عالم برزخ سے ملا رموزی کا خطالسلام علیکم
دادا خیریت بھوپالی کے نام
نسخہ مکروہ
دادا خیریت!
آپ تو نکلے حضرتوں کے بھی حضرت، یعنی اعلیٰ حضرت، سکندر قسمت، میں سمجھتا تھا آپ کو پیکر ایمان و شرافت، رکھتا تھا آپ سے عقیدت، مگر ملتے ہی قلمدان وزارت، اس کے بجائے کہ کرتے جنتا کی خدمت، شروع کردی آپ نے جمع کرنا دولت ہی دولت۔
نوواردین عالم برزخ میں آیا ہے آپ کا ایک سکریٹری جسے ہم کہتے ہیں مشیر، نظر آتا ہے صاحب تدبیر، وہ تھا آپ کا رازدار، کرتا تھا گھوٹالوں کا کاروبار، آدمی تھا بڑا ہشیار اور راشی، ہوا میں بوتے تھے گھوٹالوں کے کھیت، روپیوں سے کرتا تھا آبپاشی۔ فصل ہوتی تھی بارہ ماسی۔ گڑبڑ گھپلے اور گھوٹالے کرنے کے لیے اُس کے پاس ایک تھا نسخہ جو ملا تھا اس کو بڑے مسیح الملک سے، نام تھا اُس کا 'نسخہ مکروہ' مکروہ کا فل فارم Full Form ہے میم سے موکل یعنی گاہک، کاف سے کام یعنی کام کی نوعیت 'را' یعنی "ر" سے رشوت، راشی، رفتم، روپے کا لین دین، واؤ سے وعدہ کام کرنے کا، 'ہ' سے ہوشیاری یعنی سمجھ، رازداری اور ہوشیاری سے کام کرنا۔
نسخہ استعمال کرنے کی ترکیب تھی کاف کو واؤ اور ہ کے ساتھ کوٹ کر شربت 'را' کے ہمراہ میم کے صحت مند ہونے تک کھلائیں۔ مذکورہ مشیر جو کہ تھا مذکورہ بالا نسخہ کا حکیم، میم کو نسخہ مکروہ کھلا کے ادھر روپیوں کا کھیت بوتا تھا اُدھر کاٹ کر خود بھی کھاتا تھا اور دوسروں کو کھلاتا تھا۔۔
عالم برزخ میں داخلہ کے موقع پر اُس مشیر باتدبیر سے جب کی گئی پوچھ تاچھ، قبر کے چیک پوسٹ پر اور دیکھے گئے اُس کے امیگریشن کاغذات [Immigration Papers] اور سختی کی منکر نکیر نے تو بیان کئے اُس نے اپنے کرتوت اور آپ کی قوت لایموت جس کے ذریعہ آزمایا گیا نسخہ مکروہ، دروغ برگردن راوی قصہ یوں بیان کیا گیا کہ آپ نے سنھالتے ہی وزارت کا قلمدان، طلب کیا، مشیر ہمہ دان کو اور کہا کہ ہم ہیں جمنا کے کنارے، اس لیے ہیں بے سہارے۔ گنگا کے کنارے ہوتے تو ہم بھی اپنے ہاتھ دھوتے۔۔
مشیر نے کہا حضور عقلمند کو کافی ہے اشارا۔ آپ ہیں وزیر اور میں ہوں مشیر تو آپ کو گنگا جی میں ہاتھ دھونے کے لیے جانے کی تکلیف نہیں کرنا پڑے گی۔ کیوں کہ جیسی گنگا ویسی جمنا اور پھر گنگا میں تو لوگوں نے اتنے ہاتھ دھوئے ہیں کہ وہ ہو گئی میلی۔ جمنا پھر بھی ہے اچھی۔ اسی میں ہاتھ دھو لیجئے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، سرکار ہے تین پاؤں کا گھوڑا۔ یہ کب ہے سرپٹ دوڑا۔ آپ کردیجئے اعلان کہ جمع ہو گیا ہے گیہوں کا بھنڈار۔ کسانوں کے پاس ہے وافر مقدار، لوگوں کی خوراک ہو گئی ہے کم۔ غلہ سنبھال نہیں پا رہے ہیں ہم۔ چار پیروں سے لے کر دو پیروں تک کے چوہے کاٹ رہے ہیں، گیہوں کے بورے۔ اس لیے اس کے پہلے کہ غلہ سڑ جائے اچھا ہے کسی کے منہ پڑ جائے۔ حضور آپ دے دیجیے مجھے بیس لاکھ ٹن اناج کا ایکسپورٹ آرڈر، میرے پاس ہے ایک خریدار، جو دے رہا ہے دو سو روپئے فی کنٹل کا آفر۔ وزیر نے کہا پرپوزل ہے ٹھیک لیکن معاملہ ہے باریک۔ پہلے بھجوائیے کمیشن بعد میں فائل۔۔
جب گیہوں ہلال عید ہو کر جنتا کی نظر سے ہوا اوجھل۔ اناج کا ہو گیا کال، جنتا ہوئی بھوک سے نڈھال۔ کہنے لگے قائدین اور وزرائے دور اندیش و دور بین، ان اللہ مع الصابرین۔ شکر پروردگار کا کیجئے۔ کھا کے غم گھونٹ صبر کے پیجیے۔ اس دیس کے لوگ امر ہیں جو بھوک سے کبھی نہیں مرتے اور مر بھی جائے تو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھوک سے مرنے کی سند عطا نہیں کرنے دیتے۔
ویسے بھی بھوک سے کوئی نہیں مرتا۔ دیکھئے سماجی کارکن بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ آمرن ان شن کرتے ہیں لیکن کسی کو کیا مرتے ہوئے دیکھا؟ ہمارے دیش کے لوگ خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلاتے ہیں۔ ہمارا دیش ہے مہان، لنگڑا لولا، نوجوان، دیش کا ان داتا ہے کسان۔ دوسروں کو کھلانے میں پن ہے اور شانتی، یہ بھارت کی جنتا ہے جانتی۔ ہمارا دیش ہے بھاگوان کہ خوب ملتا ہے، دان اور انودان۔
جب گیہوں کی ہوئی زیادہ ہائے ہائے، تو پھر مشیر کو بلا کر لی گئی رائے۔ مشیر نے کہا سر، آج ہی دے دیجئے ایک پریس نوٹ۔ گیہوں کی پالیسی میں نہیں ہے کھوٹ۔ لوگ اب گیہوں زیادہ کھاتے ہیں، بڑھ گیا ہے اسٹنڈرڈ۔ جوار کھاتا ہے کوئی نہ مکا، سب کو لگتا ہے گیہوں ہی اچھا۔ خوب کماتے ہیں لوگ ایک کی جگہ چار چپاتی کھاتے ہیں۔ ہونے نہ دیں گے اب اندھیر، گیہوں کے امپورٹ میں اب ہوگی نہ دیر۔ اُدھر گیہوں کھیتوں میں لہلہلائے گا، ادھر بیس لاکھ ٹن گیہوں امپورٹ ہو کے آئے گا۔ سر میرے پاس ہے ایک سوداگر، جو دے رہا ہے دو سو روپئے کنٹل کا آفر۔۔
وزیر نے کہا پروپوزل ہے ٹھیک، لیکن معاملہ ہے باریک۔ پہلے بھجوائیے کمیشن بعد میں فائل۔ تو پوچھا چیک پوسٹ آفیسر نے کہاں ہیں 20+20 یعنی چالیس کروڑ۔ بولا مشیر یہاں کیا سیوا کروں سر، مرتے ہی میرے جو وارث تھے مجھ کو گھیرے، کرلیا سب دھن دولت اپنے قبضے میں اور رکھ دیا مجھے خالی ہاتھ لپیٹ کر کفن میں قبر کے اندر، ایکسکیوزمی سر ساری۔
دروغ بر گردن راوی۔
بیان بزبان مشیر، بمقام: قبر کا چیک پوسٹ۔۔
یہ بھی پڑھیے:
لاٹھی اور بھینس - ملا رموزی کی گلابی اردو - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ شمارہ: فروری 2009۔
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ شمارہ: فروری 2009۔
A letter by Mulla Ramuzi, Humorous Essay by: Kausar Siddiqui.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں