ایصال ثواب کا مسنون طریقہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-24

ایصال ثواب کا مسنون طریقہ

esal-sawab-masnoon-tariqa

قرآن کریم اور سنت صحیحہ کی روشنی میں جن اعمال کا ثواب مرنے کے بعد انسان کو پہنچتا ہے، وہ یہ ہیں:

مسلمان بھائی کی دعا:
اخلاص سے کی گئی دعا کا فائدہ میت ہو یا زندہ مسلمان، دونوں کو پہنچتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اور ان کے بعد آنے والے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور اہل ایمان کے لیے ہمارے دلوں میں کینہ نہ ڈال، اے ہمارے رب بلاشبہ تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
(الحشر: 10)

دعا سے متعلق حدیثیں بھی بہت ہیں، انہی میں سے نبی کریم ﷺ کا یہ قول ہے:
مسلمان کی اپنے مسلم بھائی کے لیے غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مامور ہوتا ہے، وہ جب اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارے لیے بھی اس جیسی دعا ہے۔
(صحیح مسلم)

نذر کا روزہ:
اگر کسی نے روزہ کی نذر مانی تھی لیکن نذر پوری کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا تو اس کے اولیا و سرپرست اس نذر کو پوری کریں گے۔ اس کا ثواب میت کو بھی پہنچے گا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو مر جائے اور اس کے ذمہ صوم (روزہ) ہو تو اس کے ولی اس کی طرف سے رکھیں۔
(بخاری و مسلم)

اس حدیث میں گرچہ آپ ﷺ نے مطلق صوم (روزہ) کو ذکر کیا ہے لیکن اس سے مراد نذر ہی کے صوم ہیں جیسا کہ دوسری احادیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ امام احمد بن حنبلؒ کا یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے سمندر کا سفر کیا، اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے صحیح سالم پہنچا دیا تو ایک ماہ کا صوم رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دے دیا لیکن نذر پوری کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا تو اس کی بہن یا بیٹی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
"اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟"
اس نے کہا: ضرور۔
آپﷺ نے فرمایا:
اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے، تم اپنی ماں کی طرف سے نذر پوری کرو۔
(ابوداؤد و نسائی)

قرض ادا کرنا:
حضرت سعد بن الاطولؓ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے تین سو درہم اور اپنے عیال کو چھوڑا، میرا ارادہ یہ تھا کہ چھوڑی ہوئی رقم کو ان کے عیال پر خرچ کروں، لیکن نبی کریمﷺ نے فرمایا:
تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے محبوس ہے، تم جاؤ اس کا قرض ادا کرو۔
میں نے جا کر قرض ادا کیا، پھر آپﷺ کے پاس آیا اور کہا:
اے اللہ کے رسولﷺ ، دو دینار کے سوا میں نے تمام قرضہ ادا کر دیا ہے۔ ان دو دینار کے بارے میں ایک عورت کا دعویٰ ہے لیکن اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
آپﷺ نے فرمایا:
اسے دے دو، وہ حق پر ہے۔
(ابن ماجہ)

ابتدا میں نبی کریمﷺ کا معمول تھا کہ میت کی نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے اس کے بارے میں پوچھتے، اگر اس پر قرض ہوتا تو حاضرین کو نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے اور خود نہیں پڑھتے لیکن جب فتوحات سے مال و دولت کی کثرت ہو گئی تو آپﷺ بیت المال سے میت کے قرضہ کو ادا کر دیتے، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔
صالح اولاد جو بھی نیک عمل کرتی ہے جیسے صدقہ و خیرات، حج و عمرہ اور روزہ وغیرہ، اس کا اجر والدین کو بھی پہنچتا ہے کیونکہ اولاد والدین کی کمائی اور صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
سب سے پاکیزہ چیز جو انسان کھاتا ہے اس کی (اپنے ہاتھ کی) کمائی ہوتی ہے اور اولاد انسان کی کمائی ہے۔
(ابو داؤد)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ عاص بن وائل السہمی نے اپنی طرف سے 100 گردن آزاد کرنے کی وصیت کی، ان کے بیٹے ہشام نے 50 گردنوں کو آزاد کر دیا۔ ان کے بیٹے عمرو نے باقی 50 گردنوں کے آزاد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ سے دریافت کر لیتے ہیں۔ وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے:
اے اللہ کے رسولﷺ ، میرے باپ نے 100 گردن آزاد کرنے کی وصیت کی تھی، ہشام نے 50 گردن آزاد کر دئے ہیں، کیا میں بقیہ 50 گردن ان کی طرف سے آزاد کر دوں؟
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اگر وہ مسلمان ہوتے اور تم لوگ آزاد کرتے یا ان کی طرف سے صدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان کو پہنچتا۔
(ابو داؤد)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد جو نیک عمل کرتی ہے اس کا اجر براہ راست والدین کو پہنچتا ہے۔ ہدیہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ اچانک میری ماں کی وفات ہو گئی اور وہ کچھ وصیت نہ کر سکیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں گفتگو کا موقع ملتا تو ضرور صدقہ کا حکم دیتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں اور ہمیں اس کا اجر ملے گا؟
تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں!
(صحیح بخاری)

یہاں یہ بات واضح رہے کہ عام انسان کی طرف سے صدقہ کا اجر میت کو نہیں پہنچتا۔ صرف اولاد کی طرف سے صدقہ کا اجر والدین کو پہنچتا ہے۔
انسان جو نیک اعمال اور صدقہ جاریہ چھوڑ کر جاتا ہے، اس کا بھی اجر اسے ملتا رہتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
(یٰس : 12)
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے: صدقہ جاریہ، فائدہ مند علم اور نیک اولاد کی دعا۔
(صحیح مسلم)

میت کی طرف سے حج و عمرہ کرنا:
سنان بن عبداللہ الجہنی کو ان کی بیوی نے اللہ کے رسولﷺ سے یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ ان کی ماں وفات پا چکی ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا تھا، اب اگر میں اپنی ماں کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کی طرف سے کافی ہوگا؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتیں تو کیا وہ ادا نہ ہوتا؟
انہوں نے کہا: ضرور۔
آپﷺ نے فرمایا: تمہاری بیوی کو چاہیے کہ اپنی ماں کی طرف سے حج کرے۔
(ابن خزیمہ ، نسائی)

قبیلہ جہینہ کی ایک عورت اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی:
میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے قبل ان کی وفات ہو گئی، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں، اپنی ماں کی طرف سے حج کرو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟
اس نے کہا: ضرور۔
آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے حق کو ادا کرو، کیونکہ اللہ ادائیگئ حق کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔
(صحیح بخاری)

البتہ دوسرے کی طرف سے حج کرنے والوں کے لیے شرط ہے کہ وہ پہلے اپنا حج کر چکے ہوں۔

میت کو اس مردہ سنت کا ثواب ملتا ہے جس کو اس نے اپنے عمل سے زندہ کیا اور بعد میں اس پر عمل ہوتا رہا:
جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
جو شخص اسلام میں کسی سنت کو جاری کرے تو اس کے لیے اپنا اجر ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے، کسی کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا، اس پر اس کے اپنے گناہ کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے، کسی کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
(صحیح مسلم)

زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں میت کو بھی شامل کر لینا:
اس کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور اس کی نیت اہل خانہ میں زندہ اور مردہ سارے افراد ہوں۔ اس کی دلیل نبی کریمﷺ کا عمل ہے۔ آپﷺ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔ ظاہر ہے آپﷺ کے اہل خانہ میں ایسے بھی تھے جن کی وفات ہو چکی تھی۔

میت کو ثواب پہنچانے کے لیے مذکورہ بالا اعمال ہی ثابت ہیں۔
ان کے سوا ایصال ثواب کا اگر کوئی نیا طریقہ ایجاد کریں گے تو اس کا ثواب میت کو تو پہنچنے سے رہا، خود گناہگار ہوں گے اور مال بھی اکارت ہی جائے گا۔
اللہ رب العالمین تمام مسلمانوں کو کتاب و سنت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 20/جنوری 2012۔

The sunnah way of Esal-e-Sawab

2 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ بہت خوب۔ اسی طرح آپ عوام الناس کے لئے اصلاحی باتیں فراہم کرتے رہے۔ اللہ آپ کو اجر عظیم سے نوازے آمین ثم آمین یا رب العالمین
    بلاشبہ ابھی جو معاشرے میں لایعنی رسومات اور غیر شرعی جلسے کرپشن اور فسادات وجراثیم اس طرح معمول اور نظام عمل میں آچکی ہے کہ لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں جو کہ بالکل احمقانہ غیر دینی پروپیگنڈے ہیں اس کا دین کا کوئی تعلق نہیں ہے
    جیسے کہ میلاد اور ہنگامی دعوت جو کہ مستحقین نہیں ہیں چہارم اور چلیسمہ وغیرہ وغیرہ
    ماشاءاللہ مبارک ہو آپ اس طرف لوگوں کی صحیح رہنمائی کی ہے اپنے مضامین کے ذریعے اللہ قبول فرمائے اور مزید ترقیات سے نوازے آمین

    من جانب عبد الصبور ندوی

    جواب دیںحذف کریں
  2. حامدا ومصلیا اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

    عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث، صدقة جاریة,او علم ینتفع بہ، او ولد صالح یدعو لہ
    او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،


    حوالہ جات

    الجامع الصحیح للبخاری
    باب غزوةاحد

    السنن لابی داؤد باب فی الحفار یجد العظم
    السنن لابن ماجہ
    المسند لاحمد بن حنبل

    جمع الجوامع للسیوطی
    المؤطا لامام مالک
    الجامع الصغیر للطحاوی

    جواب دیںحذف کریں