شتروگھن سنہا - بالی ووڈ کا ایک بےباک اور منفرد اداکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-29

شتروگھن سنہا - بالی ووڈ کا ایک بےباک اور منفرد اداکار

shatrughan-sinha

شتروگھن سنہا (پیدائش: 9/دسمبر 1945، پٹنہ) بالی ووڈ کے ایک نامور و ممتاز ویلن، ہیرو، کیرکٹر آرٹسٹ رہے ہیں۔ صحافی شکیل احمد نے کئی سال قبل ان کا انٹرویو لیا تھا جس میں شاٹ گن سنہا نے مختلف موضوعات پر دلچسپ، مفید اور پرفکر باتیں کہی ہیں۔ یہ انٹرویو دہلی کے مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ جنوری-1994 میں شائع ہوا تھا۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں پیش خدمت ہے۔

لگ بھگ ایک ساتھ امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا، ونود کھنہ اور ڈینی نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ان میں سے امیتابھ بچن نے کامیابی کی ایک تاریخ مرتب کی اور "لیونگ لیجنڈ (جیتی جاگتی داستاں)" بن گئے۔ ونود کھنہ نمبر دو کے مقام پر پہنچ کر امیتابھ کے لیے خطرہ بن چکے تھے کہ اچانک انہوں نے (1982 میں) فلموں کو خیرباد کہہ دیا (گوکہ پانچ سال بعد 1987 میں وہ دوبارہ فلم انڈسٹری میں داخل ہوئے اور اپنی اداکاری کی دوسری اننگ شروع کی)۔ ڈینی سست روی سے ویلن اور کیرکٹر آرٹسٹ کے بطور اپنا مقام بناتے رہے۔ شتروگھن سنہا نے پہلے منفی اور بعد ازاں مثبت دونوں کرداروں میں اپنی ایک مخصوص شناخت بنائی۔ پھر وہ سیاست میں گئے اور فلمی دنیا سے کچھ عرصے کے لیے دور ہو گئے۔

سوال:
اپنے کیریر کو پیچھے مڑ کر دیکھنے پر آپ کیسا پاتے ہیں؟
شترو:
مجھے اپنے کیریر میں کسی سے کوئی شکایت نہیں رہی۔ کھویا بہت کم اور پایا بہت کچھ۔ تجربہ ہوا اور اداکاری میں نکھار آیا۔ معاشی اور سیاسی فرنٹ پر آگے آیا۔ اس کی بنیاد میرا کیریر ہی ہے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں، اس کے لیے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ بات ضرور ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں سب کچھ بنا لیکن امیتابھ بچن نہیں بن سکا۔ ان لوگوں سے میں یہی کہتا ہوں کہ میری کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ میں کیا نہیں بن سکا؟ میری کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی نہیں بن سکے جو شتروگھن سنہا بنا۔ ابھی تو آگے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اسی طرح کا قصہ ہے کہ مندر میں ایک لڑکا پوجا کر رہا تھا اور بھگوان سے ایک جوڑی خوبصورت جوتے مانگ رہا تھا۔ دعا مانگ کر جب وہ پیچھے گھوما تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص بیساکھیوں کے سہارے پوجا میں مگن ہے۔ اس کے دونوں پاؤں ہی نہیں تھے۔ اس لڑکے نے فوراً بھگوان کا شکر ادا کیا کہ میرے پاس جوتا نہیں تو کیا ہوا، پاؤں تو ہیں۔
تو میں کن کن باتوں کا شکر ادا کروں؟ جو نہیں پایا اس کے لیے پریشان رہوں یا اس کے لیے شکرگزار بنوں جو میں نے حاصل کیا؟
اگر آپ امیتابھ بچن سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ یہ تو ایک گہرا سمندر ہے، مجھے افسوس ہے میں ڈسٹن ہوفمین نہیں بن سکا۔ ڈسٹن ہوفمین سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ مارلن برانڈو نہیں بن سکا۔ مارلن برانڈو سے پوچھیں تو وہ کہے گا رکس ہیریسن نہیں بن سکا۔ رکس ہیریسن سے پوچھیں تو کہے گا کہ کلارک گیبل نہیں بن سکا۔ یہ فہرست کہیں ختم نہیں ہوگی۔

سوال:
جو کچھ آپ نے اب تک کیا، کیا اس سے مطمئن ہیں؟
شترو:
نہیں۔ مطمئن ہونا تو وقتی ہوتا ہے، لمحاتی ہوتا ہے۔ البتہ عام لوگوں کے مقابلے میں جو میں نے کیا اور ایک مشہور اور ہردلعزیز شخص اور شخصیت بنا، اس کے لیے میں خدا کا شکرگزار ہوں۔ خوشی کے ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جتنی بڑی شخصیت، اتنی ہی زیادہ لوگوں کی امیدیں۔ اس لیے مطمئن تو میں ہو ہی نہیں سکتا۔ مطمئن ہونے کا مطلب ہے ختم ہو جانا۔ آخری سیڑھی ۔۔۔ یعنی ڈیڈ (فنا)۔ میں جتنا کر رہا ہوں، جو بھی کروں یا جہاں تک پہنچ جاؤں، مطمئن ہونے کے لیے ناکافی ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ابھی بہت منزلیں طے کرنا باقی ہیں۔

سوال:
وہ کون ہیں جنہوں نے آپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا؟
شترو:
خدا اور ماں باپ کے علاوہ چند دوستوں نے بہت مدد کی۔ لڑکیوں میں ممتاز کا عمر بھر احسان مند رہوں گا۔ سنجیو کمار نے بہت مدد کی۔ ایسے ہی کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ بہت اچھے دوست ملے۔ کئی اچھے دوست چھوڑ کر چلے بھی گئے۔

سوال:
پہلے کے ویلن اور آج کے ویلن میں کیا فرق ہے؟
شترو:
ان دونوں کے درمیان ایک مضبوط پل تو شاید میں ہی بنا، جس نے کھل نائیکوں کی حیثیت کو منوایا۔ میرے دور سے پہلے تک کے کھل نائیکوں سے عام آدمی کو ڈر لگتا تھا۔ کھل نائیکوں کو لوگ بہت گندا آدمی سمجھتے تھے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ آج تک شاید ہی کسی نے اپنے بچے کا نام پران یا جیون رکھا ہو۔ صرف اس لیے کہ یہ کھل نائیکوں سے جڑا ہوا نام تھا۔ لیکن میرے آنے کے بعد یہ شاید پہلی اور آخری بار میرے ساتھ ایسا ہوا کہ کھل نائیک کے پردے پر آتے ہی تالیاں بجیں۔ کھلنائیک نے ہیرو کو مارا تو تالی بجی۔ ہیرو نے شتروگھن سنہا کھلنائیک کو مارا تو نائیک کو گالی ملی۔ میرے اسٹائل کو اپنایا گیا اور آج تک لوگ اپنا رہے ہیں۔ ایسا نہ سنا گیا اور نہ اس سے پہلے دیکھا گیا۔ پوری دنیا کے مشہور اخباروں نے میرے بارے میں لکھنا شروع کیا کہ صاحب، ہندوستان میں پہلی بار فلموں کی تاریخ میں ایک لڑکا کھلنائیک بن کر آیا جس کے پردے پر آنے سے اس کے حصے میں ہیرو سے زیادہ تالیاں آتی ہیں۔ اور نائیک سے زیادہ اس کی تعریف ہوتی ہے۔ تالیوں کا وہ دور پھر کسی ویلن کے حصے میں نہیں آیا۔ میرے معاملے میں وہ اسپیشل کیس تھا۔ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ میری وجہ سے دوسرے کھل نائیکوں کو قدرے راحت ملی۔ اب پارٹیوں میں کھل نائیک دکھائی دیتے ہیں، سوسائیٹی میں دکھائی دیتے ہیں، اچھے اچھے گھروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف پردے پر ایک کردار نبھاتا ہے۔ وہ بھرم، وہ طلسم ٹوٹ گیا۔ جس طرح سلیم جاوید نے کہانی نویسوں کا وقار بلند کیا تھا، اسی طرح یہ کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ کھل نائیکی کو خاص درجہ دلانے میں میرا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔

سوال:
تب آپ کو سولو فلمیں کرنا اچھا لگا یا ملٹی اسٹار فلمیں؟ اس لیے کہ پردے پر آپ کی موجودگی سے ساتھی فنکار آپ سے خائف رہتے تھے۔ آپ کو جو پیار پرستاروں کا ملا، جس طرح نصیب، دوستانہ، کالا پتھر، رام پور کا لکشمن، بھائی ہو تو ایسا، آ گلے لگ جا، کرانتی جیسی فلموں میں آپ نے دھوم مچائی اور ان میں ہیرو سے زیادہ آپ نے داد حاصل کی، اس سے ان کا مرعوب ہونا شاید فطری تھا۔
شترو:
کچھ لوگ تو مجھ سے اتنا گھبرانے لگے کہ مجبوری میں مجھے سولو فلمیں کرنا پڑیں، میں کھل نائیک بن گیا یا بنا دیا گیا۔ اچھے اچھے ہیرو میرے ساتھ کام کرنے سے گھبرانے لگے تھے، بغلیں جھانکنے لگے تھے۔ بہانے ڈھونڈتے کہ: "یار، شتروگھن سنہا تو بہت لیٹ آتا ہے"۔ تو لیٹ تو میں پہلے بھی آتا تھا۔ راتوں رات کیسے یاد آ گیا؟ "جی وہ تو بڑا اسٹائل لیتا ہے۔" تو اسٹائل تو میں پہلے بھی فلموں میں لیتا تھا، اب کیسے اکھرنے لگا؟ بہانے ڈھونڈنے لگے۔ یہ تو کہہ نہیں پائے کہ برا اداکار ہے۔ بہرحال کئی اداکاروں نے میرے ساتھ کام کرنے سے انکار کرنا شروع کر دیا۔ میں تو عوام اور اپنے پرستاروں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے ویلن سے ہیرو کا پروموشن دیا ، جس سے میری عزت بھی بچ گئی اور روزی روٹی بھی۔ ملٹی اسٹار فلم میں بھی لوگ کہتے تھے کہ چھوڑو یار شترو کو، ششی کپور کو لے لو، فیروز خاں یا ونود کھنہ کو لے لو۔ فلم "کالا پتھر" میں بھی میں آخری انتخاب تھا۔ یہ بات دوسری ہے کہ فلم کی نمائش کے بعد میں عوام کی پہلی پسند تھا۔ نہ امیتابھ بچن کی خواہش تھی اور نہ ہدایت کار یش چوپڑہ کی۔ یہ تو سلیم جاوید اور خاص طور سے سلیم کی آرزو تھی۔ انہوں نے مجھ سے زور دے کر کہا تھا کہ یہ لوگ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ تم "انکار" کر دو، لیکن تم دل میں ٹھان کر ہماری لاج رکھ کر 'ہاں' کر دینا۔ سنا ہے کہ امیتابھ بچن، ونود کھنہ اور فیروز خاں کا نام دے چکے تھے۔ کچھ لوگ کسی اور کو لینے کی بات کر رہے تھے۔ 'کالا پتھر' کے بعد پھر مصیبت آئی۔ امیت جی نے تین چار فلموں کے بعد میرے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ خدا بھلا کرے ان کا، میں نے تو منع نہیں کیا۔ میں نے تو آج تک نہ ان سے اس کا سبب پوچھا اور نہ پوچھنے کی خواہش رہی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟

سوال:
کیا آپ کا رول اس وقت کسی اداکار نے کم کروایا جب آپ اس پر حاوی ہو رہے تھے؟
شترو:
ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے کبھی ان باتوں کی پروا ہی نہیں کی۔ میں نے آج تک نہ کوئی گروپ بنایا نہ کیمپ۔ نہ آج تک کسی ہدایتکار کی خوشامد کی، نہ کسی فلمساز سے یہ کہا کہ مجھے آپ کی یہ فلم کرنی ہے۔ جو بھی فلمیں کیں، خدا کا شکر ہے کہ اپنی شرط پر کیں۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ شیر بھوکا مر جائے گا لیکن بیڑی نہیں پیے گا۔۔۔ گھاس تو پرانی بات ہو چکی ہے۔ کسی نے کیا ہوگا یا کروایا ہوگا، لیکن میں ان باتوں کی شکایت نہیں کرتا۔ اس لیے چاہے چھ سین کا کردار رہا ہو یا ایک سین کا یا پوری فلم کا رہا ہو، چاہے مہمان آرٹسٹ کی حیثیت سے ہو، اس میں بھی اسکور کرنے کا اسکوپ ملا اور میں نے اسکور کیا۔ لوگوں نے دیکھا ہے، سراہا ہے اور یاد کیا ہے۔

سوال:
بطور اداکار آپ کے پلس پوائینٹ اور مائنس پوائینٹ؟
شترو:
میرا پلس پوائینٹ آتم وشواس یعنی خود اعتمادی۔ اس کے علاوہ مستقل مزاجی اور ٹھنڈا مزاج۔ جتنی گرمی پردے پر، اتنا ہی شانت عام زندگی میں۔ ہر وقت حوصلوں کا سنگم۔ منفی پہلوؤں میں: کسی پر فوراً بھروسا کر لینا اور بہت زیادہ جذباتی ہوں۔

سوال:
آج کی فلموں میں جو تبدیلی آئی ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
شترو:
آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے، کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ آج گلیمر کے نام پر گھٹیا سیکس کی نمائش ہوتی ہے۔ ایکشن کے نام پر خوفناک مار دھاڑ دکھائی جاتی ہے۔ اسٹائل کے نام پر، کپڑوں کے نام پر جسم کی نمائش ہو رہی ہے۔ اداکاری کے نام پر اخباری رومانس ہو رہا ہے۔ یہ سب تبدیلیاں آئی ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج جتنے نئے اداکار آ رہے ہیں، وہ آ بعد میں رہے ہیں، جا پہلے رہے ہیں۔ یہ "فرائی ڈے نائٹ اسٹار" ہیں۔ ایک رات کی زندگی ہے، آئے اور چلے گئے۔ گم ہو گئے اندھیرے میں۔ ہم لوگوں کے زمانے تک جو دور رہا وہ اور تھا۔ آج بھی ہم لوگوں کو عزت ملتی ہے، ہماری اہمیت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات نئے لوگوں میں نہیں ہے، ان کی اور ان کی فلموں کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس لیے آج ہم لوگوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اولڈ از گولڈ، اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے: اولڈ، گولڈ، بولڈ۔

سوال:
سب سے موثر میڈیا فلمیں ہیں۔ ان کے ذریعے پیغام دینے کے آپ کس حد تک قائل ہیں؟
شترو:
جسم کی نمائش، مار دھاڑ اور بےسرپیر کی کہانی کے بیچ چار لائن کا پیغام ڈالنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شروع سے راستہ بنانا پڑتا ہے۔ "اپکار" سے کھیتی پر زور دیا گیا۔ "پورب اور پچھم" سے ہندوستانی تہذیب پر روشنی ڈالی گئی۔ مافیا اور مزدوروں کے استحصال کا مسئلہ آپ نے میری فلم "کالکا" میں دیکھا۔ "بہاری بابو" میں نے ایک فلم بنائی تھی، جس میں ایک پیغام تھا۔ گوتم گھوش کی فلم جو دنیا کی بہترین فلم قرار دی گئی تھی "اوشیل جوئی جاترا" تھی، یہ ستی کی رسم کے خلاف تھی۔ تو پیغام کیوں نہیں دیا جا سکتا؟

سوال:
پرانے وقتوں کی مثال دیں تو لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے کی بات ہی کچھ اور تھی، آج اس معیار کی فلمیں کیوں نہیں بنتیں؟
شترو:
ہم کہانی میں مار کھاتے ہیں۔ آج اچھے لکھنے والوں کی کمی ہے۔ ویڈیو دور نے کہانی نویسوں کی صلاحیتوں پر کہیں روک لگا دی ہے۔ وہ زیادہ تر نقل پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ دیکھا، اس کو توڑ لو۔ وہ دیکھا اس کو موڑ لو۔ پاکستانی یہاں سے مار لیتے ہیں، ہم لوگ وہاں سے چرا لیتے ہیں۔ 'اوریجنلیٹی' غائب ہو گئی ہے۔ پہلے فلمیں بھی بہت کم بنتی تھیں۔

سوال:
سبھاش گھئی کی کامیابی میں آپ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ کالی چرن، وشواناتھ، گوتم گووندا اس کی مثالیں ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ 'گوتم گووندا' کے فلاپ ہو جانے پر انہوں نے پھر آپ کو دوبارہ موقع نہیں دیا؟
شترو:
یہ سوال تو آپ کو سبھاش گھئی سے ہی پوچھنا چاہیے۔ سبھاش گھئی نے کسی ٹی۔وی انٹرویو میں کہا ہے کہ: میں تو کب سے کوشش کر رہا ہوں کہ زندگی میں اپنے بہترین دوست شتروگھن سنہا کے لیے اپنی فلم میں کوئی کردار نکالوں۔ اس پر میں یہ کہتا ہون کہ سبھاش گھئی جھوٹ بھی بولیں تو ذرا اسٹائل سے بولیں، ورنہ بات پکڑ میں آ جائے گی۔ اور طریقے بھی ہیں جھوٹ بولنے کے۔ اگر واقعی کردار نہیں نکلتا تو کہانی بدل دیتے۔ دوسرے لوگوں کے لیے کردار نکل سکتے ہیں، میرے لیے نہیں۔۔۔؟ کچھ لوگوں کی ایسی ہی فطرت ہوتی ہے کہ زندگی میں جن کی مدد سے آگے بڑھتے ہیں، جب ان کا وقت آتا ہے تو اپنے مددگاروں سے پلہ چھڑا لیتے ہیں۔ بہرحال میں اس معاملے میں کچھ اور نہیں کہوں گا۔

سوال:
لوگ فلمی ستاروں سے ذاتی سوالات کرتے ہیں، یہ کہاں تک جائز ہے؟ اسٹار عوام کی ملکیت ہیں، عوام ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے غرض ان کی ہر بات جاننے کو بےتاب رہتے ہیں۔
شترو:
ستارے بنتے کیسے ہیں؟ کسی بھی فلم کا اسٹارڈم عوام کا بخشا ہوا ہوتا ہے، چاہے کوئی پراڈکٹ ہو یا انسان۔ وکیل رام جیٹھ ملانی ہو یا ڈاکٹر ڈھولکیا یا صحافی ارون شوری۔ فلمی ستارے امیتابھ بچن، شتروگھن سنہا، دھرمیندر ہو یا کوئی اور ۔۔۔ سب عوام کی بدولت اسٹار ہیں۔ ظاہر ہے عوام کی دلچسپی ان میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے عوام ان کے ہر عمل کے بارے میں جاننا چاہیں گے کہ ہمارا اسٹار کیا کرتا ہے؟ کیا پہنتا ہے، کیسی حرکتیں کرتا ہے۔ ذاتی زندگی چھپانے کا آپ کو حق ہے تو اتنا ہی حق عوام کو ہے اس بارے میں پتا لگانے کا۔ اب جو بھی جیت جائے۔ آپ کو شراب پینا ہے تو کمرے کے اندر رہ کر پیجیے۔ لیکن آپ دروازہ یا کھڑکی کھلی رکھیں گے تو ظاہر ہے بات چوراہے پر پہنچے گی۔

سوال:
آپ کے حساب سے ہندی فلموں کا سنہرا دور کون سا تھا؟
شترو:
اپنا اپنا نظریہ ہے۔ کچھ لوگ دلیپ کمار، راج کپور، دیوآنند کے دور کو سنہرا دور کہتے ہیں۔ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے۔

سوال:
اچھا، اگر سنہرا دور نہیں تو اپنی پسندیدہ فلموں کے نام بتا دیجیے۔
شترو:
فلم "ملاپ" جو سپر فلاپ ہوئی تھی۔ سمجھوتا، آ گلے لگ جا، دوست، کالکا ، کالا پتھر، کرانتی، نصیب ، دوستانہ اور فلم "خودغرض" جو میرے دل کے بہت قریب تھی۔ گوتم گھوش کی فلم جو تاشقند فلم فیسٹول میں دنیا کی بہترین فلم قرار دی گئی۔

سوال:
آپ کو فلم انڈسٹری میں آئے لاتعداد سال گزر گئے۔ آپ اس انڈسٹری میں اب کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں؟
شترو:
سب سے بڑی چیز جو میں نے محسوس کی یا سب سے بری چیز جو میں نے محسوس کی وہ یہ کہ فلم انڈسٹری میں دوستی، ڈسپلن، پیار اور اتحاد صرف پردے پر پایا جاتا ہے۔ اس انڈسٹری میں نہ دوستی ہے، نہ پیار، نہ اتحاد ہے اور نہ ڈسپلن۔

سوال:
آپ ہمیشہ خبروں کی سرخیوں میں رہے، اسے آپ ہمیشہ اپنے حق میں نقصان دہ سمجھتے ہیں یا فیض رساں؟
شترو:
میں آشا وادی ہوں، اس لیے فائدہ ہی محسوس کرتا ہوں۔

سوال:
آج لوگوں کے دلوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہو گئی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
شترو:
فلموں کے ذریعے تو خیر ہم کوشش کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ ہمارے سیاستدانوں کا فرض بنتا ہے جن کا سماج میں اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو آگے آ کر یہ بتانا اور سمجھانا ہوگا کہ ان فرقہ وارانہ جھگڑوں سے کیا حاصل؟ ہم سب کی رگوں میں بہتا لہو لال ہے۔ ہماری ضرورت ایک ہے، ہمارے جذبات ایک ہیں۔ ہمارا وطن ایک ہے، بھارت ہماری مادرِ وطن ہے۔ ہم سب ایک ہی دھرتی کی سنتان ہیں۔ صرف ووٹ اور اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔

سوال:
آپ نے اپنی منزل پالی یا ابھی کوئی خواہش باقی ہے؟
شترو:
خواہشیں ہیں۔ بہت سی ہیں۔ آرزوئیں اور آسودگی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میرے خیال سے اگر میں اپنا لائف ٹائم کردار کر بھی لوں تو مجھے پتا نہیں چلے گا کہ میں نے کر لیا ہے یا کرنا باقی ہے؟

سوال:
آپ کس طرح یاد کیے جانا پسند کریں گے؟
شترو:
ایک بھلا آدمی جو اپنے عوام، اپنی ریاست، اپنے دیش اور فلم انڈسٹری کی خیرخواہی اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی صلاحیتوں کا، اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس دنیا سے چلا گیا۔

شتروگھن سنہا کے چند یادگار فلمی نغمے:
تم جانو یا ہم جانیں (فلم: کالی چرن)
آج میرے یار کی شادی ہے (فلم: آدمی سڑک کا)
بنے چاہے دشمن زمانہ ہمارا (فلم: دوستانہ)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: جنوری 1994

Shatrughan Sinha, an eminent Actor of Bollywood film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں