غوث خواہ مخواہ (اصل نام: غوث محی الدین احمد) (پ: 17/اپریل 1930 ، م: 3/مئی 2017)
نے مزاحیہ شاعری کے میدان میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔ ان کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں:
- بہ فرض محال (1993)
- حرفِ مکرر (1998)
- کاغذ کے تیشے (2004)
انہی میں سے دوسرا شعری مجموعہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے دیا گیا ہے۔
ضامن علی حسرت اپنی کتاب "متاعِ ادب: خصوصی مطالعہ" کے ایک مضمون "غوث خواہ مخواہ کی مزاحیہ شاعری کا تہذیبی و سماجی پس منظر" میں لکھتے ہیں ۔۔۔غوث خواہ مخواہ کا پورا نام غوث محی الدین احمد ہے۔ مزاحیہ شاعری کی نسبت سے "خواہ مخواہ" تخلص رکھ لیا، جو ان کی پہچان بن چکا ہے۔ غوث خواہ مخواہ 17/اپریل 1930 کو حیدرآباد کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جے جے اسکول آف آرٹس سے ڈرافٹسمین شپ کا ڈپلومہ حاصل کیا جس کی بدولت 1956 میں حیدرآباد کے محکمہ تعمیرات عامہ میں بحیثیت ڈرافٹسمین تقرر عمل میں آیا۔ لیکن چار ماہ بعد ہی حیدرآباد کی لسانی بنیاد پر تقسیم عمل میں آئی اور خواہ مخواہ کا تبادلہ ممبئی کر دیا گیا۔ جہاں محکمہ برقی اور آبپاشی میں ہیڈ ڈرافٹسمین کے عہدے پر کارگزار رہ کر اپریل 1991 میں وظیفہ حسن خدمت پر باعزت سبکدوش ہوئے۔
اس کتاب "حرف مکرر" کے دیباچہ میں صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔آج یکم نومبر 1997 کو برسبین (آسٹریلیا) میں "چھوٹا منہ بڑی بات" تحریر کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ 1991 میں آج ہی کے دن سیاٹل (امریکہ) میں اپنے پہلے شعری مجموعہ "بہ فرض محال" کا پیش لفظ "کہا سنا" لکھتے وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپنے دوسرے مجموعہ "حرف مکرر" کا دیباچہ بھی خود مجھے ہی لکھنا پڑے گا۔
"بہ فرض محال" سے "حرف مکرر" کے درمیان کم و بیش چھ سال گزر چکے ہیں۔ اب بھی میرے مداح مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ میں نے اپنا تخلص خواہ مخواہ کیوں رکھا؟ یہ سوال واقعی لاجواب ہے۔ اگر جواب دینے کی کوشش کروں تو یوں لگے گا جیسے کسی نے شاعری کی اصطلاح میں بےوزن مصرع کہہ دیا ہو۔ بہرحال جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ میں اگر چچا غالب کی طرح جید قسم کا شاعر ہوتا تو خواہ مخواہ کے علاوہ ایک اور تخلص کا بوجھ بھی برداشت کر لیتا جبکہ یہ تخلص ہی اکثر مقطع میں سخن گسترانہ بات پیدا کر کے میرے لیے الجھن مہیا کر دیتا ہے۔
ڈھونڈے ملا نہ حسن جو حسن و جمال میں
الجھا ہوا تھا ذہن جواب و سوال میں
ٹکراؤ ہو رہا تھا عروج و زوال میں
ایک کشمکش تھی باہمی ہجر و وصال میں
جب خواہ مخواہ پھنس گیا مقطعے کے جال میں
تب آیا غیب سے یہ تخلص خیال میں
غوث خواہ مخواہ کی مشہور و مقبول نظم "نئیں بولے تو سنتے نئیں"دیکھو کِتّا سمجھارؤں میں نئیں بولے تو سنتے نئیں
تحریری متن بشکریہ "اردو محفل فورم" ، یوٹیوب ویڈیو لنک
اپنی من مانی تم کررئیے نئیں بولے تو سنتے نئیں
کرنے کے جو کاماں ہیں وہ تو جیسے کے ویسئی ہیئں
نئیں کرنے کے کاماں کررئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں
میرے گھر میں رہ کو باتاں اماں باوا کی کررئیں
یاں کا کھاکو واں کا گارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
دوبئی نئیں تو جِدّہ جاؤ، کیسے بھی یاں سے نکلو
اٹھتے بیٹھتے بھیجا کھارئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اِتّی عمر میں باہر جاکو خاک کما کو لاؤں گا
ہاتھاں دھو کو پچھّے پڑگئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
دن بھر کام سے تھک کو آئیوں، چمٹیاں مت لیو سونے دو
صبئے جلدی اُٹھ سکتا نئیں میں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
جس صورت پو مرتا تھا میں کتّی سیدھی سادی تھی
اسکو میک اپ کرتے جارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اب منہ پو میک اپ کرکے جاتی عمر کے پیچھے مت بھاگو
گئی سو جوانی پھر آتی نئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
بالاں کالے کرتے کرتے منہ اِتّا کالاہورئیے
بچے دیکھ کو ڈرتے جارئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
بالوں میں چٹلہ جوڑے تو بنتا ہے سِر کا جوڑا
پھر بھی بالاں سِٹ کروارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اُن کے بالاں سِٹ ہونے تک، میرےسر میں گنتی کے
ہے سو بالاں جھڑ کو جارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
چربی چھٹ کو دُبلے دکِھنے، اِک ہفتے سے ڈائیٹ پو ہیئں
چلتے پھرتے ڈھکلیاں کھارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
پک کو اِتّے پنڈو ہوگئیں، اب گِرتئیں کہ تب گِرتئیں
آئینہ دیکھ کو بھی شرمارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اچھے اچھے ڈرامے دیکھو کِتّا کِتّا سمجھایا
گندے فلماں دیکھ کو آرئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اِس کے پچھّے کیا ہے کی اور اُس کے نِچّے کیا ہے کی
ایسے ویسے گانے گارئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
جو بھی کھائیں گے جی سے کھائیں گے نئیں تو بھکّے رئیں گے کتے
جھوٹی شان میں سڑ کو مررئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
بچھو کے کاٹے کا منتر یاد تو نئیں پن اُپر سے
سانپ کے بل میں انگلیاں کررئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
پھوڑے پو جم گئی سو کھپلی ناخُن سے نکّو نوچو
بھُل گئے سو غم تازہ ہورئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
سر کاری آرڈر ہے بچے تین سے بڑھ کو نئیں ہونا
کھٹّا کھاکو اُلٹیاں کرئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
اللہ توبا خواہ مخواہ تم اِتّے بڈّھے ہوکو بھی
چلّر چالے کرتے جارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں
سمدھی سے جب پوچھا میں کیا سمدھن پھر امید سے ہیں
شرماکو بس اِتّا بولے ، نئیں بولے تو سنتے نئیں
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
طنز و مزاح کا ایک اورچراغ بجھ گیا: غوث خواہ مخواہؔ
غوث خواہ مخواہ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نئے رجحانات اور نئے تجربے
***
نام کتاب: حرف مکرر
شاعر: غوث خواہ مخواہ
تعداد صفحات: 249
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Harf-e-Mukarrar_Ghouse-Khamakha.pdf
پروائیاں - غزلیں از بیکل اتساہی :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | مصرع اول | صفحہ نمبر |
1 | غزلیں | . |
2 | کبھی دیکھو ہماری گرمجوشی | . |
3 | لیا سر پہ جب سرفروشی کا بوجھ | . |
4 | درد جب بھی شدید ہوتا ہے | . |
5 | غزل ہوتی ہے | . |
6 | جاگتے میں بھی خواب دیکھے ہیں | . |
7 | پہلے پہلے شوہر کو ہر موسم بھیگا لگتا ہے | . |
8 | ہم ان کی بزم میں آ کر پریشان ہیں | . |
9 | بیوی اور پتلون | . |
10 | دکنی شاعری | . |
11 | میں بھی دیکھتوں | . |
12 | کیا لے کو بیٹھیں | . |
13 | لاکھ تلا لیو مال برابر | . |
14 | ڈبے کے دودھ کا ڈبہ | . |
15 | نئیں بولے تو سنتے نئیں | . |
Harf-e-Mukarrar, Humorous Poetry by Ghouse Khamakha, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں