غالب کی رباعیات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-16

غالب کی رباعیات

ghalib-ki-rubaiyat

کہنے میں کوئی حرج نہیں Shakespeare کی تصانیف میں ڈرامے اکثر چرچے کا موضوع بنے ہیں لیکن ان کے Sonnetsکی حیثیت میں کسی طرح کی کمی نہ آنے پائی ہے۔اس کے بر عکس ان Sonnetsمیں Shakespere کی ہنرمندی میں چار چاند لگادیئے ہیں۔اسی طرح غالب کی رباعیات ان کی شاعرانہ عظمت کی ایک اچھی دلیل ہے۔یہ”اوس کی موتی میں جنگل کے انعکاس کے مصداق ہے۔“ تو غالب کی رباعی بھی ان کی غزل کے اشعار کی طرح داخلیت کی حامل نظر آتی ہے۔ان کی رباعیات دوسرے رباعی گو شاعروں کی طرح ہمیں کوئی خاص اخلاقی پیام نہیں دیتیں۔یہ رباعیاں اپنے ذاتی جذبات و خیالات اور واردات قلبی کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔اس لیے بعض اوقات ان کی رباعی کے اشعار غزل کے اشعار کے مشابہ معلوم پڑتے ہیں اور اس لیے انہیں غزل کے اشعار سے ممیز کرنا مشکل پڑتا ہے۔غزل کے اشعار سے انھیں متمیز کرنے کے لیے رباعی کے اوزان سے کام لینا پڑتا ہے۔
غالب کے رباعیات کے موضوعات آرزوئے اعادہ عہدِ شباب،وصال کا درد، سوزِ عشق،شکایت معشوق،شکایت اہل دنیا،بیان آب وتاب عشق،بیان ِ درد و غم،اقتصائے طبعِ شعر خوانی،تعریف ِ بادشاہ،بیان خوش حالی ِ دنیا،دعائے طوائف ِ عمر برائے بادشاہ(دعائے عمر رسیدگیِ بادشاہ)،ترجمانِ طبیعتِ معشوق،بیان حاجت روائی اور قرض داری سے چٹکارہ،بیان غُربت وغیرہ۔
زندگی بھر غالب قرض داری میں رہے ہیں اور ہر کس و ناکس کے سامنے ہاتھ پسارنے کی نوبت آئی ہے۔اس لیے جو ان کی حاجت روائی کرتا ہے۔اس کی مدح سرائی پر غالب مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو غالب مختلف وسائل سے شعر ی جامہ پہناکرپیش کرتے ہیں۔غالب نے بہت کم ہی قصائد لکھے ہیں کیونکہ طبعاً وہ دوسروں کی مدح سرائی پسند نہیں کرتے لیکن قرض داری کے ہاتھوں وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔مثال کے طور پر اس رباعی میں بل واسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس بات کی گونج سنائی دیتی ہے۔رباعی پیش ہے۔ ؎
ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو ارمغان شہ والا نے
گن کر دیویں گے ہم دعائیں سو بار
فیروزے کی تسبیح کے ہیں یہ دانے

بادشاہوں کی مدح سرائی اس زمانے کا عام رویہ رہی ہے۔اپنے زمانے کے دوسرے شعراء کے مقابلے میں غالبکے کلام میں ایسے اشعار کم ہی مل پائیں گے، جن میں دعائے درازی ِ عمر بادشاہ،دعائے عافیتِ بادشاہ وغیرہ کا ذکر ہو بادشاہ سے غالب کی گہری قربت اور ان کی خیریت خواہی اس رباعی میں نمایاں ہے۔
رباعی پیش ہے؛
اِس رشتہ میں لاکھ تار ہوں بلکہ سوا
اتنے ہی برس شمار ہوں بلکہ سوا
ہر سیکڑہ کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزارہوں بلکہ سوا

غالب کی رباعیات میں کنایات و اشارات بھی اپنی رونق دکھاتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ رباعی دیکھیے؛
بعد از اتمام بزم عہدِ اَطفال
ایام جوانی رہے ساغر کشِ حال
آپہنچے ہیں ناسوادِ اقلیم عدم
اے عمر گذشتہ یک قدم استقبال

غالب کی غزلوں کی طرح ان کی رباعات میں بھی وصال کا درد اور سوز ِ عشق کا بیانخوب ملتا ہے۔مثال کے طور پریہ رباعی دیکھیے؛
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اس سے گلہ مند ہو گیا ہے گویا
پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالب! منھ بند ہو گیا ہے گویا

دنیا کے بکھیڑوں اور نجی پریشانیوں سے تنگ آکر غالب نے اپنی رباعیوں میں گاہے گاہے درد و غم،رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔
دُکھ کے جی پسند ہو گیا ہے غالب
دل رُک کے بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں ہے
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

غالب کی طبیعت شرافت،انسان دوستی اور بھائی چارگی سے عبارت ہے۔پھر بھی لوگوں کے بعض بیہودہ حرکت سے غالب بے زار ہیں۔ اس کا اظہار رباعی میں یوں کیا گیا ہے۔ایک رباعی ملاحظہ ہو؎
ہے خلق حسدقُماس،لڑنے کے لیے
وحشت کدہئ تلاش، لڑنے کے لیے
یعنی ہر بار، صورتِ کاغذِ باد
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لیے

غالب کی دو ایک رباعی کی مولانا حالی نے خوب تعریف کی ہے۔جیسے ؎
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں درنگ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خداسے، اللہ اللہ
وہ آپ ہیں صبح و شام کرنے والے

بقول حالی اس رباعی میں مرزا نے غایت درجہ کی شوخی سے کام لیا ہے۔حالی فرماتے ہیں کہ ہم ہر چند دربار کے بااختیار لوگوں کو جھک جھک کر سلام کرتے ہیں مگروہ پھر بھی ہماری حاجت روائی میں دیر کرلیتے ہیں اور وہ مزید کہتے کہ خلق کی حاجت روائی میں جتنی دیر وہاں (دربار میں) ہوتی ہے ویسی کہیں نہیں ہوتی۔اکثر ساری زندگی امید میں ہی گذرجاتی ہے اور مطلب حاصل نہیں ہوتا۔
الغرض غالب کی غزلوں میں پائے جانے والے طنزیہ رنگ، تہہ دارانہ انداز ِ بیان، جدّت طرازی اور اچھوتا پن ان کی رباعیوں میں بھی اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔

***
Dr.Nakulan K. V.
Associate Professor of Urdu, Sree Sankaracharya University of Sanskrit
Regional Centre, Naduvathur, P.O. Koyilandy, Kerala. Kozhikode, Pin. 673620
Mob.No. 9497860850
ڈاکٹر نکولن کے۔ وی۔

Rubaiyat of Ghalib. Article: Dr.Nakulan K. V.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں