اس آباد خرابے میں - اختر الایمان کی خودنوشت سوانح (پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کیجیے)
اختر الایمان اپنی خودنوشت سوانح پر کوئی پانچ چھ سال سے کام کر رہے تھے مگر یہ کام مسلسل نہیں تھا۔ سوانح قسط وار "سوغات میں چھپ رہی تھی جس کے ایڈیٹر محمود ایاز کے تقاضے پر ایک یا ایک سے زیادہ باب لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔ اور پھر دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ "سوغات" سال میں دو بار چھپتا ہے ، مختلف ابواب کے لکھنے میں فاصلے کی وجہ سے بعض دفعہ ایک ہی بات دہرائی گئی ہے۔
جب میں نے یہ خودنوشت پڑھی تو مجھے اختر صاحب کے حافظہ پر حیرت بھی ہوئی اور داد دینے کو بھی جی چاہا، اس لیے کہ اکثر روزمرہ کی باتیں انہیں یاد نہیں رہتی تھیں اور بھولی بسری باتوں کا بھی بہت کم ذکر کرتے تھے۔ وہ ہر باب کے کئی کئی ڈرافٹس (Drafts) لکھا کرتے تھے اور مطمئن ہونے کے بعد ہی چھپنے کے لیے بھیجتے تھے مگر اپنی سوانح کے دیباچہ کے یہی چند صفحات لکھے تھے چونکہ دیباچہ اختتام تک نہیں پہنچا اس لیے کہ صرف یہی ایک ڈرافٹ تھا۔ میں نامکمل دیباچہ اس کتاب میں شامل کر رہی ہوں۔ مختصر ہونے کے باوجود یہ مجھے مکمل اور اہم لگتا ہے۔
جب زبیر رضوی اردو اکادمی کے سکریٹری تھے تو یہ طے ہوا تھا کہ یہ سوانح اردو اکادمی کتاب کی شکل میں چھاپے گی۔ جو باب "سوغات" میں چھپتے تھے اس کی کتابت اکادمی میں بھی ہو جاتی تھی۔ اختر صاحب کا خیال تھا کہ جب سب باب لکھے جائیں گے اور کتابت مکمل ہو جائے گی تو وہ ان پر نظر ثانی کریں گے۔ اگرچہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ بعض واقعات ایک دفعہ سے زیادہ بیان ہو گئے ہیں مگر وہ کتاب کی اٹھان سے مجموعی طور پر مطمئن تھے۔ پندرہواں باب محمود ایاز کو بھیج کر انہیں اطمینان ہو گیا کہ یہ کام بھی مکمل ہو گیا۔
اختر صاحب کے گردے خراب تھے اور ان کی DIALYSIS ہفتہ میں دو بار ہوتی تھی۔ 9/مارچ 1996 کو وہ ڈائلسس کے بعد تقریباً ایک بجے دوپہر کو اسپتال سے گھر آئے۔ میں نے کھانے کے لیے پوچھا تو انہوں نے منع کر دیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کبھی اسپتال سے آ کر وہ کھانا کھاتے تھے اور کبھی آتے ہی سو جاتے تھے اور شام کو دیر سے سو کر اٹھتے تھے۔ اس روز وہ بغیر کھانا کھائے لیٹ گئے۔ انہیں سردی لگ رہی تھی، میں نے ان کے پہلو میں گرم پانی کی بوتل رکھ دی اور کمبل اوڑھا دیا۔ حسب معمول وقفہ وقفہ سے ان کو دور سے دیکھ لیتی تھی، وہ آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ تقریباً پانچ بجے میں نے دیکھا کہ کروٹ بدل چکے تھے اور کمبل پیروں سے ہٹ گیا تھا، میں نے کمبل بالکل پیروں سے ہٹا دیا اور ہلکی چادر اڑھا دی۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بدن میں کوئی جنبش نہیں ہے۔ میں نے جلدی سے آکسیجن لگا دی اور نبض دیکھنے کی کوشش کی تو بہت آہستہ رو لگی۔ چہرے کو چھوا تو گرم تھا۔ خیری (مسز باقر مہدی) دوسرے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ میں نے انہیں بلایا اور بلڈ پریشر ناپنے کے آلہ سے ان کا بلڈ پریشر دیکھنا چاہا مگر گھبراہٹ میں کچھ پتا نہ لگا۔ میں نے فوراً اپنی بیٹی شہلا اور بیٹے رامش کو فون کیا۔ تھوڑی دیر میں شہلا، رامش اور ڈاکٹر سبھی آ گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا انتقال کوئی ایک گھنٹہ پہلے ہو چکا تھا۔
اختر صاحب کی زندگی میں اکثر مشکلیں آئیں مگر برے سے برے حالات میں بھی وہ کبھی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے۔ ان کے خالق نے جس کام کے لیے انہیں اس دنیا میں بھیجا تھا وہ ہمیشہ خلوص کے ساتھ کرتے رہے۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہے جو ان پر پوری طرح صادق آتا ہے:
He was at peace with himself
موت کے وقت بھی یہ سکون ان کے چہرے پر تھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر یہ شبہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔
اکتوبر 1993 میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے گردے پوری طرح کام نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ڈائلسس کروانی پڑے گی۔ یہ عمل چار پانچ گھنٹے کا ہوتا ہے جس میں ایک طرح سے جسم کا پورا خون صاف کیا جاتا ہے۔ تب ہی سے ان کی ڈائلاسس ہفتہ میں دو بار ہونے لگی اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک قائم رہا۔ یہ بڑا صبر آزما اور تھکا دینے والا عمل تھا اس لیے ڈائلسس کے فوراً بعد وہ خاصے مضمحل ہو جاتے تھے اور تقریباً ایک روز بعد تازہ دم ہوتے تھے۔ جس دوران وہ لکھنے پڑھنے کا کام یکسوئی سے کر سکتے تھے۔ اس سوانح کے بہت سے حصے ان ہی دنوں لکھے گئے تھے۔
12/نومبر 1995 کے دن، اختر صاحب کی 80 ویں سالگرہ، شہلا کے گھر ایک چھوٹی سی محفل میں منائی گئی۔ اس محفل میں سودن بھائی، سردار بھائی (مدھوسدھن، سردار جعفری)، اندیور، ندا فاضلی، بیدار بخت، یوسف ناظم اور کچھ دیگر لوگ شامل تھے۔ اسی روز پتا چلا کہ ان کے گردے مکمل طور پر بیکار ہو گئے مگر اختر صاحب پر اس خبر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور حسب دستور اپنے کاموں میں مصروف رہے اور آخری وقت تک اپنے سارے ضروری کام کرتے رہے۔
ان کی وفات کے بعد لوگوں نے تعزیت کے خط بھیجے۔ جلسے ہوئے، جن میں اظہار افسوس کیا گیا۔ میں ان سب کے لیے شکرگزار ہوں۔
اختر صاحب کی وفات سے کچھ دن پہلے ہی ان کی نئی نظمیں آجکل، شب خون اور ایوان اردو میں "ذکرِ مغفور" ، "زمستان سرد مہری کا" اور "نجات" کے عنوان سے چھپیں۔
ان نظموں سے کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اپنے آخری دنوں میں اخترالایمان اپنی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ "ذکر مغفور" 3/مارچ 1996 کو مکمل ہوئی۔ "زمستان سرد مہری کا" 17/اگست 1991 کو اور "نجات" 22/فروری 1994 کو۔
اختر صاحب نظم مکمل ہونے کے بعد اس کے نیچے تکمیل کی تاریخ ڈالتے تھے۔ اکثر نظم کے شروع کرنے سے تکمیل تک کا وقفہ خاصا لمبا ہوتا تھا۔ ان کی مختلف بیاضوں میں ان تینوں نظموں کے بہت سے ڈرافٹس ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظمیں بھی ایک طویل عرصے میں لکھی گئی ہیں۔ گویا انہوں نے ڈائلسس سے پہلے شروع کی تھیں۔ اگر یہ بات نہ بھی ہو تو بھی ان نظموں سے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ شاعر زندگی سے مایوس ہے یا موت سے ڈرا ہوا ہے۔
اخترالایمان ہمیشہ اس بات کے قائل تھے کہ زندگی کسی ایک المیے سے ختم نہیں ہو جاتی۔ یہ بات انہوں نے اپنی کئی نظموں میں کہی ہے۔
مثلاً بازآمد مین کہتے ہیں:
حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈالیں
کوئی رنجیدہ نہ ہو!
زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!
"ذکر مغفور" سے صاف ظاہر ہے کہ سوگواری کا موسم ہمیشہ نہیں رہتا۔ رہ بھی نہیں سکتا۔ وہی گھر جہاں موت نے کہرام اٹھایا تھا کچھ دن بعد نئی زندگی اور خوشیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
اختر صاحب کو اس بات کا تو احساس تھا کہ ان کا وقت قریب آ رہا تھا مگر اس احساس میں رنج اور افسردگی کا شائبہ تک نہ تھا۔ نظم "کاوش" 13/اپریل 1993 میں مکمل ہوئی ، اس نظم کے آخری چار مصرعے میرے خیال کی تائید کرتے ہیں:
چلو ایک تیز دھارے میں کہیں پہ ڈال دیں کشتی
لطافت ٹھنڈے پانی کی کریں محسوس کچھ تھوڑا بکھر جائیں
ہنسیں بےوجہ یونہی غل مچائیں بےسبب دوڑیں
اڑیں ان بادلوں کے پیچھے اور میلوں نکل جائیں
***
مقدمہ - ماخوذ از کتاب:
اس آباد خرابے میں - خودنوشت سوانح از: اختر الایمان
مقدمہ - ماخوذ از کتاب:
اس آباد خرابے میں - خودنوشت سوانح از: اختر الایمان
Is Aabad Kharabe mein, an autobiography by eminent Urdu poet Akhtar-ul-Iman
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں