ملزم - افسانہ از جیلانی بانو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-11

ملزم - افسانہ از جیلانی بانو

mulzim-story-by-jeelani-bano

ملزم ۔۔۔!
کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ تم ایک بےحیا، بےشرم انسان ہو۔ تم سڑکوں پر ایسے پھٹے ہوئے کپڑے پہنے پھرتے ہو، جس میں تمہارا بدن نہیں چھپتا۔ تم اپنے ننگے بدن کی نمائش کرنے گرلز کالج کے سامنے بیٹھے رہتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر کالج کی لڑکیاں شرم سے مونہہ چھپا لیتی ہیں۔
تم نے اپاہج ہونے کا بہانہ کر کے اپنے کنبہ کی ذمہ داری چھوڑ دی ہے۔
تم نے اپنے بچے کے ہاتھ سے روٹی چھین کر اسے دھکیل دیا تھا!
تم ایک پیشہ ور قاتل ہو۔
تم نے اب تک چار قتل کیے ہیں۔
ایک سیاسی لیڈر کو اس لیے مار ڈالا تھا کہ اس نے اپنا کام تم سے کروا کے صرف سو روپے کا نوٹ تمہیں دینا چاہا تھا۔
تم نے ایک حلوائی کا قتل اس لیے کیا تھا کہ وہ سڑ جانے والی مٹھائیاں کوڑے میں پھینک رہا تھا۔
تم نے ایک پجاری کو اس لیے مار ڈالا تھا کہ تمہارا نام عبدالخالق ہے اور اس نے تمہیں مندر کا پرساد دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تم نے ایک منسٹر کا قتل اس لیے کیا تھا کہ منسٹر بننے کے بعد اس نے بھیک مانگنے کو جرم قرار دیا تھا۔
تم ایک ڈھونگ رچانے والے بہروپیے ہو۔
تمہیں جو سیاسی پارٹی اپنے ساتھ لے جائے تم اس کے ساتھ چلے جاتے ہو۔
تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے۔ تمہارا نام عبدالخالق ہے، لیکن تم کبھی مسجد نہیں گئے۔
تم دھوکے باز ہو۔ جب کوئی تمہیں بھیک دیتا ہے تو تم ان پیسوں پر تھوک کر واپس کر دیتے ہو۔
تم کپڑوں کی ایک شاندار دکان کے سامنے بیٹھے رہتے ہو۔ تمہارے بدن کی گندگی اور وحشت ناک صورت دیکھ کر دکان میں آنے والے کسٹمرس لوٹ جاتے ہیں۔ کئی بار تمہیں وہاں سے اٹھایا گیا، مگر تم باز نہیں آتے۔
تم انسان نہیں، کتے ہو۔ سڑکوں کے آوارہ کتوں کے ساتھ کچرے کے ڈھیر میں چھپی ہوئی ہڈیاں اور غلاظت بھرے کاغذ چباتے ہو۔
تم کتوں کے بچوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر سوتے ہو۔
بولو ۔۔۔ جواب دو ناں!

چپ رہنے کا فن خوب سیکھا ہے تم نے ۔۔!
تم نے چیف منسٹر کی کار پر پتھر پھینکا جس سے ان کا ڈرائیور زخمی ہو گیا۔
تم سڑکوں پر پرائم منسٹر اور پریزیڈنٹ کو گالیاں دیتے ہو۔
تم اپنے آپ کو پریزیڈنٹ سے بھی بڑا آدمی سمجھتے ہو۔
کیا تم نہیں جانتے کہ ملک کے صدر سے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ایک حماقت ہے ۔۔۔!
تم ایک مداری کی طرح بازار میں جہاں بیٹھتے ہو، اپنے آس پاس بھیڑ جمع کر لیتے ہو۔ تمہارے بیوی بچے تمہیں پہچاننے سے انکار کرتے ہیں۔
ڈاکٹری رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم پاگل نہیں ہو۔ اس لیے تمہیں کسی اسپتال میں نہیں رکھا جا سکتا۔
تم بھکاری نہیں ہو، اس لیے کوئی دھرم شالہ، کوئی ہوم تمہیں رکھنے کو تیار نہیں ہے۔
تم پاگل ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہو، آسمان پر پتھر پھینکتے ہو اور کہتے ہو ہر دکھ اوپر سے آتا ہے۔
کیا تم اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو ۔۔۔؟
یاد رکھو کہ جج صاحب کے سامنے تمہیں اقرار کرنا ہوگا کہ سچ کے سوا تم کچھ نہ کہو گے۔
کیا تم نیک چلن بھکاریوں کی طرح بھیک نہیں مانگ سکتے تھے ۔۔۔؟
اتنے قتل کر سکتے ہو ، مگر دو گز کپڑا کہیں سے چرا کے اپنا تن نہیں ڈھانک سکتے تھے؟

جواب دو ۔۔۔!

تمہاری خاموشی تمہارا جرم ثابت کر رہی ہے!!

"می لارڈ ۔۔۔ ملزم کا ندامت سے جھکا ہوا سر اور اس کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملزم اپنے جرم کا اقرار کرتا ہے۔"

"می لارڈ !
اس کیس کے ختم ہونے سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔"

"تم کون ہو ۔۔۔؟ کس کے وکیل ہو ۔۔۔؟"

"میں قانون، مذہب، تہذیب، سماج، سب کی وکالت کر رہا ہوں۔ می لارڈ! میں چاہتا ہوں کہ اس مجرم کو ایسی کوئی سزا نہ دی جائے کہ یہ ختم ہو جائے ۔۔۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو دنیا کا ہر مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ ہم بھیک کسے دیں گے؟ رحم کس پر کریں گے؟ خدا کے خوف سے ڈرنے والے کہاں سے لائیں گے؟ اگر آج اسے پھانسی دے دی گئی تو سپریم کورٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
می لارڈ! مجھے یہ بات کہنے کی اجازت دیجیے کہ مجرم کا وجود ہماری بقا کے لیے ضروری ہے ۔۔۔
اس کے لیے عمر قید کی سزا ہی مناسب ہے!!"

ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: جون 1999۔

Mulzim. Short Story by: Jeelani Bano

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں