شہریت ترمیمی بل اور حکومت کی دروغ گوئی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-12

شہریت ترمیمی بل اور حکومت کی دروغ گوئی

cab-bill-protest

وزیر داخلہ امیت شاہ نے متنازعہ شہریت ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کے اعتراض کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان سے مظالم کے شکار اقلیتوں کو جن میں ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی شامل ہیں، انہیں ہمارے ملک میں شہریت دینے کے لئے یہ بل لایا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو ہندوستان میں پناہ نہیں دی جا سکتی۔
اگر بی جے پی واقعی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر ان تین ممالک کی اقلیتوں کو، جو بقول اس کے، ظلم و ستم کا شکار ہیں، ہندوستان کی شہریت دینے کے لئے سنجیدہ ہے تو اس نے اس بل میں مائنمار اور سری لنکا کی اقلیتوں کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں کیا جو اس طرح کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ونیز افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے زیادہ ان دو ممالک کی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے پوری دنیا واقف ہے۔ ان دو ممالک کو اس بل میں شامل نہ کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں مظالم کا شکار اقلیتیں "مسلمان" ہیں۔
اس طرح بی جے پی حکومت کی یہ دروغ گوئی آشکار ہو جاتی ہے کہ یہ بل پڑوسی ممالک کی اقلیتوں کو شہریت دینے کے لئے لایا جا رہا ہے، اس بل میں صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جا رہا ہے اور مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
اس ملک میں جہاں مذہب کی بنیاد پر تحفظات دینے سے انکار کیا جاتا ہے، کس طرح مذہب کی بنیاد پر شہریت کی راہ ہموار کی جائے گی؟ اس بل سے صرف 30 ہزار لوگوں کو فائدہ ہونے والا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 31/دسمبر 2014ء سے پہلے ان تین ممالک کے جتنے اقلیتی شہری ہندوستان میں رہتے ہیں ان سب کو ملک کی شہریت کا اہل مانا جائے گا اور مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی پڑوسی ملک سے ہے، اس ملک کے شہری نہیں مانے جائیں گے۔
اس کے بعد اگلا قدم قومی شہری رجسٹر ہے جس کو این آر سی کہا جا رہا ہے۔ اس کو لانے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اندرون ملک مسلمانوں کو شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا جائے گا۔

ایک اور دروغ گوئی یا پروپیگنڈہ جو اس سلسلہ میں پھیلایا جا رہا ہے وہ ایک مرتبہ پھر سے اکثریت کو اقلیت کے خلاف لا کھڑا کیا جا رہا ہے اور ووٹ بینک کی سیاست کی جا رہی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس بل کے ذریعہ مظلوم ہندوؤں کو ملک کی شہریت دی جا رہی ہے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ ہمارے وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں پاکستان کی زبان بول رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان جیسے ترقی یافتہ نیوکلیر اسلحہ سے لیس ملک کو پاکستان جیسے معاشی طور پر بدحال ملک سے ڈرنا چاہئے؟ لیکن پاکستان کا ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ کی تائید اور ہمدردی حاصل کی جا سکے اور اپوزیشن کو غلط ٹھہرایا جا سکے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مسلمانوں کے کاز کی بات کرنے والوں کو ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے، مذہبی منافرت پھیلانے والے، یہاں تک کہ غدار وطن تک کہا جاتا ہے۔ اکثریت کی بات کرنے والے کو محب وطن قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اکثریت کی بات کرنا بدترین ووٹ بینک کی سیاست ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اب شک باقی نہیں ہے کہ مرکز میں برسر اقتدار ایک مخصوص نظریہ کی حامل سیاسی پارٹی اپنے زعفرانی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جمہوری طاقتوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہئے اور ہم خیال سیکولر ہم وطنوں کے ساتھ مل کر ملک کے سیکولر ڈھانچے کی بقاء کے لئے جمہوری طریقوں سے جدوجہد کرنا چاہئے۔

شہریت ترمیمی بل کے بارے میں چاہے کوئی کچھ کہے اور کوئی بھی وضاحت پیش کرے یہ بات صاف ہے کہ اس کا نشانہ مسلمان ہیں۔ کم سے کم اب تو بیداری کا ثبوت دے کر مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو، خصوصاً مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ کو جدوجہد کے لئے میدان میں اترنا چاہیے۔
مجلس کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے لوک سبھا میں اس بل کی کاپی پھاڑ کر ثابت کر دیا کہ مرد مجاہد صرف ایک ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے مسلم ارکان کو بھی ان کی تقلید کرنا چاہئے تھا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ پورے ملک میں اس بل کے خلاف احتجاج چل رہا ہے۔ کم سے کم اب ہم کو اپنے وجود کا احساس دلانے کی ضرورت ہے، کہیں ہم یہ سمجھ کر غفلت میں نہ رہ جائیں کہ آگ ابھی میرے دروازے تک نہیں پہنچی ہے۔
آگ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اتحاد، وقت کا تقاضا ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے۔ اب اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سیکولرازم اور جمہوریت کی بقاء کے لئے جدوجہد کرنے ہمیں میدان عمل میں آنا چاہئے۔

بشکریہ:
اداریہ روزنامہ "اعتماد"، حیدرآباد۔ شمارہ: 12/دسمبر/2019

Citizenship Amendment Bill and Lies by the Government.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں