ترجمے کے مسائل اور اردو ناول کے ملیالم ترجمے (1947کے بعد)
زبان جتنی پرانی ہے ترجمہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔انسان ابتدائی زمانے سے بشکل قبائل زندگی گذارتے آئے ہیں۔الگ الگ قبیلے میں الگ الگ زبانیں تشکیل پائی ہیں۔حالانکہ علحیدہ زبانوں کے درمیان مختلف مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں۔تاہم ہر ایک زبان اپنا ایک خاص شخصیت رکھتی ہے۔اس انسانی تشخص کی تشکیل میں زبان کے پولنے والے لوگوں کے خیالات،احساسات رجحانات،تخیلات سے نہیں بلکہ اس زبان کے بولنے والے علاقے کی جغرافیائی اور ماحولیاتی خصوصیات بھی شامل رہیں ہے۔الغرض زبان ایک قوم کی ثقافتی نمائندگی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔زبان ثفاقت کی حاصل ہونے کی وجہ سے ایک زبان سے دوسری میں منتقل کے دوران بہت سے باریک ثقافتی مسائل مترجم کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔اس لیے ترجمہ ایک بہت صبر آزما کام ہے۔ترجمے میں مترجم کو خیالات کی ترسیل کے ساتھ ساتھ بیان کی ندرت و نزاکت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔ترجمہ اگر تخلیقی کتاب کا ہے تو اسلوب بیان کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔اگر یہ بیان رنگینی ہو تو ترجمے کا یہ عمل زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
ترجمہ دراصل مصدری زبان (Source Language) میں موجودہ خیالات و تاثرات کو کسی طرح کمی بیشی کے بغیر ہدفی زبان(Target Language) کے مزاج سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اُجاگر کرنے کا نام ہے۔اس عمل میں ایک مترجم کے لیے مصدری اور ہدفی دونوں زبانوں پر دسترس ہونا بہت ضروری ہے۔ترجمہ لفظی بھی ہو سکتا ہے اور آزاد بھی مگر دونوں صورتوں میں مترجم کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں میں کافی عبور حاصل ہو۔
اگر ترجمے کا یہ عمل نہ ہو تو علم اور کلچر ایک خاص علاقے تک محدود ہو کر رہ جاتے۔حتیٰ کہ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب بھی محدود علاقے تک سکڑ کر رہ جاتے۔بائبل(Bible) اور قرآن مجید کا ترجمہ آج سیکڑوں زبانوں میں دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ دیگر علمی و ادبی کتابیں بھی ترجمہ ہو کر کونے کونے تک پہنچ گئی ہیں۔ازمنہ وسطیٰ میں عربی زبان ایک علمی زبان بن گئی۔اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ عباسیہ حکومت کے زمانے میں دنیا بھر کی علمی کتابیں سرکاری سطح پر عربی زبان میں منتقل کر دی گئیں۔تراجم اور نقول ہر زبان کی نشو و نما میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔سنسکرت میں موجودہ بہت ساری کتابیں و علوم آج نہ صرف ہندوستانی زبانوں کے بلکہ غیر ہندوستانی زبانوں کے بھی جزو لاانفک ہیں۔اچھی اور قابلِ قبول چیز وں کو قبول کرنے کا مادہ انسانی فطرت میں وسعت ہے۔یہی چیزیں ترجمے کے عمل کے محرک ثابت ہوئی ہے۔
اردو زبان کی نشو نما بھی بے شمار تراجم کی مرہون منت ہے۔اس میں دکنی ادب کی بے شمار تحریرات اور فورٹ ولیم کالج،قدیم دلّی کالج وغیرہ اداروں کے کاوشوں سے لیکر عہد حاضر تک مختلف تراجم اور نقول جن میں ناول، افسانے،ڈرامے،نظمیں،غزلیں اور مذہبی تحریریں جیسی ادبی تخلیقات اور علمی نگارشات بھی شامل ہیں۔نثری صنف نت نئے خیالات اور ہیئت سے دو چار ہوتی رہی ہے۔
اب میں اس موضوع سے انحراف کرتے ہوئے اردو ناول کے 1960ء کے بعد کے ملیالم ترجمے کی طرف آتا ہوں۔جہاں تک تراجم کا تعلق ہے،اردو ناول بھی اس معاملے میں دوسری زبانوں کے ناولوں سے بہت آگے ہیں۔ہندی تخلیقات کے علی الرّ غم ناول کا ترجمہ ہندی سے زیادہ اردو سے ملیالم میں ہوا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔بات یہ ہے کہ یہ سب تراجم سرکاری پالیسی کے پیشِ نظر بلکہ ان تخلیقات کی ادبی قدر وقیمت کے پیشِ نظر ہوئے ہیں۔ترجمے میں کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ مصدری زبان(Source Language) کا ہدفی زبان(Target Language) میں مناسب طریقے سے انتقال ہو۔باالفاظِ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترجمہ دو تہذیبوں یا ثقافتوں کا باہمی تبادلہ ہے۔کیا عجب ہے تراجم کے اس صبر آزما میدان میں بھی اردو کی استادی کا لوہا مانا گیا ہے۔
مشہور ادباء پریم چند اور کرشن چندر کے بیشتر اہم ترین ناولوں کے تراجم زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر ملیالم میں جگہ پا چکے ہیں۔پریم چند بیشتر ناولوں کا ملیالم ترجمہ بشمول گؤدان،میدانِ عمل اور نرملا 1960 ء کے بعد منظرِ عام پر آیا ہے۔امراؤ جان ادا کا ترجمہ کتابی شکل میں پہلے ہی آچکا ہے۔حال میں اس کا دوسرا ترجمہ ملیالم ہفتہ وار ‘چندرکا’ (Chandrika) میں قسطوار شائع ہوا ہے۔کرشن چندر کے بیشتر ناولوں کا ترجمہ 1980ء کے بعد عمل میں آیا ان میں ”جب کھیت جاگے”،”یادوں کے چنار“ کا ترجمہ ماتربھومی بکس کے وسیلے سے 2004ء میں ہوا۔”ایک عورت ہزار دیوانے“ کا ترجمہ Current Booksکے ذریعہ منظر عام پر آیا۔اسی دوران راجندر سنگھ بیدی کا مشہور ناول ”ایک چادر میلی سی“ اور جیلانی بانوں کا ناول ”بارشِ سنگ“ کا ترجمہ ہوا۔ قرۃ العین حیدرکا مشہور ناول ”آگ کا دریا“ 1991ء میں ملیالم میں ہوا۔اس کے علاوہ بھی مختلف اردو ناول دقتاً فوقتاً ملیالم زبان میں منتقل ہو کر منظرِ عام پر آئے۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ملیالم کے مقتدر ناشریں ما تربھومی بکس (Mathrubhoomi Books)،Poorna Publications,، I.P.H اورCurrent Books اس میدان میں پیش پیش ہیں۔
مگر ترجمے کے اس عمل میں زبان کی ثقافتی باریکی کی بناء پر بہت ساری غلطیاں ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر ملیالم قلم کار ویکم محمد بشیرؔ کے ناول ”میرے دادا کا ہاتھی“ کے ہر سطر میں ثقافتی عناصر کا بڑا دخل ہے۔اس کا عنوان ہی غلط رکھا گیا ہے۔ملیالم ناول کے اندر جو طنزیہ پہلوہے، اس کی اس کی وضاحت کے لیے بقول ڈاکٹر حسواردو میں کوئی لفظ نہیں ہے۔تاہم اس کے اندر پنہاں استہزائیہ پہلو کو ابھارنے اور اجاگر کرنے کے لیے اس طرح کے عنوان دیکھے جا سکتے ہیں۔”پدرم سلطان بود“، ”ابے میرے دادا کے بھی بھلا ایک ہاتھی ہوتا ہے۔تھا!“ ایسے عنوانات کے ٹانکے جانے پر بھی پورا مفہوم واضح ہونے نہ پاتا۔حسّو صاحب مزید فرماتے ہیں کہ امراؤ جان ادا کو”رنڈی کی کہانی“ کا عنوان دیکر طوائف کی ناموس و حرمت کو خاک میں ملا دیا ہے۔The Story of a Protittute کی جگہ The Story of The Courtezan عنوان رکھا جاسکتا تھا۔
زبان انسان کی شناخت اور پہچان ہے۔کوئی بھی زبان ہو، اس کی اپنی اہمیت انفرادیت ہے۔ چاہے اس کے بولنے والے علاقائی سطح پہ ہوں یا بین الاقوامی سطح پہ۔ایک ہی زبان کے بولنے والے ایک ہی ثقافتی کی وراثت کے حامل ہوں گے اور ان میں یکساں قدریں پائی جاتی ہیں،چاہے اس میں کمی بیشی کیوں نہ ہو۔اس لحاظ سے اردوناول ایک ہی تہذیب اور ثقافتی اقدار کی حامل نظر آتے ہیں۔حالانکہ ان میں مختلف زمانے میں مختلف موضوعات سمٹ آئے ہیں اور ان میں الگ الگ رجحانات بھی کارفرما ہیں۔اس لیے ڈپتی نذیر احمد سے لے کر زمانے حال تک اردو ناول بہت سارے ناول نگاروں کی تجربہ گاہ رہے ہیں اور یہ نثری صنف نت نئے خیالات اور ہیئت سے دو چار ہوتی رہی ہے۔
***
Dr.Nakulan K. V.
Associate Professor of Urdu, Sree Sankaracharya University of Sanskrit
Regional Centre, Naduvathur, P.O. Koyilandy, Kerala. Kozhikode, Pin. 673620
Mob.No. 9497860850
Dr.Nakulan K. V.
Associate Professor of Urdu, Sree Sankaracharya University of Sanskrit
Regional Centre, Naduvathur, P.O. Koyilandy, Kerala. Kozhikode, Pin. 673620
Mob.No. 9497860850
ڈاکٹر نکولن کے۔ وی۔ |
Malyalam translations of Urdu Novels. Article: Dr.Nakulan K. V.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں