محبوب خاں کی شناخت کے لیے ان کی فلموں کے آغاز میں گرج دار آواز میں پڑھا جانے والا مست کلکتوی کا یہ شعر بڑی اہمیت رکھتا ہے:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
بعد میں دوسرے ڈائرکٹروں نے بھی محبوب کی تقلید کی اور آغازِ فلم میں شعر پڑھا جانے لگا۔ مثلاً ناصر حسین کی فلموں میں جگر کا شعر:
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
اور محمود نے:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا مری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا مری
پھر فلمسازوں نے اپنے اپنے پروڈکشن کی پہچان کے لیے گیتا کے اشلوک پڑھے۔ محبوب نے محنت و مزدوری کی نشانی درانتی ، ہتھوڑا پیش کیا تو کسی نے گلاب، کنول، دیوی دیوتاؤں کے پیکر اور کسی نے عقاب کا سہارا لیا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں لیکن شروعات کا سہرا محبوب خاں کے سر بندھتا ہے۔
ہدایت کار محبوب خاں اور بمل رائے ایسی ہی دو شخصیتیں تھیں جنہیں عوام اب بھی یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ ہدایت کار ہیں جو فلمی دنیا میں ایک مقصد لے کر داخل ہوئے، اپنے کام کو عبادت جانا اور کٹھن سے کٹھن مراحل میں بھی جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی بھی فلمی دنیا کو "مقامِ عیش و عشرت" نہیں جانا اور نہ ہی اسے روپیہ کمانے کا کوئی کارنیوال!
محبوب صاحب اور بمل رائے نے اپنی فلموں کے ذریعہ ہمیشہ ایک صحت مند سماجی انقلاب کی کوشش کی اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ ان ہدایت کاروں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کبھی بھی اپنے مقصد کے ساتھ غیر سنجیدہ نہیں ہوئے جبکہ اس جگمگاتی دنیا میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ان پر قابو حاصل کرتے ہوئے اپنے مقصد میں آگے بڑھتے ہی گئے۔
محبوب صاحب کی فلمیں "عورت" (ریلیز: 1940) (جو 'مدر انڈیا' [ریلیز: 1957] کے نام سے دوبارہ بنائی گئی) ، روٹی (1942) ، انداز (1949) ، آن (1952) ، امر (1954) ایسی فلمیں ہیں جن میں سماجی ناانصافیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعہ ایک صحت مند انقلاب کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یقیناً ان فلموں کا سماج کے ایک بڑے طبقے کی ذہنی تربیت میں بڑا حصہ ہے اور جب جب بھی یہ فلمیں دکھائی جائیں گی یہ عمل جاری رہے گا۔
محبوب صاحب کا تعلق ایک کسان گھرانے سے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستانی کسان کی تکلیف دہ زندگی اور سرمایہ دارانہ نظام کی مصیبت کو جس خوبصورتی سے "مدر انڈیا" میں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی موضوع کو محبوب صاحب "عورت" کے نام سے پہلے بھی فلما چکے تھے، اس وقت بھی اس فلم نے دھوم مچا دی تھی۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے محبوب صاحب "عورت" بنا کر پوری طرح مطمئن نہیں ہو پائے تھے۔ اسی موضوع کو انہوں نے دوبارہ "مدر انڈیا" کے نام سے فلمایا اور اپنے فن کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ انہوں نے ڈھائی گھنٹوں میں تاریخ کے ایک بھیانک دور کو جتنی حقیقت اور سچائی کے ساتھ پیش کیا تھا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ "مدر انڈیا" کے بعد اسی موضوع کو لے کر فلمساز آج بھی فلمیں بنا رہے ہیں لیکن وہ 'مدر انڈیا' کی سچائی تک نہیں پہنچ سکے۔
اسی طرح محبوب صاحب کی ایک اور فلم ہے "روٹی"۔ یہ فلم بھی سرمایہ دارانہ نظام پر ایک بھرپور وار ہے۔ اس فلم کا موضوع تھا: 'روپیہ اور ضرورت'۔ فلم 'روٹی' میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بتایا گیا تھا کہ روپیہ ہر مرض کی دوا نہیں بن سکتا۔
"روٹی" اور "عورت" جیسی فلمیں بنا کر محبوب صاحب نے ایک انقلابی ہدایت کار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا تھا۔ روٹی اور عورت جیسی فلمیں اس دور میں بنائی گئیں جبکہ سماجی انصاف کی بات کسی جرم سے کم تصور نہیں کی جاتی تھی۔ محبوب صاحب ان فلموں کے ذریعہ جہاں عوام کی نظروں میں ایک انقلابی ہدایت کار کے روپ میں ظاہر ہوئے وہیں خواص کی نظروں میں معتوب بھی ہوئے۔ لیکن وہ اس عتاب سے گھبرائے نہیں بلکہ ان کو اردو کے اس شعر کے ذریعہ منہ توڑ جواب دیا ہے:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
آزادی کے فوراً بعد انہوں نے "انداز" بنائی۔ یہ فلم اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس میں انہوں نے پوری فلم میں مغربی تہذیب کی چکاچوند دکھا کر آخر میں فلم کی ہیروئین کے ایک مکالمے کے ذریعے اس سماج پر بھرپور ضرب لگائی تھی۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ محبوب صاحب نے ہندوستانی فلم کے پردے پر پہلی بار "اینٹی ہیرو" کا کردار پیش کیا اور اس طرح ایک اداکار دلیپ کمار ہمارے سامنے آیا۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ "انداز" کو مختصر کہانی کی تیکنیک پر بڑی عمدگی سے فلمایا گیا تھا۔ 'انداز' کے بعد 'آن' ، 'امر' پھر 'مدر انڈیا' میں محبوب صاحب نے اپنی ان تمام فلموں میں "اینٹی ہیرو" کو روشناس کروایا۔
ضمیر کی کشمکش کے موضوع پر بنائی جانے والی فلم "امر" بھی محبوب صاحب کی ایک یادگار فلم ہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال ایک انگریزی ناول [An American Tragedy] سے لیا گیا تھا۔ ہالی ووڈ میں بھی کافی بڑی اسٹارکاسٹ (مونٹگمری کلفٹ، ایلزبیتھ ٹیلر، شیلے ونٹرز) کے ساتھ اس ناول کو فلمایا گیا تھا، لیکن انگریزی فلم [A place in the Sun] کو دیکھنے کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ محبوب صاحب کی فلم "امر" محدود تیکنیکی سہولتوں کے باوجود ایک اعلیٰ درجہ کی فلم ثابت ہوئی تھی۔
محبوب صاحب کی فلم "آن" بظاہر ایک کاسٹیوم ڈرامہ ہے لیکن جمہوریت کے موضوع پر یہ ایک بےمثال فلم ہے۔ 'آن' انتہائی جدید انداز میں جس خوبصورتی کے ساتھ لکھی گئی تھی اسی نفاست سے فلمائی بھی گئی اور تکنیک کے اعتبار سے تو اپنی مثال آپ ہے۔ بالی ووڈ فلمی دنیا سے وابستہ عادت سے مجبور فلمساز "آن" کو سامنے رکھ کر آج بھی فلمیں بنا رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی "آن" جیسی فلم بنا نہیں پایا۔
محبوب صاحب کی فلموں کے کردار جیتی جاگتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ان کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کے خوبصورت جال میں زندگی کے دکھ درد کو بڑی نفاست سے سلولائیڈ پر منتقل کرتے تھے اور اس خوبصورتی سے منتقل کرتے تھے کہ عوام سے لے کر خواص تک ان کی فلموں سے متاثر ہو کر تھیٹر سے باہر نکلتے۔
افسوس کہ محبوب صاحب نے اپنے پیچھے کوئی ہونہار شاگرد نہیں چھوڑا جو ان کے اسکول کو زندہ رکھتا لیکن فلمی دنیا کو انہوں نے ایک انتہائی ماڈرن اسٹوڈیو دیا ہے جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
اس کے برعکس بمل رائے نے اپنے اسکول کو چلانے کے لیے اپنے پیچھے بڑے ہی قابل شاگرد چھوڑے ہیں۔ رشی کیش مکرجی، اسیت سین اور گلزار ایک طرح سے ہمیں بمل رائے کے قریب رکھتے ہیں اور اپنی فلموں کے ذریعہ عوام کے دلوں میں ان کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔
بمل رائے اپنی فلموں میں داخلی احساس کے ذریعہ موضوع کو اجاگر کر دیتے تھے، پھر دھیمے دھیمے انداز میں اپنی بات کہتے ہوئے آگے بڑھتے تھے جوکہ بنگالی فلموں کا ایک خاص اسٹائل ہے۔ ناول یا کہانی کے لب و لہجہ کو بمل رائے ہوبہو فلم بند کرنے میں کمال رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کاری میں خاص بات یہ تھی کہ اپنی فکر کی چھاپ کو پوری فلم پر محیط رکھتے۔ وہ کسی نعرے اور ڈرامے کے بغیر جذبات نگاری کے ذریعہ اپنی بات آسانی سے کہہ جاتے تھے۔
دو بیگھ زمین، پرنیتا، دیوداس، سجاتا، پرکھ، بندنی اور مدھومتی وغیرہ میں بمل رائے نے اپنے فن کا کمال دکھایا ہے۔
جس طرح محبوب صاحب فلم "عورت" بنا کر بھی پیاسے تھے اور اسی پیاس نے انہیں "مدر انڈیا" جیسی فلم بنانے پر مجبور کیا، ویسے ہی بمل رائے کے لیے فلم "دیوداس" ایک تحقیق سے کم نہیں تھی۔
پہلی بار جب دیوداس بنی تو شاید وہ اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے، اس کے بعد مختلف اوقات میں جب جب بھی "دیوداس" بنی، بمل رائے اس کے ساتھ وابستہ رہے اور اس طرح سرت چندر کا یہ ناول ان کے لیے ایک ریسرچ کی حیثیت اختیار کر گیا اور جب بمل رائے کی ہدایت میں تیار ہونے والی فلم "دیوداس" (ریلیز: 1955) نمائش کے لیے پیش کی گئی تو محسوس ہوا کہ بمل رائے کی فلم دیوداس واقعی سرت چندر کے ناول دیوداس کا بالکل صحیح روپ ہے۔
اسی طرح "دو بیگھ زمین" میں انہوں نے محبوب صاحب کی فلم "مدر انڈیا" کے طرز پر ہندوستان کے کسان کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ دونوں فلموں کا موضوع ایک ہی ہے لیکن پیش کش کا انداز جدا ہے۔ غریب کسان کے دکھ درد کو بمل رائے نے اس کی زندگی سے نکال کر سلولائیڈ میں رکھ دیا تھا اور اس طرح عوام فلم "دو بیگھ زمین" کے مجبور و بےبس کسان کی زندگی کے دکھوں کو دیکھ کر سوچنے اور غور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
جب کہ محبوب صاحب "مدر انڈیا" کے ذریعے ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دے گئے ہیں۔
فلم "سجاتا" چھوت چھات کے مسئلے پر بنائی گئی چند نایاب فلموں میں سے ایک ہے۔ اس فلم کی ہیروئین ایک اچھوت لڑکی ہے لیکن وہ ایک اچھے ماحول میں پروان چڑھ کر کس طرح اخلاق و کردار کا ایک حسین پیکر بن گئی، بمل رائے نے اس بات کو بہت سیدھے سادے اور پراثر انداز میں فلمایا تھا۔
"بندنی" بمل رائے کی فلم تھی۔ اگر وسائل اور حالات بمل رائے کا ساتھ دیتے تو "بندنی" واقعی ایک لاجواب فلم بنتی، لیکن پھر بھی یہ فلم تاثر سے بھرپور تھی۔ سزا یافتہ عورتوں کی زندگی کے پس منظر کے ساتھ کہانی شروع ہوتی ہے، مختلف گیتوں اور موڈ فوٹوگرافی کے ذریعہ آہستہ آہستہ کہانی ماحول کی گرانی کو اپنے اندر سمیٹتی ہوئی اختتام کو پہنچتی ہے۔ اس فلم میں بمل رائے نے گیتوں اور موڈ فوٹوگرافی کے ذریعہ ماحول گرانی کو بہت ہی پراثر انداز میں پیش کیا ہے۔
ایسی بنگالی فلمیں بہت ہی کم دیکھنے کو ملیں گی جسے خواص و عوام نے یکساں طور پر پسند کیا ہو۔ چنانچہ صرف فیملی ڈرامے کو چھوڑ کر باقی سبھی بنگالی فلمیں خواص کو ہی اپنی طرف متوجہ کرتی رہیں۔ محبت، انا اور نظریاتی ٹکراؤ بنگالی فلمیں بنانے والوں کے محبوب موضوعات ہیں۔ اسی لیے ان کی فلمیں زیادہ تر داخلی احساسات کی ترجمان ہوتی ہیں اور انہی موضوعات کو مرکزیت دے کر وہ سماجی ناانصافیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ستیہ جیت رے، تپن سنہا اور مرنال سین نے سماجی موضوعات پر بعض ایسی فلمیں تخلیق کی ہیں جنہیں عالمی اعزازات سے نوازا گیا ہے، لیکن ان ہدایت کاروں کی فلمیں "عوام" کے لیے نہیں ہیں۔
آج بمل رائے اور محبوب خاں ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی فلمیں اور ان کے کارنامے ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ انہوں نے فلموں کے ذریعہ ملک و قوم کی جو خدمت انجام دی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ بھلے ہی انہیں فلمی دنیا بھلا دے لیکن عوام انہیں کبھی بھی بھول نہ پائیں گے۔
محبوب خاں کی فلمیں:
الہلال، دکن کوئین، طوفان میل، من موہن، جاگیردار، ہم تو اور وہ، وطن، ایک ہی راستہ، علی بابا، عورت، بہن، نئی روشنی، جوانی، نردوش، رادھیکا، روٹی، نجمہ، خاندان، انداز، تقدیر، ہمایوں، انمول گھڑی، اعلان، انوکھی ادا، آن، امر، مدر انڈیا اور سن آف انڈیا۔
بمل رائے کی فلمیں:
ہم راہی، دو بیگھ زمین، انجان گڑھ، پہلا آدمی، ماں، پرنیتا، براج بہو، باپ بیٹی، نوکری، دیوداس، مدھومتی، یہودی، سجاتا، پرکھ، پریم پترا اور بندنی۔
ماخوذ:
ماہنامہ 'فراست' کناڈا، 1983
تیشہ (آثارِ ادب نمبر) ، جنوری 2013
ماہنامہ 'فراست' کناڈا، 1983
تیشہ (آثارِ ادب نمبر) ، جنوری 2013
Mehboob Khan & Bimal Roy, the stalwarts of Bollywood, Article by: Azam Rahi.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں