پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-21

پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کا انتقال


ممتاز ترقی پسند ادیب، نقاد اور دانشور پروفیسر سید محمد عقیل رضوی (پیدائش: 10/اکتوبر 1928، عیدل پور، ضلع اعظم گڑھ ، اترپردیش) کا بعمر 91 سال آج بروز جمعہ 20/دسمبر کو انتقال ہو گیا۔ ضلع الہ آباد کے ٹاؤن دریا آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ پر انہوں نے آخری سانس لی۔
پروفیسر عقیل رضوی کا شمار ترقی پسند تنقید کے معماروں میں ہے۔ ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادب کے دفاع میں ان کی تحریریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے اردو مثنوی پر خصوصیت کے ساتھ کام کیا۔ مثنوی کی تنقید کے تعلق سے ان کی تصانیف کی بہت اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں قابل ذکر کتابوں میں "اردو مثنوی کا ارتقا" بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں ۔۔ "اصول تنقید" ، "ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ"، تنقید اور عصری آگہی" ، "سماجی تنقید اور تنقیدی عمل" ، "غزل کے نئے جہات" اور "مرثیہ کی سماجیات" وغیرہ شامل ہیں۔
جنوری 1953 میں پروفیسر عقیل رضوی کی الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تقرری ہوئی اور جون 1991 میں آپ بحیثیت صدر شعبہ اردو وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ سید رضوی کے شاگردان کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ نے کئی رسالے بھی شائع کیے جن میں "سب رنگ" اور "اندازے" قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر عقیل رضوی کی وفات اردو دنیا کا بڑا خسارہ ہے۔ ان کی رحلت پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر یعقوب یاور سمیت بڑی تعداد میں ادبی و سماجی شخصیات نے اظہار تعزیت کیا ہے۔ صدر کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین علی جاوید نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عقیل رضوی نے مغربی تنقید کے علاوہ کلاسیکی اردو ادب جیسے مثنوی اور مرثیہ اور اردو فکشن کے میدان میں اپنی بھرپور خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ادبی روایات کی بھرپور آبیاری کی اور تاعمر انجمن سے وابستہ ادیبوں کی تربیت کی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اس سانحہ کو اردو ادب کے لیے ایک ناقابل فراموش نقصان تصور کرتی ہے۔

معروف قلمکار و مصنف فاروق ارگلی نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر بچشم نم پروفیسر عقیل کو درج ذیل الفاظ کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا ہے:
ترقی پسند تنقید کا متحرک استعارہ : پروفیسر سید محمد عقیل
پراچین یگ کا پریاگ راج دیوتاؤں کا نگر کہا جاتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ "الہ آباد" سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ویسے تو یہاں ایک "اللہ پور" بھی آباد ہے جہاں آدھنک یگ کے بڑے بڑے اللہ والے رہتے ہیں جنہیں آج کل کی بھاشا میں نیتا ، سیٹھ، ساہوکار کہا جاتا ہے کہ کرامتیں اور کرشمے دکھانے کی شکتیاں انہیں ہی پراپت ہیں۔
یہاں گنگاجمنا سرسوتی کا سنگم ہے، پانی کی دو دھارائیں ایک ساتھ مل کر اس طرح بہتی ہیں کہ دونوں کے رنگ الگ الگ نظر آتے ہیں، ہندو مسلمان اور ہندی اردو کی طرح۔ یہاں بڑی بڑی سنگھی بجرنگی طاقتیں ابھریں، پر پانی کے یہ رنگ بھلا کون چھین سکتا ہے؟ پریاگ یا الہ آباد، گنگا جمنا، فطرت کے دو مزاجوں کی طرح، دو کیفیتوں، دو تخلیقی قوتوں اور دو تہذیبوں کا شہر وصال ہے، مگر سرسوتی کہاں ہے؟ علم و عرفان اور ادراک و آگہی کی دھارا، کہتے ہیں سرسوتی کلجگ میں لپت ہو چکی ہے، انسانی آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ پر مجھے تو لگتا ہے کہ پراچین کال میں کبھی سنگم میں بھاری باڑھ آئی ہوگی جس سے یہ ساری دھرتی جل مگن ہو گئی ہوگی۔ پھر باڑھ کا پانی تو اتر گیا ہوگا مگر سرسوتی اسی سرزمین میں رچ بس گئی ہوگی جہاں وہ ۔۔۔ مہا کوی نرالا، مہا دیویی ورما، سمترا نندن پنت، ہری ونش رائے بچن اور دشنیت کمار جیسوں کے کنٹھ میں براجتی رہی۔۔۔ ناگارجن، مارکنڈے، کملیشور اور شمشیر بہادر کے شبدوں میں بولتی رہی۔۔۔ اکبر، فراق، نوح، اعجاز حسین، احتشام حسین، شمس الرحمن فاروقی، مصطفی زیدی، جو بھی اس خطے میں رم گیا سرسوتی کا وردان اسے ملا۔ میں تو ابن صفی، عادل رشید اور محمود احمد ہنر سے لے کر علی احمد فاطمی تک کے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہوں۔ سامنے کی بات کہوں تو یوں لگتا ہے کہ سرسوتی کی ساری دھارائیں جیسے دریا آباد کے اس گوشے میں سمٹ کر تھم گئی ہوں، جہاں اس یُگ کا ایک سرسوتی پُتر آباد ہے جسے دنیا "پروفیسر سید محمد عقیل" کے نام سے جانتی ہے۔

پروفیسر سید محمد عقیل کی تصنیفات کی جامع فہرست۔۔۔
(بحوالہ: عقیل رضوی ویب سائٹ)
  1. نئی فکریں (1953)
  2. انتخابِ داغ (1985)
  3. مثنوی زہر عشق (1960)
  4. کیک اور شراب (سومرسیٹ ماہم کے ناول کا ترجمہ) (1963)
  5. مثنوی کا ارتقا شمالی ہند پر (1965/1983/1990/2010)
  6. نئی علامت نگاری (1974/1975)
  7. تنقید اور عصری آگہی (1976)
  8. سماجی تنقید اور تنقیدی اعمال (1980)
  9. انتخابِ افسانہ (1984)
  10. لندن او لندن (سفر نامہ) (1987)
  11. انتخابِ مدینہ اخبار بجنور (1988)
  12. غزل کی نئی جہات (1989)
  13. عملی انتقادیات (1990)
  14. مرثیہ کی سماجیات (1993)
  15. مختصر تاریخِ ادب اردو (1984)
  16. گئو دھول (خود نوشت سوانح حیات) (1995)
  17. جدید ناول کا فن (1998)
  18. شام دھنک رنگ (شعری مجموعہ) (1999)
  19. ادیب و ادب (2002)
  20. اصول تنقید اور ردعمل (2004)
  21. تعبیرِ خیال (2006)
  22. اردو افسانہ کی تاریخ (2006)
  23. ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ (2009)
  24. ورق تمام ہوا (تنقیدی مضامین) (2010)
  25. نظمیں پڑھتے ہیں (نظموں کا تجزیاتی مطالعہ)

Professor Syed Mohammad Aqeel Rizvi passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں