سرلا دیوی
کا تعارف صرف یہ نہیں کہ وہ اردو کے دو مشہور ادیب کرشن چندر اور مہندرناتھ کی بہن ہیں بلکہ وہ خود بھی اپنی ایک منفرد ادبی شخصیت رکھتی ہیں۔ بیسویں صدی کی چوتھی تا چھٹی دہائی کے دوران ان کے افسانے برصغیر کے اکثر ممتاز رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ "کلنک" 1949 میں شائع ہوا تھا اور اس نے مقبولیت بھی حاصل کی۔ افسانوں کا دوسرا مجموعہ "چاند بجھ گیا" 1954 میں شائع ہوا۔
سرلادیوی کے شریک حیات ریوتی سرن شرما نے اپنے برادر نسبتی مہندرناتھ کے افسانوں کا جو مجموعہ شائع کروایا تھا، وہ پچھلے دنوں تعمیرنیوز پر پیش کیا جا چکا ہے۔ اب سرلا دیوی کا متذکرہ بالا افسانوی مجموعہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً پونے دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
سرلا دیوی کے منتخب 9 افسانوں کے اس مجموعہ کا دیباچہ خواجہ احمد عباس نے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔ادبی قابلیت موروثی جائیداد نہیں ہے جو کسی خاندان کے ہر فرد کو برابر تقسیم کی جا سکے۔ کبھی کبھی ایسا ضرور ہوا ہے کہ ایک ادیب کی اولاد میں سے بھی کوئی ادیب ہوا ہے۔ جیسے منشی پریم چند کے بیٹے امرت رائے، سجاد حیدر یلدرم اور نذر سجاد حیدر کی بیٹی قرۃ العین حیدر اور گوربخش سنگھ کے بیٹے نوتیج۔ مگر ہندوستان تو کیا دوسرے ملکوں کی ادبی تاریخ میں سوائے انگلستان کے سِٹ ویل خاندان (Sitwell family) کے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی خاندان کی ایک ہی نسل میں دو یا تین ممتاز ادیب پیدا ہوئے ہوں۔ یہ فخر صرف کرشن چندر کے خاندان کو نصیب ہوا ہے کہ کرشن چندر کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ اور بہن سرلا دیوی نے بھی ادب کے میدان میں نام پیدا کیا ہے۔
سرلا کے افسانے ہندوستان کے اکثر ممتاز رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ "کلنک" شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے، مگر ان کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ سرلا صرف کرشن چندر کی چھوٹی بہن ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی منفرد ادبی شخصیت رکھتی ہے۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ اس کے افسانے کرشن چندر کی دھیمی سی "کاربن کاپی" ہوں گے، تو یہ غلط ہے۔
ہو سکتا ہے کہ سرلا کے ادبی ذوق کو کرشن چندر نے پروان چڑھایا ہو، شاید کبھی لکھنا سکھایا ہو اور اصلاح بھی کی ہو۔ مگر سرلا کا اسٹائل اس کا اپنا ہے، اور اس کی کہانیوں کا مواد ایسا ہے جو کرشن چندر تو کیا کسی مرد کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف ایک عورت کی حساس نظر عورت کے نفسیاتی کردار کی ان گہرائیوں تک پہنچ سکتی ہے جو سرلا کی کہانیوں میں جا بجا ملتی ہیں۔
سرلا کی کہانیوں کا موضوع ہے "نئے ہندوستان کی نئی عورت" ، جو ایک سسکتے ہوئے نظام کے فرسودہ بندھنوں میں الجھی ہوئی ہے مگر جس کے مجروح احساس کی کوکھ سے ایک نیا سماجی نظام جنم لینے والا ہے۔
سرلا کی اکثر کہانیوں پر ایک عمیق اداسی چھائی رہتی ہے۔ وہ اداسی جو ہندوستان کی بیشتر عورتوں کی موت نما زندگی پر چھائی رہتی ہے۔ وہ کالج کی فیشن ایبل لڑکیوں کے رومان قلمبند نہیں کرتی، اس کے افسانوں میں نہ حجاب امتیاز علی کے "اطالوی دریچے" ہیں نہ قرۃ العین حیدر کا کافی ہاؤس میں خوش گپیاں کرنے والے بےفکروں کا ہجوم ہے۔ اس کے ہاں تو عصمت چغتائی کا بےپناہ نشتر جیسا تیز طنز بھی نہیں ہے جو سماج کے پھوڑوں کی چیر پھاڑ اس بےدردی سے کرتا ہے۔ سرلا جراح نہیں ہے، مصور ہے۔ اس کے افسانے سماجی اور نفسیاتی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں آپ کو نعروں کی گونج نہیں ملے گی۔ مگر اس کے افسانے پڑھ کر آپ اکثر انقلابی نعروں کے اصل معنی سمجھ سکیں گے۔ بظاہر اس کے افسانے المیہ ہیں۔ بیماری، بیکاری، تھکاوٹ، زندگی سے اکتاہٹ، سماجی قیود، اقتصادی مشکلات ۔۔۔ یہ سب سرلا کے افسانوں میں ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ آس کی نظر اس "پہلی گلابی کرن" تک بھی جا پہنچی ہے جو پھیلے ہوئے اندھیرے میں سے پھوٹ رہی ہے۔
***
نام کتاب: چاند بجھ گیا (افسانے)
مصنف: سرلا دیوی
تعداد صفحات: 188
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Chaand bujh gaya - Short stories by Sarla Devi.pdf
چاند بجھ گیا - افسانے از سرلا دیوی :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | دیباچہ (از: خواجہ احمد عباس) | 5 |
1 | چاند بجھ گیا | 11 |
2 | نرک کے دروازے سے | 27 |
3 | شاردا | 53 |
4 | آنسو | 75 |
5 | اب اپنا راج ہے | 89 |
6 | پہلی گلابی کرن | 111 |
7 | جوالا مکھی سلگ رہا ہے | 129 |
8 | جہاں ماں بننا عذاب ہے | 155 |
9 | نیا جنم | 175 |
Chaand bujh gaya, urdu short stories by Sarla Devi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں