گورو نانک دیوجی مہاراج کی تعلیمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-12

گورو نانک دیوجی مہاراج کی تعلیمات

guru-nanak-ik-onkar

ہندوستان کے افغانی عہد میں (جسے تاریخ نے "اسلامی عہد" کا نام دیا ہے) بہت سی ایسی عظیم روحانی شخصیتوں کا ظہور ہوا، جنہوں نے دنیا کو انسانی اخوت و محبت کا پیغام دیا، ان شخصیتوں میں حضرت بابا نانک جی کا نام سرفہرست ہے۔
حضرت بابا نانک نے لودھی افغانوں کا عہد بھی دیکھا ہے اور مغل بادشاہ بابر کا زمانہ بھی۔ سلطان محمد ابراہیم لودھی افغان (شہید پانی پت) بابا نانک جی کا بےحد احترام کرتے تھے۔ لیکن بابر نے کچھ عرصہ تک بابا نانک جی کو "چکی" کی مشقت دی تھی۔ اس کے باوجود اس روحانی پیشوا نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغامِ محبت و اخوت کی تبلیغ جاری رکھی بلکہ اس کو اور زیادہ اثرانگیز بنانے کی کوشش کی۔
آج سے سینکڑوں برس پہلے لودھی افغانوں کے عہد میں بابا گرونانک مہاراج نے انسانی یکجہتی اور اخوت کا عالمگیر پیغام دیا تھا اور ہر مذہب کے بزرگوں سے خلوص و محبت کے تعلقات استوار کیے تھے۔ خصوصاً مسلم بزرگوں اور صوفیوں سے تو ان کے بہت ہی گہرے روابط تھے، جن کا کلام "گورو گرنتھ صاحب" کی بانیوں میں موجود ہے۔
بابا گرونانک جی یہی پیغام ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک بھی لے کر گئے تھے۔ افغآنستان، ایران اور عرب میں ان کی یادگاریں معجزانہ طور پر اب تک موجود ہیں۔ اسی طرح بابا جی وسطِ ایشیا کے مسلم ممالک کے علاوہ مشرقِ بعید کے بھی کئی ملکوں میں یہ پیغام لے کر گئے۔ محبت و اخوت کے ان مترک سفروں میں "بابا مردانہ" اور "بھائی بالا" ان کے رفیق تھے۔
بابا گرونانک جی کا ایک طرۂ امتیار یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر ملت کے لوگوں میں ان کی محبت یکساں ہے اور سب ہی دل و جان سے ان کا حقیقی احترام کرتے ہیں۔ جناب اندرجیت گاندھی نے "ذکرِ نانک" کے نام سے گلہائے عقیدت کا جو گلدستہ نہایت محنت و کاوش سے ترتیب دیا ہے، اس میں بابا گرو نانک جی کے پیغامِ محبت و اخوت کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
(بقلم: عتیق الرحمان عثمانی، دہلی۔ 25/جولائی 1969)

گورو نانک دیو جی مہاراج کا جنم اس زمانہ میں ہوا جب تاریکی، جہالت اور اخلاقی گراوٹ کا دور دورہ تھا۔ کوئی مضبوط اور مستحکم مرکزی حکومت وجود میں نہ تھی۔ جبر و تشدد زوروں پر تھا، ہندو پس رہے تھے، تشدد کی بےآواز لاٹھی مظلوموں پر برس رہی تھی، مظلوموں کی آہ و فریاد حاکمِ وقت کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ لیکن خالقِ دو جہاں کے دربار میں یہ فریاد سن لی گئی اور اس ظلم و تشدد کے خلاف امن اور شانتی کا پرچار کرنے کے لیے ہی گورو نانک دیو جی مہاراج کو اس دنیا میں بھیجا گیا اور آپ نے اپنی تمام زندگی راستی کا پرچار کرتے ہوئے غلط راستوں پر چل رہے لوگوں کو گمراہی سے بچانے میں ہی بسر کر دی۔
گورو نانک دیوجی مہاراج کا جنم اس گھرانے میں ہوا جہاں کے لوگ کاروباری قسم کے تھے۔ گورو نانک دیوجی کی شخصیت کے بارے میں "فرخ سیر" کے منشی مولوی غلام علی نے لکھا ہے کہ:
"گورو نانک دیوجی بےحد خوبصورت، شیریں زبان اور شیریں مقال تھے اور مسکراہٹ ان کے چہرۂ اقدس پر ہمیشہ کھیلتی رہتی تھی۔ ان کا قد درمیانہ اور بازو لمبے تھے۔ وہ جب سات برس کے ہوئے تو انہیں پاندھے کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا گیا۔ بعد ازاں مولوی سے فارسی اور پنڈت جی سے سنسکرت بھی پڑھی اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا۔"

گورو نانک دیو جی جب بڑے ہوئے تو آپ کو بھی کاروبار میں ہاتھ بٹانے کے لیے آمادہ کیا گیا۔ اس زمانے میں تعلیم کے ذرائع بہت ہی محدود تھے لیکن گورو نانک دیوجی تو روحانی تعلیم سے بھی مالا مال تھے۔ اس لیے آپ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے والد ہی کی طرح کے بیوپاری نہ بن سکے۔ آپ تو ایسے سودے کرنا چاہتے تھے، جن میں کوئی فریب نہ ہو، کوئی دغا نہ ہو، جھوٹ کی آمیزش نہ ہو۔ اور جب آپ کو کچھ رقم دے کر ضروری چیزیں خریدنے کے لیے بھیجا گیا تو راستے میں آپ کو کچھ ایسے مہاپرش (سادھو) مل گئے جن کی ضروریات کو گورو صاحب نے ازحد ضروری سمجھا ۔ چنانچہ آپ نے تمام رقم ان مہاپرشوں کے لیے بھوجن کا انتظام کرنے ہی میں صرف کر دی اور خود خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔ گورو نانک دیوجی سے بازپرس کی گئی تو آپ نے ہنس کر کہہ دیا: "میں سچا سودا کر آیا ہوں۔"
گورو نانک دیوجی کا یہ جواب ایک حقیقت تھی، جس میں کوئی فریب نہ تھا، کوئی جھوٹ نہ تھا، کوئی دھوکا نہ تھا بلکہ آپ نے تو ان مہاپرشوں کی خدمت کر کے ایک ایسا سودا کر لیا تھا جس کے سبب گورو نانک دیوجی کی عزت کو چارچاند لگ گئے اور آپ اب تک اسی عزت و احترام کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں۔ گورو نانک دیوجی کے اس "سچا سودا" کی یاد میں چوہڑکانہ کے نزدیک ایک بہت بڑا گوردوارہ "سچا سودا" کے نام سے یادگار کے طور پر اب بھی قائم ہے۔

گورونانک دیوجی جہاں بھی گئے وہ جگہ مقدس یادگار بن گئی۔ تلونڈی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں آپ نے جنم لیا تھا۔ تلونڈی ننکانہ صاحب کے نام میں بدل گیا اور اسی ننکانہ صاحب میں آج بھی گوردوارہ جنم استھان کے نام سے موجود ہے۔ حسن ابدال اور دوسرے مقامات پر، جہاں بھی آپ گئے، وہاں مقدس یادگار قائم ہو گئی۔
گورو نانک دیوجی نے اتحاد کا پیغام ایسے وقت میں سنا کر ایک اہم ضرورت اور اہم فرض کو سرانجام دیا، جب دیش کی سیاسی حالت دگرگوں ہو چکی تھی۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا۔ لودھی خاندان کی حکومت کا سنگھاسن ڈول رہا تھا۔ بابر کی فوجوں کے حملہ سے ملک میں ایک ابتری سی پھیل گئی تھی۔ امین آباد میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ گورو نانک دیوجی نے اس ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ آپ خود بھی امین آباد پہنچے۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پیار و محبت کے پیغام کو سب کے سامنے رکھا۔ حاکمِ وقت نے آپ کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا۔ لیکن جب آپ رہا ہوئے تو آپ نے اپنے خیالات کو پرچار پہلے سے بھی زیادہ زور و شور کے ساتھ شروع کر دیا اور بیشتر مسلمان بھی آپ کے پیغام پر اعتماد لے آئے۔ آپ نے فرمایا:
نہ کوئی بیری نہ ہی بیگانہ

گورو نانک دیوجی کا یہ پیغام ایک ایسا پیغام تھا جس میں فرقہ پرستی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ آپ کے ساتھ بالا اور مردانہ بھی رہا کرتے تھے۔ "بالا" ہندو تھا اور "مردانہ" مسلمان۔ تینوں کا اکٹھے رہنا ہی اتحاد کی ایک بہترین مثال تھی۔
گورو نانک دیوجی جہاں بھی گئے، اس جگہ اس ماحول کا لباس اختیار کر لیا۔ آپ وہاں کی زبان کو سمجھنے اور دوسروں کو اسی زبان میں سمجھانے کی پوری پوری کوشش کرتے۔ آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ آپ اپنے خیالات کو روحانی رنگ میں نظم کی شکل دیتے اور مردانہ اس پیغام کو راگ میں ڈھال کر بربط کے تاروں کے ساتھ گا کر سنا دیتا۔ اس طرح آپ کے پیغام کو غور سے سنا جاتا۔ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے جگہ جگہ جماعتیں بن گئیں۔ ٹیلی فون، اخبارات اور دوسرے ذرائع نہ ہونے کے باوجود آپ کے خیالات ہر گھر تک پہنچ گئے۔

گورونانک دیوجی نے "اک اونکار" یعنی ایک خدا کا پرچار بھی کیا۔ ایسا کر کے آپ نے تنگ نظری اور خودغرضی کے تحت بنائے گئے غلط قانون، اور غلط قاعدوں کے تحت اپنے ڈھونگ کے مطابق پرچار کرنے والوں کے فریب کا پردہ چاک کر دیا۔
گورو نانک جہاں بھی جاتے وہاں کے مہاپرش، وِدوانوں، پنڈتوں، مولویوں اور دوسرے صاحبِ علم لوگوں سے مل کر تبادلۂ خیال کرتے۔ اس طرح آپ نے علم کا ایسا خزانہ حاصل کیا اور راستی کا ایسا راستہ ڈھونڈ لیا جس راستہ پر چل کر ہی آج ہندوستان ترقی کر سکتا ہے۔ آج بھی دیش میں نفرت کا پرچار زوروں پر ہے۔ تلخی، ترشی، لڑائی جھگڑے اپنا دامن پھیلا رہے ہیں۔ ہندوستان کے اندر اور باہر انتشارپسند طاقتیں مضبوط ہو رہی ہیں، آج بھی ضرورت ہے کہ اپنی راگنی گانے والے ابن الوقت رہنما، عوام کو لڑانے کی بجائے گورو نانک دیوجی کے بتائے ہوئے راستہ کو اپنائیں۔
گورو نانک دیوجی کے پیغام میں زندگی کا ایسا راز ہے جس کو پا لینے سے دنیا بھر کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ گورو نانک مذہبی پیشوا ہی نہیں، ایک عظیم شخصیت کے مالک بھی تھے۔ ان کی یاد آتے ہی سر عقیدت کے ساتھ جھک جاتا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم گورو نانک دیو جی کے پیغام کو ذہن نشین کریں اور دوسروں کو بھی اس پیغام پر عمل کرنے کی تلقین کریں۔ کیونکہ ؎
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

یہ بھی پڑھیے:
گرونانک کی تعلیم

***
ماخوذ از کتاب:
ذکرِ نانک (اردو نظموں میں گرونانک کو خراج عقیدت)۔ مرتب: اندرجیت گاندھی۔ سن اشاعت: اگست 1969

The teachings of Guru Nanak.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں