سروجنی نائیڈو - فرقہ وارانہ اتحاد کی حامی عظیم سیاستداں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-04

سروجنی نائیڈو - فرقہ وارانہ اتحاد کی حامی عظیم سیاستداں

sarojini-naidu-gokhale-jinnah

چونکہ حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے جہاں ہندو اور مسلم ثقافتیں ایک دوسرے سے ملیں اور پھلی پھولیں۔ اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ حیدرآباد کی اس دختر کے نزدیک فرقہ وارانہ اتحاد کی اہمیت آزادئ وطن کی خواہش کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ آزادئ وطن کی خواہش نے سروجنی کے اندر زبردست قوت عمل پیدا کی۔ سروجنی کے گرو گاندھی جی نزدیک ترین باہمی تعلقات اور بھائی چارہ پر مبنی بقائے باہم میں یقین رکھتے تھے، لہذا سروجنی نائیڈو بھی سچے دل سے ملک میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی حامی تھیں۔
اگر سروجنی نائیڈو کی زندگی چار آدمیوں نے بنائی تو چار اثرات نے ان کے اندر مکمل سیکولرزم پیدا کیا۔ یہ اثرات تھے ان کے عالم اور انسان نواز باپ کے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے شہر حیدر آباد کے، پرانے لبرل رہنما گوکھلے کے جو اپنی عمر کی آخری منزلوں میں تھے اور جناح کے جو ایک نوجوان لبرل رہنما تھے جن کے سامنے ان کا پورا مستقبل تھا۔

اس وقت کے عظیم ترین سیاسی رہنما گوکھلے سے سروجنی کی ملاقات ان دنوں ہوئی جب ان کی شخصیت کی نشو و نما ہو رہی تھی۔ ان پر سب سے زیادہ اثر غالباً گوکھلے ہی کا پڑا۔ گوکھلے کو اپنا سیاسی گرو سمجھنے میں انھیں کچھ سال لگ گئے۔
ایک مرتبہ گوکھلے نے ان سے پوچھا تھا:
"آپ کے ذہن میں ہندوستان کے مستقبل قریب کا کیا تصور ہے؟"
سروجنی نے جواب دیا:
"ہندو مسلم اتحاد، پانچ سال سے بھی کم عرصے میں۔"
اس پر گوکھلے نے کہا تھا:
"آپ کی امید بہت بلند ہے۔ یہ تو آپ کی اور میری پوری زندگی میں نہ ہوگا۔"

1915ء میں گوکھلے کے انتقال پر انھوں نے In Memorium (ان کی یاد میں) کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں انھوں نے اس طرح اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا:
اے بہادر دل۔ ہم سب کی آخری امید!
کیا آپ کو ہماری مدح اور محبت کی شردھانجلی کی ضرورت ہے؟
دیکھئے ! لاکھوں سوگوار لوگ آپ کی چتا کے گرد کھڑے ہیں
اس مقدس آگ سے ان کے دلوں کو روشن کیجئے
جو آپ کے ہاتھوں سے گری ہوئی مشعل سے لگی ہے
تاکہ وہ ہمارے مصیبت زدہ ملک کی مدد کر سکیں، اسے بچا سکیں
اور آپ کی سکھائی ہوئی پرارتھنا کے ذریعے
اتحاد و یگانگت کے مندر کو بر قرار رکھ سکیں۔

سروجنی نائیڈو مسلسل ایک روشن خیال شخص، ایک مجاہد کی تلاش کرتی رہی تھیں جو بالآخر 1913ء میں انہیں ایم۔اے۔جناح کی شکل میں مل گیا۔ عظیم ترین ہندوستانی رہنما گوکھلے کی دعاؤں کے ساتھ ایک مسلمان نوجوان اور ایک نوعمر برہمن خاتون نے ایک نیک ترین کاز کے لیے مل کر ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جو انہیں الگ الگ انتہائی بلندیوں پر لے گیا۔
اپنے دوستوں سے سروجنی کی گہری وفاداری کا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے اگر ہمیشہ جناح کے ساتھ دوستی نہیں رکھی تو زندگی بھر ان کی عزت ضرور کی۔ جناح کئی بار ان کے ساتھ پبلک پلیٹ فارم پر آئے لیکن ان کے ساتھ ذاتی تعلقات اس وقت تک نہیں بڑھ سکے جب سروجنی نے ان کے ساتھ لندن میں طالب علموں کے درمیان کام کیا۔ اس کے بعد سروجنی ان کے کام میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے لگیں۔ حتی کہ جب ان کا ہندو مسلم اتحاد کا مشترکہ خواب پورا نہیں ہوا اور دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں تو اس وقت بھی انھوں نے جناح کو نکتہ چینیوں سے بچایا۔ ان کی سوانح نگار پدمنی سین گپتا نے ایک خوبصورت قصہ رقم کیا ہے جو جناح کے لیے سروجنی نائیڈو کی گہری عقیدت کا ثبوت ہے۔
وہ لکھتی ہیں:
مجھے یاد ہے کہ ایک بار 1946ء میں جب میں مسز نائیڈو سے ملنے گئی اور انھیں بتایا کہ میں نے کچھ بڑے رہنماؤں پر ایک کتاب لکھی ہے تو انھوں نے پوچھا کہ میں نے جناح کو بھی شامل کیا ہے یا نہیں؟
اور جب میں نے اس کا جواب نفی میں دیا تو انھوں نے ناراض ہو کر کہا:
"لیکن جناح ایک بڑے آدمی ہیں۔ آپ کو اپنی کتاب میں انہیں ضرور شامل کرنا چاہیے تھا۔"

سروجنی نائیڈو نے نظم اور نثر دونوں میں جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ 1915ء کے کانگریس اجلاس میں انہوں نے ان کے اعزاز میں ایک نظم "جاگو" کے عنوان سے پڑھی۔

سروجنی کا ایک اور مسلمان دوست عمر سبحانی تھا۔ وہ بمبئی کا ایک سرکردہ اور امیر تاجر تھا۔ وہ سب سے پہلے گاندھی جی کی حمایت کرنے والوں میں سے ایک تھا۔ اس نے گاندھی جی کے کاز کے لیے ہی پہلے دولت اور پھر زندگی بھی قربان کر دی۔ 1926ء میں جب وہ مردہ پایا گیا تو سروجنی نائیڈو کو بےحد رنج ہوا اور انہوں نے ایک پرسوز نظم لکھی:

تم میرے ہم مذہب اور رشتہ دار نہیں تھے
تمہارا دل شاہانہ تھا لیکن پھر بھی تم
بھائی کے پوتر اور نازک بندھن میں بندھے
میرے پاس کھڑے تھے اور
میرے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ میرے نزدیک تھے
افسوس کہ قسمت نے یہ دن دکھایا!
میں نے درد و غم کے طوفان کو جو تمھاری اس فاخرانہ
اور اندوہناک تنہائی کا مضحکہ اڑاتا معلوم ہوتا تھا
شانت کر دیا ہے!
میں تمہاری تنگ آخری آرام گاہ کے پاس کھڑی ہوں
میں تمہیں پکار رہی ہوں مگر تم جواب نہیں دو گے؟
کیا تمہارے چہرے پر بہت زیادہ مٹی ڈال دی گئی ہے
یا یہ تمہاری لمبی نیند کی خاموشی ہے
اتنی پیاری اتنی پاک اور اتنی گہری!!

***
ماخوذ از کتاب:
سروجنی نائیڈو - مصنف: تارا علی بیگ (مترجم: لکشمی چند)۔

Sarojini Naidu, a preacher of tolerance and communal harmony.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں