گرونانک کی تعلیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-25

گرونانک کی تعلیم

guru-nanak-education
مذہب کا اصل نام زندگی کا سدھارنا اور اس کو شرافت اور محبت کے اصول اور طریقوں سے آشنا کرنا ہے۔ وہ اس فرض کو اسی صورت میں ادا کر سکتا ہے جب وہ دلوں کو ملائے اور ان اثرات کو زائل کرے جو انسان کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور نفرت، تعصب اور تنگ دلی کے زہریلے بیج بوتے ہیں۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے دھرم اور ادھرم کی بہت دل لگتی تعریف کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ ہر وہ چیز جو دلوں کو ملاتی ہے دھرم ہے، جو دلوں کو ایک دوسرے سے جداکرتی ہے وہ ادھرم ہے۔ اسی حقیقت کو مولانا روم نے بلاغت کی سادگی کے ساتھ یوں ادا کیا تھا۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نہ برائے فصل کردن آمدی
یعنی اے انسان تو دنیا میں میل محبت بڑھانے کے لئے آیا ہے، پھوٹ ڈالنے کے نہیں آیا!!

نگاہ حقیقت شناس صرف انہی لوگوں کی قدر اور عزت کر سکتی ہے جو اس کسوٹی پر پورے اتریں خواہ وہ مذہبی راہ نما ہوں یا سیاست کے نیتا۔ گرونانک کی اخلاقی عظمت اور روحانی کشش کا اصلی راز یہی ہے کہ ان کی تعلیم محبت اور رفاقت کی تعلیم ہے۔ انہوں نے سب انسانوں کو ان کی مشترک انسانیت کی یاددلائی اور ذات پات، رنگ روپ، امیری غریبی کے بھید بھاؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جس وقت اس دیس کے بہت سے باسی مذہب کی سچی تعلیم کو بھل اچکے تھے اور اس کی ظاہری رسموں اور شکلوں میں الجھ کر رہ گئے تھے انہوں نے سب کو یہ قدیم لیکن انقلاب آفریں پیغام سنایا کہ زندگی کا قانون ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ یہی محبت کا جذبہ ہے جو عقیدت اور بھکتی کی روح بیدا کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ انسان کی رسائی خدا تک ہوتی ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گرو نانک کی نظر اس ابدی اور بنیادی حقیقت تک پہنچ گئی تھی جو مختلف مذہبوں میں الگ الگ روپ اختیار کر لیتی ہے لیکن باوجود اس ظاہری فرق کے باطن میں ایک ہی ہے۔ حضرت مسیح نے ہمدردی اور محبت کا پیغام ہی نہیں، دیا بلکہ اپنی زندگی میں اس کی اعلی ترین مثال دکھائی۔ اسلام نے سکھایا کہ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے، اس لئے سب کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور شرافت کا سلوک کرنا چاہئے، جیسا وہ اپنے قریبی عزیزوں سے کرتے ہیں۔ رنگ و نسل اور ذات پات کے امتیاز بالکل جھوٹے اور مصنوعی ہیں۔ اصل چیز خدا شناسی، خدا ترسی اور نیک عمل ہے۔ عبادت کے آداب اور رسوم بدل سکتے ہیں لیکن یہ بنیادی اصول اٹل ہے۔ بھگوت گیتا نے بھی انسانی وحدت کے اصول کی بنیاد اس خدا شناسی پر رکھی ہے جو شخص ہر کام میری خاطر کرتا ہے جو مجھ کو سب سے مقدم اور اعلی سمجھتا ہے، مجھ سے عقیدت رکھتا ہے، جس کو دوسری چیزوں سے لگاؤ نہیں جو دنیا کے کسی جاندار سے دشمنی نہیں رکھتا۔ وہی میرے حضور میں باریاب ہو گا، دیکھئے یہاں بھی شرط وہی ہے پر ماتما سے خلوص اور عقیدت اور اس کے بندوں سے محبت جو اس شرط کو پورا کرتے ہیں ان کی ایکب رادری ہے خواہ وہ خود کو کسی نام سے پکاریں۔ آپ کو الو بن ادھم کا خواب یاد ہو گا کہ اگر میرا نام خدا کے محبوب بندوں میں نہیں لکھ سکتے تو اس فہرست میں لکھ لو جس میں خدا کے بندوں سے محبت کرنے والوں کے نام ہیں۔ اور اس کا نتیجہ ؟ ان کا نام خدا کے محبوب بندوں کی فہرست میں سر عنوان تھا۔ خدا کی رضا اور توفیق حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے۔

انسانوں سے یہ محبت ایک عام جذبہ بھی ہے اور خاص بھی۔ خاص طور پر وہ لوگ اس کے مستحق ہیں جو مصیبت زدہ اور مسکین اور کمزور ہیں، جن کو ذات پات کے بندھنوں اور دولت مند یا اونچی ذات والوں کے انیائے نے اپنے انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ وہ سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں یعنی گاندھی جی کی اصطلاح میں ’’ہری جن‘‘ ہیں۔ گرونانک کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہم عصروں اور بعد کے آنے والوں کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا کہ ان گرے ہوؤں کو اٹھانا انسان کا سب سے بڑا فرض ہے۔
گرونانک نے ایک غریب گھرانے میں ایک پٹواری کے یہاں جنم لیا۔ شاید قدرت کو یہ تصور تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ اصلاح اور ہدایت کے سوتے کسی بڑے گھرانے یا عالم فاضل خاندان ہی میں پھوٹیں۔ لیکن انہوں نے اپنے خلوص اور محبت اور میٹھے بولوں کے ذریعہ ہر قسم کے لوگوں کے دل میں گھر کر لیا۔ اس طرح نہیں کہ ان غلطیوں اور توہمات کو جو ہر طرف پھیلے ہوئے تھے مان لیں اور لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائیں بلکہ انہوں نے نرمی اور سمجھ داری کے ساتھ ان پر تنقید کی اور ایسی مثالوں کے ذریعہ اپنی تعلیم کو پیش کیا کہ وہ دل سے نکلتی تھیں اور دل میں اتر جاتی تھیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب ان سے جنیوپہننے کے لئے کہا گیا تو انہوں ںے اس سے انکار کر دیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انہیں شروع ہی سے ظاہری علامتوں کی نہیں بلکہ چھی ہوئی حقیقتوں کی تلاش تھی۔ انہوں نے سوال کیا ’’روئی کے دھاگے میں روحانیت کہاں سے کہاں سے آ گئی؟ روحانیت تو رحم اور محبت، قناعت اور سچائی اور بے نفسی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب سیرت ان صفات کے تانے بانے سے ترتیب پائے گی اس وقت انسان انسانیت کے اصلی مقام پر پہنچ سکتا ہے تبھی من و تو کے امتیاز مٹ سکتے ہیں جس کے بغیر نہ انسان دوسرے انسانوں کے دلوں میں گھر کر سکتا ہے نہ خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ ایک مشہور وید ان کے علاج کے لئے بلایا گیا۔ لیکن انہوں نے اس سے بہت نرمی سے کہا کہ تم میرا کیا علاج کرو گے تم خود مریض ہو۔ اس نے پوچھا میرا مرض کیا ہے ؟ جواب ملا انانیت، خود نمائی، اپنے کو دوسروں سے برتر اورالگ تھلگ سمجھنا۔ یہ جذبہ نہ صرف ہمارے اور ہمارے ہم جنسوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرتا ہے بلکہ ہمیں خدا سے بھی دور رکھتا ہے جو تمام زندگی کا سر چشمہ ہے یہ وہی انانیت ہے جس کی طرف غالب نے اپنے مخصوص انداز میں اشارہ کیا تھا۔
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
یہ وہی پیغام ہے جو دنیا کو مختلف زمانوں میں صوفیوں، رشیوں اور خدا شناسوں نے اپنی اپنی زبانوں میں دیا ہے۔

گرونانک کا پیغام ہمارے لئے صرف ذاتی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ جماعتی لحاظ سے بھی بہت ضروری اور قابل قدر ہے۔ اس دیس میں جہاں ہزاروں برس سے مختلف مذہبوں کے ماننے والے بستے ہیں ابھی تک باہمی مفاہمت اور رواداری اور ایکتا کی وہ روح، وہ فضا پیدا نہیں ہو سکی جو ہر قسم کی مادی اور اخلاقی ترقی کے لئے پہلی شرط ہے۔ مثلاً ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کو لیجئے جو ان کے زمانہ میں بھی تھے اور پھر اس زمانے میں تو اتنے بڑھے کہ انہوں نے ملک کی تقسیم کراکے بھی دم نہ لیا۔ گرونانک نے کبھی مذہبوں کے باہمی جھگڑوں اور ناسمجھوں کے بنائے اختلافات کو تسلیم نہیں کیا، وہ ان کی بنیادی تعلیم کی وحدت کے اسی طرح قائل تھے جس طرح مثلاًاسلام قائل ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، اس پر بہت چہ میگوئیاں ہوئیں اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سمجھائیں کہ انہوں نے یہ بات کیسے کہی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا مسلمان ہونا بہت مشکل ہے، مسلمان میرے نزدیک وہ ہے جو اپنے ایمان میں پختہ ہو جس کے رو مرہ کے کاموں میں پیغمبر اسلام کی تعلیم کی جھلک پائی جائے، جس کا دل غرور اور لالچ سے پاک اور موت زندگی کے دھوکوں سے بلند ہو، جو رضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر لے اور یہ جانے کہ جو کچھ کرتا ہے وہ خدا کرتا ہے۔ در اصل وہی شخص اپنے کو مسلمان کہہ سکتا ہے جو خود پرستی کے بندھنوں سے خود کو آزاد کرے اور جس کے رحم کی چھایا خدا کی ساری مخلوق پر ہو۔ کس قدر بلند اور سچا ہے یہ تصور جو گرو صاحب کے نزدیک ایک اچھے مسلمان ہی کا نہیں بلکہ ہر اچھے انسان کا ہے۔ چنانچہ اس بیان کا مقابلہ اگر آپ اس تعریف سے کریں جو انہوں نے ایک سچے سکھ کی بتائی ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کو مذہبوں کی تعلیم کی وحدت اور خیرو شر کے بنیادی مفہوم کا کس قدر گہرا احساس تھا۔ بھگیرتھ نے ان سے پوچھا کہ ایک سچے سکھ کی کیا خصوصیت ہونی چاہئے۔ انہوں نے فرمایا۔ ’’ وہ جو سچا ہو، قناعت کی صفت رکھتا ہو، اور سب پردیاکرے جو لالچ و نفرت سے پاک ہو، جو کسی کو نقصان یا دکھ نہ پہنچائے، جو خواہش کے پھندے سے رہا ہو چکا ہو جس کو اپنے اوپر قابو ہو اور خیرو شر میں تمیز کر سکے، جو خدائے بزرگ و برتر کی رضا کے سامنے اپنا سر جھکادے اور اس کی خوشنودی کو اپنا معیار بنائے۔ ایسا ہی ہم آہنگ شخص اس حلقہ میں شریک ہونے کے قابل ہے۔ ‘‘
دیکھا آپ نے ؟ یہ تھا ان کا تصور انسانیت، جس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی سب شامل ہیں۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’میں نہ ہندو ہوں، نہ مسلمان۔ مذہب کا سچا پیرو وہی ہے جو خدا کے کلام پر ایمان لاتا ہے جو سارے مذہبوں کے بانی اور پیغام بر دنیامیں لائے ہیں۔ میرے لئے سب یکساں ہیں کیونکہ سب خدا کا پیغام ہیں۔ ‘‘

گرونانک کے شبد پڑھتا ہوں تو ان میں اسی سچی مذہبیت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اور محبت رحم، ہمدردی، خدمت اور زندگی کی سچی قدروں کا وہ پیغام ملتا ہے جس کے لئے آج دنیا بھوکی اور پیاسی ہے۔ یہ دنیا جس کے دل اور دماغ دونوں امن کی دولت سے محروم ہیں۔ جس کے ہاتھوں میں قوت ہے لیکن اس کا استعمال نہیں آتا۔ جس کی رفتار میں بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گئی ہے لیکن منزل مقصود آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ان کی تعلیم پکار پکار کر ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ زندگی کی اصلیت، وحدت اور ایکتا ہے، محبت اور پریم ہے آپس کی خونریزی اور چھین جھپٹ نہیں۔ آس کے ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں جو ہمیں اپنے بھائیوں کی دشمنی پر اکساتے ہیں۔ ماناکہ قدرت کے دانت اور پنجے خون سے رنگین ہیں۔ لیکن یہ جنگل کا قانون انسانی زندگی کا چراغ نہیں بن سکتا۔ انسان کو انسان بننے کے لئے بھٹی میں تپنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی سیرت کا سونا، جس میں بہت سا کھوٹ ملا ہے، کندن بن سکے۔ اس نے اپنے دل و دماغ کی کھڑکیوں کو کھولنا ہے اور ان میں سے ہنسا اور نفرت کو خارج کر کے محبت اور شرافت کو جگہ دینی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جس کو مختلف الفاظ اور انداز میں ابراہیم ؑ اور عیسی ؑ اور موسیٰ ؑ اور حضرت محمدؐ اور مہاتما بدھ اور گرونانک اور خدا کے بہت سے نیک اور پاک بندوں نے پیش کیا ہے۔

***
ماخوذ از کتاب: آندھی میں چراغ
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔ (سن اشاعت: 1982)

Educational Philosophy Of Guru Nanak.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں