا افسانہ "انشاء اللہ" شامل کیا۔
نیا افسانہ (انتخاب) رام لال، مطبوعہ نیشنل بک ٹرسٹ، دہلی میں افسانہ "سنک" شامل کیا۔
ایوان اردو کے افسانے مرتبہ: زبیر رضوی، مخمور سعیدی۔ افسانہ "موسمی پرندے"
یک بابی اردو ڈرامے انتخاب، ترتیب و انتخاب: زبیر رضوی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، میں شامل کیا۔

انعامات: "خالی خانے" کو کرناٹک اردو اکیڈمی اور یو۔پی اکاڈمی نے انعام سے نوازا۔ "اوس کی جھیل" (ناول) کو انعام اول اور "خوابوں کی بیساکھیاں" (ناول) کو Best Book under fiction کے ایوارڈ سے نوازا۔
اکیڈمی نے اردو زبان و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات کے لیے 1996 میں روپے 10 ہزار روہے کے انعام سے نوازا۔ جبکہ افسانوں کی کوئی کتاب کسی اردو اکیڈمی یا اردو کے اداروں کو ارسال نہیں کی گئی تھی۔
کرناٹک یونیورسٹی سے 2007 میں ریسرچ اسکالر غوث برچھی والے نے "انل ٹھکر: شخصیت اور فن" پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے۔
گلبرگہ یونیورسٹی سے محترمہ شمیم ریحانہ نے "انل ٹھکر بہ حیثیت ڈراما نگار" مقالہ برائے ایم فل 2008 میں یونیورسٹی کو پیش کیا۔

معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر انل ٹھکر کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
انیل ٹھکر : زندگی بھر اردو کے عشق میں مبتلا رہا
کرناٹک سے مہر افروز نے اطلاع دی کہ انیل ٹھکر نہیں رہے۔
انیل ٹھکر۔۔۔شاید ہی یہ خبر کسی اخبار میں شایع ہو۔ اردو سے عشق میں ساری عمر گزار دی۔ ہاتھ کچھ نہیں آیا۔کرناٹک میں قیام تھا جہاں سے اردو کے لئے کوئی آواز بلند بھی ہو تو دلی تک سنائی نہیں دیتی۔ ناول نگار تھے۔ ابھی حال کے دنوں میں ان کا ایک ناول آیا تھا۔ صاف ستھری زبان ، جاندار مکالمے ، مسلمانوں کے لئے درد مندانہ احساس۔ ادھر پانچ برسوں میں جو ناول شایع ہوئے ، یہ احساس تمام ناولوں کا حصّہ رہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ آپ ان کے ناولوں کو مقبول ناولوں کے درجے میں نہیں ڈال سکتے۔ افسانے بھی لکھتے تھے۔ لیکن کبھی کسی نے پوچھا نہیں۔ بے نیاز طبیعت کے انسان تھے۔ شہرت سے کافی دور رہنے والے۔
اردو کے ایسے سچے عاشق اب تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گے۔ جوگندر پال ، نند کشور وکرم ، کشمیری لعل ذاکر۔۔ اب یہ کارواں آہستہ آہستہ گم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دنوں میں اردو لکھنے پڑھنے والے صرف مسلمان ہی رہ جائیں گے۔ ہمارے نئے بچوں کو اردو سے محبت نہیں۔ پھر ہم چراغ لے کر ڈھونڈھتے پھریں گے کہ اردو والے کہاں ہیں۔
میری ایک ملاقات تھی۔ دلی ساہتیہ اکادمی سیمینار میں۔ نصرت ظہیر نے ان کے ناول پر مقالہ پڑھا جس میں ان کے ناول کا دور دور تک کوئی ذکر نہ تھا۔ میں نے آواز بلند کی۔ لنچ بریک میں کافی دیر تک انیل صاحب کا ساتھ رہا۔ بولے ، نصرت صاحب نے تو مجھ سے کل دریافت کیا کہ ناول میں کیا ہے ؟ وہ بہترین انسان تھے۔ ان کا آخری ناول بھی میں پڑھ چکا ہوں۔ اردو والوں نے انھیں نظر انداز ہی کیا ہے۔ یہ روش اچھی نہیں۔ ان کی ادبی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مشرف عالم ذوقی کی اس تحریر پر کیے گئے چند تبصرے بھی یہاں پیش ہیں:
Mehar Afroz
ہماری یونیورسٹی میں ان پر پی ایچ ڈی ہوچکی ہے ۔

Mukarram Niyaz
شودھ گنگا ویب سائٹ سے مقالے کی تفصیل مل گئی ہے:
"انل ٹھکر - حیات اور کارنامے"
مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی (2007)
کرناٹک یونیورسٹی (شعبہ پوسٹ گریجوئشن برائے اردو اور فارسی)
ریسرچ اسکالر: محمد غوث ایم۔ برچی والے
گائیڈ: ڈاکٹر سید اشرف حسین (صدر شعبہ اردو و فارسی، کرناٹک آرٹس سائنس کامرس کالج دھارواڑ)

Syed Riyaz Rahim
انتہائی افسوس ۔میرے بہت پیارے بزرگ دوست تھے۔میرے ماموں فاروق لال میاں اور ابو طاہر لال میں کے ساتھ اکثر ہمارے گھر بھی آ یا کرتے تھے۔ہم اکثر گھنٹوں بات چیت کرتے تھے مجھے کبھی ہی نہیں ہوا کے وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے۔انتہائی افسوس

Mujahid Ul Islam
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر

Saba Mumtaz Bano
بھارت میں اردو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے مگر امید کے چراغ روشن رہیں گے۔إن شاءالله

Rizwan Uddin Farooqui
انتہائی افسوسناک خبر..
میں نے 2018 میں دیکھا تھا انہیں.. ہمارے یہاں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے پروگرام "افسانے کا افسانہ" میں صدارت کی تھی انہوں نے.. منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے..
ان کی ادبی خدمات کو یاد رکھا جائے گا.

Nazia Parveen
گناہ ء کبیره جیسا عمدہ ناول تخلیق کرنا. .انل ٹهکر. ..اردو کا ایک درخشندہ ستاره

Iqtidar Javed
یہاں ہمارے دوست گلزار جاوید نے اپنے پرچے چہار سو راولپنڈی ان کا نمبر ناکلا تھا۔۔۔۔انہی مہینوں میں شاید۔

Irshad Masood
انتہائی افسوسناک خبر.....اس بات کا احساس ہے کہ قابل و لائق افراد کی قدر زندگی میں کم ہی کی جاتی ہے....بعد از مرگ بلند بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں.....اور بہت کچه ہوتا ہے.....لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خدمت کرنے والے دکهاوے پسند نہیں کرتے.....خاموشی سے کام کرتے ہیں اور اچهے لوگوں کے لئے مشعل راہ کا کام کرتے ہیں یا کرجاتے ہیں....!

Iqbal Hussain
افسوس ان حضرات کی تخلیقات
کو اخبارات ورسائل میں سلسلہ وار شایع کرانا چاہیے

Saud Alam
ادب اب پروپیگنڈا بن چکا ہے جناب
آپ اس کا کتنا پرچار پرسار کر اور کرسسکتے ہیں. یہی ادب کی باقیات ہے....!!! یہاں تو دو کوڑی کا انسان جو دو لائن صحیح لکھ نہیں سکتا وہ بھی صدارتی کلمات سے نواز رہا ہے. کیوں....؟ جانتے ہیں..... نہیں.... کیوں کہ آپ جان کے بھی انجان ہیں.....! نہیں تو آپ کا خیمہ بھی بدل جائے گا....!!!
بس لکھتے رہیے
یوں ہی ڈھل جائے دن
یوں ہی ڈھل جائے شام

M. A. Zauqui
پیارے سعود . ایک زمانہ تھا جب سیمیناروں میں میرا انتظار ہوتا تھا . سامنے کویی بھی ہو .میں مائیک چھین لیا کرتا تھا . نام لینے کی ضرورت نہیں . ١٩٩٩ کے بعد سوچا ، کیا ملا مجھے ؟ سیمینار ختم بات ختم .٢٠٠٠ کے بعد میرے رویے میں تبدیلی ایی . لڑنا بولنا چھوڑ دیا . اب تم لوگ ہو . میرا زمانہ ختم ہوا . بتاو پیارے میرا گینگ یا میرا خیمہ کون سا ہے .میں تو کسی سے ملتا بھی نہیں .

Mohammed Mujeeb Ahmed
صدمہ انگیز خبر۔۔۔۔ماہنامہ " شاعر "(ممبئی) میں ان کے افسانے پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے۔ان کی شخصیت ایک خاموش روشن چراغ کے مانند تھی۔
" اب کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے "

Masood Baig
مقالے تو آجکل ایسے رواروی میں لکھے اور پڑھے جانے لگے ہیں اب اسے بدعتِ جاریہ سمجھیے. انل ٹھکّر کی کہانیوں کو کافی زمانے سے پڑھتے آرہا ہوں. بالکل عام زندگی کی کہانیاں، عام مسائل. کہانی کی بُنوٹ سے ہی حسّاس طبع اور ذہین قلمکار محسوس ہوتے ہیں. ایشور انکی آتما کو شانتی دے. آج کے دن دونوں مرحومین میں ایک بات نکل کر سامنے آ رہی ہے کہ دونوں کے ساتھ حق طلفی ہوئی اور دونوں ہی نظر انداز کیے گئے

Khan Rizwan
افسوس ناک خبر ہے، اردو کا ایک محسن بڑی خاموشی سے چلا گیا افف

Naeem Talokar
آہ افسوس۔ اردو کا ایک اور متوالا چلا گیا۔ ادیب اتنی خاموشی سے کیوں چلے جاتے ہیں ۔اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر

Baig Ehsas
نصرت ظہیر کے بارے میں آپ نے سچ لکھا۔ ایک مزاح نگار سے سنجیدہ ناول پر پیپر لکھوا کر مذاق کیا گیا تھا۔ بعد میں نصرت ظہیر نے سمینار پر کالم بھی لکھا تھا جو ان کے پیپر کی طرح ہی تھا۔ انل ٹھکر صاحب نے اس سمینار میں اپنے کیمرے سے میرا ایک پورٹریٹ بھی بنایا تھا۔ چہار سو میں تواتر سے لکھتے تھے اور ان ہی کے توسط سے چہار سو ملتا رہا۔ اردو سے محبت کرنے والا سچّا سکیولر ادیب نہ رہا۔

Mohd Zafaruddin Baig Ehsas
ساہتیہ اکیڈمی میں یہ مذاق ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ وہاں چند مخصوص لوگ ہی مسلسل اور متواتر بلائے جاتے ہیں۔

Mukarram Niyaz
یہی حال حیدرآباد کے چند مخصوص قسم کے سالانہ سمینار/کانفرنس/کانگریس کا ہے
جہاں چند مخصوص لوگ ہی مسلسل اور متواتر بلائے جاتے ہیں

Syedhasan Qayamraza
کرناٹک کے مشہور اردو ناول نگار اور افسانہ نگار ۔۔ان کے کئی افسانے اور ناول پڑھ چکا ہوں ۔۔۔اپنے مذہبی اقدار کا انہوں نے ۔۔۔اردو پڑھنے والوں کو بتایا ۔۔ان کی تمام ناولیں ،اور افسانے سچے ہیں ۔۔۔جو کچھ سماج میں ہو رہا ہے وہ لکھ دیتے تھے ۔۔۔ان کی ناولیں کنڑا زبان kannada language میں ترجمہ ہوچکی ہیں ۔۔یا انہوں نے خود کنڑا میں لکھا ہے ۔۔کرناٹک میں ان کی بہت قدر تھی ۔۔ان کے انتقال کا سن کر بےحد افسوس ہوا ان کے ارکان خاندان کو میری جانب سے بہت بہت تعزیت پیش کرتا ہوں ۔۔اچھے انسان ۔۔اچھے ہی رہتے ہیں اور انشاءاللہ ان کے انتقال کے بعد ان کی بہت قدر ہوگی ۔۔۔

Ahmed Naeem
مولا ان کی آتما کو سنانتی عطا فرمائے آمین ثم آمین

Safdar Nawaid Zaidi
افسوس کہ ہم ابھی تک ان کا لکھا ہوا کوئی ناول نہیں پڑھ سکے ہیں۔ ان کے گلے میں یہ سندھی اجرک کتنی بھلی لگ رہی ہے

حمید قیصر
آپ کے آس بھرپور نوٹ سے میں یہی سمجھا ہوں کہ کشمیر اور ہندوستان میں جب تک مسلمانوں سے زیادتیاں جاری رہیں گی ان کا استحصال جاری رہے گا۔ مسلمان بھی کسی صورت محبت نہیں کر پائیں گے۔ نفرت کی اس فضا میں انل ٹھکر جیسے متوازن اور انسان دوست ادیبوں سے دل داری کی جانی چاہیئے۔ مسلمانوں کو کسی بھی شعبے میں ایسے انسان دوستوں کی انکی زندگی میں قدر کرنی چاہئیے۔ ان کی رحلت سے اردو کا تو ہے ہی دراصل مسلمانوں کا نقصان ہے۔۔۔

Renown urdu writer Anil Thakkar passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں