شوکت کیفی (پ: 1927 ، حیدرآباد دکن)
سابق ریاست حیدرآباد دکن کی دخترِ نیک اختر، نامور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ اور معروف بالی ووڈ آرٹسٹ شبانہ اعظمی کی والدہ بروز جمعہ 22/نومبر 2019 کو بعمر 91 سال ممبئی میں انتقال کر گئیں۔
گذشتہ ریاست حیدرآباد کے رنگارنگ اردو کلچر کی یہ ایک نمائندہ اور شفاف و سادہ طرزِ بیان کی سوانحی دستاویز ہے جس میں سب سے گہرا رنگ صاحب کتاب کے شریک حیات کیفی اعظمی کا ہے جو جگہ جگہ بکھرا ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ [Kaifi and I,Shaukat Kaifi's memoirs] بھی شائع ہو چکا ہے۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ دلچسپ سوانحی کتاب پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
پروفیسر قمر رئیس اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔۔۔یاد کی رہ گزر - کسی ایک انسان کی سرگزشت نہیں بلکہ ایسے دو انسانوں کی رزمیہ گاتھا ہے جو پیار کی ایک زنجیر سے، ایک جیسے مقدر سے، ایک نظریہ سے اور دکھی انسانیت کے نروان کی ایک عظیم تحریک سے بندھے رہے۔۔۔ یہ ایسے دو فنکاروں کی توزک ہے جو بیسویں صدی کی نصف آخر کی انقلابی روشن خیالی کے فروغ میں اپنی قلمکاری اور اداکاری سے مقدس دیوانگی کے ساتھ وابستہ رہے۔
اس مختصر سی آپ بیتی کو جس وصف نے کم از کم ذہنی اور جذباتی سطح پر، جس طرح کی تہہ داری اور معنویت بخشی ہے وہ ہے شوکت کیفی صاحبہ کا نہایت واضح ترقی پسندانہ نقطۂ نظر، دردمندانہ احساس اور انسانی تہذیب کا ایک روشن وژن۔ ایسا نہیں ہے کہ حیدرآباد کی جاگیردارانہ تہذیب سے ان کا جذباتی رشتہ نہ رہا ہو۔ کتاب کے پہلے ہی باب میں اس شہرِ کمال کی اردو پرستی، شعر و شاعری، اس کے ملبوس، آرائش، رنگا رنگ کھانے، رسم و رواج سب کا بیان ملتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اعلی حضرت اور ان کے دربار سے جڑے نوابین کی عیش کوشیاں، غریب رعایا پر ظلم و ستم ، معصوم اور مجبور دوشیزاؤں کی عصمت ریزیاں اور اسی طرح کی دیگر سفاکیوں کی روداد بھی انہوں نے بڑی جرات سے سنائی ہے۔ شوکت صاحبہ نے جبر و بیداد کے ان گنت چشم دید واقعات نقل کیے ہیں۔ یہی معروضی واقعہ نگاری دوسرے ابواب میں نظر آتی ہے۔
اسی کتاب کا ایک باب بعنوان "حیدرآباد" ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔میں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ نیم ترقی پسند تھا لیکن میرے ابا تو لڑکیوں کی تعلیم کے انتہائی حق میں تھے لیکن میرے دادا اور چچا انتہائی خلاف۔ میرے ابا نے 1938 میں اپنی دونوں بڑی بیٹیوں، یعنی میری بڑی بہن لیاقت خانم (عمر سترہ سال ) اور منجھلی بہن ریاست خانم (عمر سولہ سال ) کو خاندان کی مرضی کے خلاف مشن اسکول میں شریک کروا دیا تھا۔ اسکول میں مخلوط تعلیم تھی یعنی لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ رہا پردے کا سوال تو انھوں نے آج سے 95 سال پہلے ہی اپنی بیوی کا برقعہ اس وقت اتروا دیا تھا جب وہ انھیں بیاہ کر سہارنپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں لوہاری سے حیدرآباد لا رہے تھے۔ دہلی کے اسٹیشن پر ان کا برقعہ اتار کر اٹیچی میں بند کروا دیا تھا۔
میرے دادا کٹر قسم کے مولوی ، عربی فارسی کے عالم تھے۔ جنھوں نے قرآن شریف کا ترجمہ اردو میں کیا تھا۔ ابا جان کو عربی فارسی کی تعلیم تو مکمل کروا دی تھی لیکن انگریزی کے خلاف تھے۔ جب ابا جان نے محسوس کیا کہ انگریزی کے بغیر نوکری نہیں مل سکتی تو انھوں نے چھپ کر انگریزی پڑھنی شروع کی اور میٹرک پاس کر لیا۔ ان کی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ وہ بی اے کے بچوں کو پڑھا سکتے تھے۔ جب انھیں محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر کی نوکری مل گئی تو انھوں نے تیلگو پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ حیدرآباد میں نوکری کے لیے تیلگو جاننا ضروری تھا۔ تیلگو وہ بہت اچھی طرح پڑھ سکتے تھے اور بول سکتے تھے۔ بچوں کو پڑھانا ان کی hobby تھی۔
ابا روزے نماز کے سخت پابند تھے۔ میری ماں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتی تھیں۔ میری منجھلی بہن ریاست خانم نے جنھیں ہم چھوٹی آپا کہتے تھے، سات سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا تھا اور نو سال کی عمر میں حفظ۔ میں بھی نماز پڑھتی تھی لیکن قرآن شریف کا صرف اردو ترجمہ پڑھا کرتی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ آخر قرآن شریف میں ایسا کیا لکھا ہوا ہے کہ آدھی دنیا اسے مانتی ہے۔
ہمارے ابا کی تنخواہ صرف تین سو روپے تھی۔ جس میں وہ اپنے دس بچوں کی پڑھائی اور کھانے پینے کا خرچ اٹھاتے تھے۔ میری ماں انتہائی نیک، پرہیز گار اور کفایت شعار بیوی تھیں۔ اپنے شوہر کی پسند پر سر جھکا کر چلنے والی خاتون لیکن انتہائی حساس اور خوددار بھی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی جان ، خورشید علی خان، جو بی اے میں پڑھ رہے تھے، ایک مہینے کا غلہ صرف چالیس روپے میں لا کر دیتے تھے، جس میں گھی اور لکڑی بھی ہوتی تھی (اس زمانے میں کھانا لکڑی کے چولہے پر بنتا تھا)۔ پکانے والی ماما کی تنخواہ آٹھ روپے تھی۔ بڑے بھائی جان جو عثمانیہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے ان کا ماہانہ خرچ صرف اکیس روپے تھا۔ میری بہنوں کے ٹیوشن ماسٹر کا نام ملپا تھا۔ ان کی فیس صرف پندرہ روپے تھی۔ وہ صبح پانچ بجے آیا کرتے تھے اس لیے انھیں ناشتہ بھی دیا جاتا تھا۔ ہمارے گھر ناشتے میں اکثر صرف کچھڑی ، چٹنی، دہی اور پاپڑ ہوتے تھے۔ کبھی کبھی قیمہ بھی بن جایا کرتا تھا۔
ہم لوگ اسکول شکرم میں جاتے تھے۔ یہ ایک طرح کی دو بیلوں والی گاڑی ہوا کرتی تھی جس میں چاروں طرف چلمنیں اور دونوں سائڈ میں سیٹیں ہوتی تھیں۔ جن پر کم از کم آٹھ لڑکیاں بیٹھ سکتی تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم منگل ہاٹ نام کے ایک محلے سے گزرتے تھے تو ایک چائے خانے سے بیگم اختر کا وہ گانا "دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے" ضرور سنائی دیتا تھا۔
گوشت کی دکان سے "چار گنڈے پاؤ سیر لے جاؤ چار گنڈے پاؤ سیر" کی آوازیں آتی تھیں۔ چار گنڈے سولہ پیسے کے ہوتے تھے۔ اس وقت گوشت چونسٹھ پیسے کا ایک سیر ملتا تھا۔ ایک روپے میں چھیانوے پیسے ہوتے تھے۔ یہ میں 1941 کی بات کر رہی ہوں۔
جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔ چھ پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصوں میں کلدار سکے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں
کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے ، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بهشت ، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مهر، آبان۔
مجھے دوپٹے رنگنے اور چننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے گرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔ میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش ، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔
حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔
حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوبصورت نام ہوتے تھے مثلاً:
زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی ، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔ میرے دوپٹے اس قدر خوبصورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔
***
نام کتاب: یاد کی رہ گزر
خود نوشت از: شوکت کیفی اعظمی
تعداد صفحات: 240
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Yaad ki Rahguzar_Shaukat Kaifi Azmi.pdf
یاد کی رہ گزر - خودنوشت :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | لفظِ تشکر (شوکت کیفی) | 9 |
2 | پیش لفظ (پروفیسر قمر رئیس) | 11 |
3 | ایک تاثر (سلمیٰ صدیقی) | 19 |
4 | یاد کی رہ گزر | 25 |
5 | حیدرآباد | 27 |
6 | اورنگ آباد | 49 |
7 | بمبئی | 61 |
8 | لکھنؤ اور مجواں | 83 |
9 | لکھنؤ سے بمبئی | 92 |
10 | بمبئی سے حیدرآباد | 100 |
11 | حیدرآباد سے بمبئی | 104 |
12 | کملا بائی | 110 |
13 | ریڈ فلیگ ہال اور سردار جعفری | 114 |
14 | میرے ڈرامے | 122 |
15 | میری فلمیں | 141 |
16 | شبانہ اور بابا | 154 |
17 | کیفی کی بیماری | 173 |
18 | کیفی کے بغیر | 208 |
19 | ضمیمے (شوکت کیفی کے یادگار ڈرامے اور فلمیں) | 219 |
20 | پرتھوی تھیٹر | 221 |
21 | اپٹا | 221 |
22 | تھیٹر گروپ | 222 |
23 | تروینی رنگ منچ | 222 |
24 | انڈین نیشنل تھیٹر | 222 |
25 | فلمیں | 223 |
Yaad ki rah-guzar. Autobiography by Shaukat Kaifi Azmi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں