دون کا سبزہ - رسکن بانڈ کی 11 کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-23

دون کا سبزہ - رسکن بانڈ کی 11 کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

doon-ka-sabza-ruskin-bond

رسکن بانڈ [Ruskin Bond] (پیدائش: 19/مئی 1934، بمقام کسولی ، پنجاب)
انگریزی زبان کے معروف ادیب اور ادبِ اطفال کے مقبول قلمکار ہیں۔ وہ گذشتہ چھ (6) دہائیوں سے اپنے تخلیقی سفر میں مشغول ہیں۔ اب تک ان کی 500 سے زائد کہانیاں اور 150 کے قریب ناول اور دیگر کتب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ رسکن بونڈ کو معیاری ادبی خدمات کے لیے سال 2014 میں حکومتِ ہند کی طرف سے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ "پدم بھوشن" سے نوازا گیا، اس سے قبل انہیں 1999ء میں 'پدم شری' اور 1992ء میں 'ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ' بھی مل چکا ہے۔ ان دنوں رسکن بانڈ مسوری (ریاست اترکھنڈ) میں قیام پذیر ہیں۔
ساہتیہ اکیڈمی کی انعام یافتہ رسکن بانڈ کی انگریزی کہانیاں ان کے مجموعہ "ہمارے درخت اب بھی دہرادون میں اگتے ہیں" [Our trees still grow in Dehra] (اشاعت: 2004) میں شامل کی گئی ہیں۔
تعمیرنیوز کے ذریعے اسی مجموعہ کی 11 کہانیوں کا اردو ترجمہ پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً پونے دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

رسکن بانڈ کے زیرنظر مجموعہ کی ایک کہانی "تانگے کا آخری سفر" سے ایک اقتباس ۔۔۔
دہرہ دون میں یہ بہار کا موسم تھا اور بنگلے کی دیواریں پھولوں سے لدی بڑی بڑی شاخوں سے گھری ہوئی تھیں۔ پپیتے پک چکے تھے اور پھولوں کی بھینی مہک باغ
کے باہر تک پھیلی ہوئی تھی۔ دادی ماں برآمدے کے ایک کونے میں آرام کرسی پر بیٹھی تھیں اور سلائیوں سے بنتے ہوئے ان کا سر ادھر ادھر حرکت کر رہا تھا۔ وہ میرے والد کے لیے بڑا سویٹر تیار کر رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دہلی میں بہت سردی ہوتی ہے۔ سردی کا موسم شروع ہونے سے آٹھ ماہ قبل ہی انھوں نے ہمارے لیے گرم کپڑوں کی تیاری شروع کر دی تھی۔
کاٹھیاواڑ بحرِ عرب کے ساحل پر واقع تھا اور اس کے گرم پانی کی وجہ سے وہاں زیادہ سردی نہیں ہوتی تھی، لیکن دہرہ دون ہمالیہ کے پہلے ہی سلسلہ کے دامن پر واقع ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا تھا۔
وادی ماں کے بال سفید ہو چکے تھے۔ ان کی بینائی بھی کمزور تھی لیکن ان کی انگلیاں سوئٹر بننے والی سلائیوں پر بہت تیزی سے چلتی تھیں اور صبح سویرے ہی سے وہ اس کام میں لگ جاتی تھیں۔
دادی ماں کی نظر بچتے ہی میں Geranium کے پتوں کو اپنی انگلیوں سے مسلتا اور ناک پر رکھ کر دبا دیتا۔
میں تقریباً ایک ماہ سے اپنی دادی کے پاس دہرہ دون میں رہ رہا تھا لیکن اس دوران میں نے اپنے والد کو وہاں نہیں دیکھا۔ اس سے پہلے کبھی ہم اتنے لمبے عرصہ کے لیے ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے۔ ہر ہفتہ وہ مجھے کتابیں، تصویریں اور پوسٹ کارڈ وغیرہ بھیجا کرتے تھے اور میں پوسٹ مین کی تلاش میں سڑک پر دور تک چلا جاتا کہ شاید کوئی خط میرے لیے اس کے پاس ہو۔
دروازے پر تانگے کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی اور جانی پہچانی گھوڑا گاڑی کھٹ کھٹ کرتی ہوئی دروازے پر آ پہنچی۔
"میں دیکھتا ہوں کون ہے؟" یہ کہتا ہوا میں برآمدے کی سیڑھیوں سے ہوتا ہوا باغیچہ میں پہنچا۔
وہ ہنسی کا تانگہ تھا۔ یوں تو دہرہ دون میں بہت سے تانگے اور تانگا چلانے والے تھے لیکن بنسی میرا پسندیدہ تانگے والا تھا۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا اور ہمیشہ صاف ستھری قمیص اور پاجامہ پہنتا تھا۔ اس کا گھوڑا دوسرے تانگے والوں سے زیادہ صحت مند اور تیز رفتار تھا۔
بنسی کے تانگے میں کوئی سواری بیٹھی ہوئی نہیں تھی اس لیے میں نے اس سے پوچھا : "بنسی تم یہاں کیوں آئے ہو؟"
"دوست، تمھاری دادی نے مجھے بلایا ہے۔" وہ مجھے چھوٹے صاحب یا بابا نہیں کہتا تھا بلکہ دوست کہہ کر پکار تا تھا۔ یہ لفظ میرے لیے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ مجھے تانگے والے کی دوستی پر فخر تھا۔
میں برآمدے سے دوڑتا ہوا آیا اور دادی ماں سے پوچھا : "آپ کہاں جارہی ہیں؟"
"میں بینک جار ہی ہوں۔"
"کیا میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں؟"
"کس لیے؟ تم بنک جا کر کیا کرو گے ؟"
"میں اندر نہیں جاؤں گا۔ میں ہنسی کے ساتھ تانگے میں ہی بیٹھا رہوں گا۔"
"اچھا ٹھیک ہے، آ جاؤ۔"
ہم نے دادی ماں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے میں مدد کی اور میں بنسی کے پاس ہی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے گھوڑے سے کچھ کہا اور گھوڑا ایک جھٹکے کے ساتھ دروازے سے نکل کر تیزی سے سڑک پر آ گیا۔
"بنسی، ذرا آہستہ چلو"۔ دادی ماں نے کہا۔ انہیں تانگا، موٹر کار یا بیل گاڑی وغیرہ ایسی کوئی بھی تیز رفتار چیز پسند نہیں تھی۔
بنسی نے جواب دیا:
"میم صاحب، تیز رفتاری سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو اپنی زندگی میں کبھی تیز چلا ہی نہیں ہے۔ اگر ہمارے پیچھے بم بھی پھٹ رہا ہو تب بھی یہ تیز نہیں دوڑ پائے گا۔ میرے پاس ایک تیز رفتار گھوڑا بھی ہے جس کو میں اس وقت استعمال کرتا ہوں جب سواری بہت جلدی میں ہوتی ہے۔ میم صاحب یہ گھوڑا صرف آپ کے لیے ہے۔"
دادی ماں کو دوسرے گھوڑے کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
نئی دہلی میں ورلڈ بک فئر - ممتاز قلمکار رسکن بانڈ کا بچوں سے خطاب

***
نام کتاب: دون کا سبزہ - رسکن بانڈ کی 11 کہانیاں
مترجم: ضیا الرحمن صدیقی
تعداد صفحات: 176
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Doon ka Sabza _ Ruskin Bond.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفمیپل وڈ : ایک تعارف9
1اچھوت13
2خواہش18
3تانگے کا آخری سفر21
4کلپسو کرسمس37
5دہلی کا آخری سفر42
6وہ بھی کیا دن تھے48
7اور بینا چلی گئی53
8اور وقت گزر گیا65
9ابتدائی کہانیاں70
10مرگِ شجر84
11جنون87

Ruskin Bond 11 short Stories, Urdu translation by Zia ur Rahman Siddiqui, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں