عامر خاں - ایوارڈ کی دوڑ سے دور اپنے فن میں مشغول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-01

عامر خاں - ایوارڈ کی دوڑ سے دور اپنے فن میں مشغول

aamir-khan-mr-perfectionist

عامر خاں - بالی ووڈ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکشنسٹ [Mr. Perfectionist] نے بیسویں صدی کی نویں دہائی میں چار سپر ہٹ فلمیں رنگیلا (1995)، راجہ ہندوستانی (1996)، عشق (1997) اور غلام (1998) جب ناظرین کی نذر کیں تو ایک انٹرویو میں اپنے خیالات و نظریات سے بھی واقف کرایا، جو ممتاز فلمی/ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ اپریل-1999 میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ وہی انٹرویو یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

سوال:
آپ نے اب تک کیا حاصل کیا ہے؟
جواب:
میں سمجھتا ہوں اپنے کیرئیر میں، اپنے چاہنے والوں اور ناظرین سے میں نے پیار اور عزت حاصل کی ہے، جس سے میں خوش ہوں اور جس پر فخر کر سکتا ہوں۔

سوال:
آپ کی منزل کیا ہے؟ کیا حاصل کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب:
بس اچھا کام کروں، لوگوں کے دلوں میں میرے لیے پیار و عزت قائم رہے۔ میں اچھے سے اچھا کام کرتا رہوں، یہی میری منزل ہے۔

سوال:
اداکاری میں آپ کس چیز کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟
اس پیشے کی خاص بات جو مجھے پسند ہے وہ یہ کہ ہر روز مجھے اک نئی چیز جاننے اور کرنے کے لئے ملتی ہے۔ یہ انسانوں کے ساتھ جڑی چیز ہے۔ میں کسی نہ کسی کردار کے جذبات کا اظہار کرتا ہوں، میں کسی سچویشن کو زندگی دیتا ہوں، زندگی کے متعلق سیکھنے اور زندگی جینے کے لئے ملتی ہے۔ آپ کئی طرح کے جذبات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایک سیکھنے والا پیشہ ہے جہاں ہر لمحہ آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔
بحیثیت فن کار اور ایک حساس انسان کے، میں ہر چیز کو انسانی جذبے کے تحت دیکھتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ شاید کبھی مجھے یہ چیز پردے پر کرنی ہوگی (ہنستے ہوئے)۔
اداکاری آپ کو انسان اور انسانیت کے متعلق زیادہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور انسانیت کا درس دیتی ہے۔ اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ مختلف ماحول اور حالات میں انسان کا رویہ کیا اور کیسا ہوتا ہے؟ کیوں ایک انسان جس کے پاس سب کچھ ہے وہ اور پانا چاہتا ہے (لالچ اور ہوس) ؟ کیوں ایک انسان جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے پھر بھی دوسروں کو بانٹنے، کچھ دینے کا جذبہ رکھتا ہے؟ ان حقائق کا ہم مطالعہ کرتے ہیں، مشاہدہ کرتے ہیں۔ کیوں کبھی اچھے سے اچھا انسان غلط کام کرتا ہے؟ کیوں کبھی برا انسان برے ماحول میں رہ کر بھی اچھا کام کر جاتا ہے؟ جو انسانی فطرت ہے وہ جانے کب کیا کر جائے، میرے لئے یہ سب باتیں بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔

سوال:
اداکاری میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟
جواب:
جہاں تک اداکاری میں مشکلات کی بات ہے، میں سمجھتا ہوں اداکاری کی طرح بر پیشے میں کچھ نہ کچھ تکلیفیں اور مشکلات ہوتی ہیں۔ مجھے تو اداکاری میں ہر چیز مشکل لگتی ہے (مسکراتے ہوئے)۔ میں اداکاری کو کبھی آسان سمجھتا ہی نہیں ہوں۔ ایک اموشن ایک کردار کو سچائی کے ساتھ پردے پر لانا سب سے مشکل کام ہے۔ جب میں شاٹ دے رہا ہوں، اس لمحے میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اتنا کھویا رہوں گویا میں ہی وہ کردار ہوں اور اس کردار پر جو گزر رہی ہے وہ مجھ پر گزر رہی ہے۔ لیکن اتنا بھی نہیں کھو جاؤں کہ اپنے مکالمے بھول جاؤں (مسکراتے ہوئے)، ہدایت کار کی ہدایت (انسٹرکشن) بھول جاؤں یا کیمرہ مین کی بات بھول جاؤں کہ مجھے اس لائٹ سے گزرنا ہے جہاں نشان لگا ہے، وہیں تک چل کر جانا ہے نہیں تو فوکس آؤٹ ہو جائے گا۔ ایک سیمی-کانشیس [semi-conscious] اسٹیج پر پہنچ کر شاٹ دوں تاکہ اموشن کی سچائی جو ہے وہ باہر آئے۔ یہ میری کوشش ہوتی ہے، ہر دفعہ میں اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا۔
میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ بر اموشن (جذبہ) کو محسوس کر کے کروں، کبھی کبھی کامیاب ہوتا ہوں کبھی نہیں ہوتا ہوں۔ لیکن سچائی سے شاٹ دینا سب سے مشکل کام ہے۔

سوال:
ایک فن کار کی سماج کے تئیں کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، اپنے اسٹارڈم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا آپ بھی سماجی خدمات میں حصہ لیتے ہیں؟
جواب:
پہلے آپ کے سوال کو درست کر دوں۔ صرف ایک فنکار کی نہیں، ہر شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں اپنی فلموں کے ذریعے کوشش کرتا ہوں کہ جن فلموں میں میں کام کروں وہ فلمیں سماجی طور پر غلط نہ ہوں۔ جیسے ولین فلم میں برا کام کرتا ہے اس کا انجام حقیقت پر ہو، یعنی انجام برا ہی ہو۔ فلم کا سبق صحیح ہو۔ جیسے "غلام" فلم میں سدھارتھ مراٹھے کا میرا جو کردار ہے وہ سڑک چھاپ اوباش لڑکا ہے جو آج کا گم کرده راه نوجوان ہے (مس گائڈیڈ یوتھ - misguided youth) جسے غلط راستے پر ڈالا گیا ہے۔ فلم کا انجام یہ ہے کہ کس طرح کا لڑکا سدھر کر راہ راست پر آتا ہے۔ جو شاید دس پندرہ سال بعد خود رونق سنگھ بن جاتا، وہ سچائی سے لڑتا ہے۔ اپنے آپ سے لڑتا ہے اپنے ضمیر سے لڑتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط ہے؟ پر جب اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تب وہ صحیح راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اس طرح سے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی فلموں کے ذریعے صحیح پیغام دوں، کوئی غلط بات نہ کہوں۔
اس کے علاوہ کئی سماجی تنظیموں کی اعانت کرتا ہوں، اس کے متعلق بتا کر اپنا ثواب ضائع نہیں کرنا چاہتا، ویسے اس کا ذکر کرنا ہی نہیں چاہئے۔
اس کے علاوہ جب بھی کوئی سماجی مسئلے کو لے کر میرے پاس آتا ہے میں انہیں بھرپور تعاون دیتا ہوں۔ ابھی حال میں شہر پونا میں ایک جلسہ ہوا تھا جس میں مہاراشٹر میں گزشتہ دس سالوں میں عورتوں پر خاص کر چودہ پندرہ سال کی کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، جیسے لڑکے پیار کی آڑ میں انہیں اپنی ہوس کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں کبھی ان کا چپره ایسڈ سے بگاڑ دیتے ہیں، کبھی چھری چاقو مار دیتے ہیں، کبھی عزت لوٹ کر خون کر دیتے ہیں اور انہیں جلانا تو عام بات ہو گئی ہے۔ پونا سے کچھ سماجی کارکن میرے پاس آئے تھے کہ ہم اس حساس موضوع پر ایک جلسہ عام منعقد کر رہے ہیں جہاں آپ کو آ کر نسل نو کو اپنے انداز میں سمجھانا ہے۔ میں وہاں گیا تھا، اور میں نے اس جلسے سے خطاب کیا۔ اس جلسے سے امرتا دیش پانڈے کی بہن نے بھی خطاب کیا۔ امرتا کا گذشتہ دنوں بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قسم کے سماجی ایشوز پر بات کرنا، ان کی اعانت کرنا، انہیں میں اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے ادا کرتا ہوں۔

سوال:
اب تک کوئی ایسا کردار کیا آپ نے نے نبھایا جو عامر خاں کی ذاتی زندگی کے بہت قریب رہا ہو؟
جواب:
میری ذاتی زندگی کے قریب شاید (سوچتے ہوئے) نہیں۔ ابھی تک میں نے ایسا کوئی کردار نہیں نبھایا۔ ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہر کردار میں آپ کو عامر خاں کی تھوڑی تھوڑی جھلک ضرور ملے گی۔ لیکن کوئی ایک کردار میں نے ایسا نہیں نبھایا جس میں میری ذاتی زندگی کی جھلک نظر آئے۔

سوال:
آئینہ دیکھتے وقت آپ کیا چیز تلاش کرتے ہیں؟
جواب:
(زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے) آئینہ دن میں اتنی بار دیکھتا ہوں کہ کوفت ہونے لگتی ہے۔ شوٹنگ کے دوران شاٹ سے پہلے تو ہم آئینہ دیکھتے ہی ہیں۔ جبکہ ذاتی زندگی میں میں آئینہ بہت کم دیکھتا ہوں۔ چونکہ میں خود کو بہت سچائی سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، مجھے کسی طرح کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ اس لیے مجھے آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں دیکھ کر سوال کروں۔

سوال:
بطور فنکار آپ کا خوف یا غیرمحفوظ ہونے کا احساس ، کیا کبھی آپ کو پریشان کرتا ہے؟
جواب:
بحیثیت ایک تخلیقی اداکار کے، میرا سب سے بڑا ڈر اور خوف یہ ہے کہ ایک دن میری کریٹی ویٹی [creativity] ختم ہو جائے گی۔ اس لیے کہ یہ تخلیق یا انسان کی تخلیقی صلاحیت ایک وقت پر آ کر کمزور پڑ جاتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ چاہے وہ مصنف ہو، مصور ہو یا سنگتراش ہو، ہدایتکار ہو، فنکار ہو۔۔۔ میں شہرت [popularity] کی بات نہیں کر رہا ہوں، ہر تخلیقی صلاحیت رکھنے والے کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ ایک وقت کے بعد وہ مفقود ہو جاتی ہے، وہ صلاحیتوں کی آگ بجھ جاتی ہے، بس اسی کا ڈر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ایک دن ضرور آئے گا اور یہ فطرت کا اصول ہے۔ جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے، جوانی میں اپنے اندر کمال کو جذب کر کے شباب پر ہوتا ہے لیکن اس پر بڑھاپا آ جاتا ہے، ایسے ہی یہ سائیکل ہے۔ پہلے آپ میں تخلیقی صلاحیت جاگتی ہے، آپ جوان ہوتے ہیں، جب آپ منجھ کر بہت کمال سے اپنے اندر جذب کر کے وہ چیز پیش کرتے ہیں اور پھر آپ پر بڑھاپا آنے لگتا ہے، جب آپ کی یہ صلاحیتیں کم ہونے لگتی ہیں۔

سوال:
ناصر حسین کی کون کون سی فلمیں آپ کو پسند ہیں؟
جواب:
مجھے ان کی سبھی فلمیں پسند ہیں۔
تم سا نہیں دیکھا، دل دے کے دیکھو، جب پیار کسی سے ہوتا ہے، پھر وہی دل لایا ہوں، پیار کا موسم، بہاروں کے سپنے، یادوں کی بارات، ہم کسی سے کم نہیں۔
اس کے علاوہ ایک فلم جس کی انہوں نے کہانی لکھی، منطرنامہ اور مکالمے لکھے تھے، وہ بھی بہت پسند ہے، یعنی: تیسری منزل۔

سوال:
طاہر حسین کی کن فلموں نے آپ کو متاثر کیا؟
جواب:
اباجان کی فلمیں کارواں، زخمی، خون کی پکار، ہم ہیں راہی پیار کے، دولہا بکتا ہے ۔۔۔ مجھے پسند ہیں۔

سوال:
ایوارڈ سے برہمی کی وجہ کیا ہے؟
جواب:
ہندوستان کے کسی بھی ایوارڈ کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور میرے خیال سے بےشمار لوگ متفق ہوں گے۔ ناظرین میرے کام کو پسند کریں، میری فلمیں پسند کریں، یہی میرا سب سے بڑا ایوارڈ ہوگا۔ اس لیے کہ ہر فلم کے ساتھ ہم ایک نئے امتحان میں بیٹھتے ہیں۔ میں اپنی فلمیں ناظرین کے درمیان دیکھ کر ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1999

Aamir Khan, Bollywood's Mr. Perfectionist.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں