پنچ تنتر کی کہانیاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-06

پنچ تنتر کی کہانیاں

panchatantra-stories

دنیا کے بہت سے نامور مصنف ایسے ہیں جنہوں نے صرف بچوں کے لیے لکھا ہے۔ ان کی کتابیں آٹھ سے اسی برس تک کے بچے آج بھی پڑھتے ہیں اور کل بھی پڑھتے رہیں گے۔ ان میں سے ایک ڈنمارک کے رہنے والے ہینز اینڈرسن [Hans Christian Andersen] تھے جو ناول نگار بننا چاہتے تھے، لیکن ان کا نام ان کی پریوں کی کہانیوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ اسی طرح رابرٹ لوئی اسٹیونسن [Robert Louis Stevenson] تھے۔ وہ انگریزی ادب کے بہت مشہور انشا پرداز تھے۔ لیکن ان کی سب سے مشہور کتابیں "خزانے کا جزیرہ" ، "بھگایا ہوا" اور "نئی الف لیلیٰ" بچوں کے لیے ہی تھی۔
"انکل ٹام کا کیبن" کی مصنفہ ہیرٹ الزبیتھ بیچرسٹیو [Harriet Beecher Stowe] نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن اکثر لوگ ان کو صرف اسی شاہکار کی وجہ سے جانتے ہیں۔
امریکہ کے مشہور مزاح نگار مارک ٹوین [Mark Twain] کی مشہور کتابیں ہیں:
Adventures of Tom Sawyer
Adventures of Huckleberry Finn
یہ دونوں بھی بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں، لیکن ان کتابوں کو آج تک لاکھوں بوڑھے بچے پڑھتے ہیں۔

ہر ملک میں پہلے پہل کہانی بچوں کے لیے شروع ہوئی۔ بڑوں نے تو بچوں کے حق پہ چھاپہ مار کے کہانی پر قبضہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے اس میں بڑے آدمیوں کے مذاق کی چاشنی بھر دی۔ دکھ درد، ہنسی مذاق، رومان، شادی بیاہ، چور قاتل جاسوس، مزدور سرمایہ دار ۔۔۔ اور نہ معلوم کیا کیا۔
لیکن اصلی کہانیاں تو پریوں، پھولوں، جنوں، آدم زادوں، جانوروں، سپاہیوں، راج کماروں، لونڈیوں، باندیوں، قلعوں، جنگلوں اور بیابانوں کی تھیں۔ پھر باغ تھے، فوارے تھے، ہرن تھے، خرگوش تھے۔ سانپ تھا، جادو تھا، طلسم تھا۔ انہوں نے ہی بچوں کے تخیل کو پروان چڑھایا۔ اور آج کے لاکھوں لکھنے والوں کو یہی کہانیاں سن سن کے لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ سو ان اسی سال کے بچوں نے ان آٹھ سال کے بوڑھوں کے لیے کہانیاں لکھیں۔

ایک ایسی ہی کتاب جو ہندوستان میں آج سے سینکڑوں سال پہلے لکھی گئی تھی اور جس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ساری زبانوں میں ہو چکا ہے اور جسے بوڑھے بچے آج تک مزے لے لے کے پڑھتے ہیں، اس کا نام ہے: پنچ تنتر !
موجودہ تہذیب کا تواریخ کو جب سے علم ہے اور آدمی نے جب سے دوست اور دشمن بنانے شروع کیے ہیں، تب سے یہ کتاب آدمیوں کو نیکی اور بدی میں تمیز کرنا سکھاتی چلی آئی ہے۔ جہاں تک وقت کا تعلق ہے، یہ کتاب آج سے قریباً پانچ ہزار سال پہلے لکھی گئی۔ اس کے بعد مختلف ملکوں نے ان کہانیوں کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کے بچوں کے لیے پیش کیا اور ان بچوں نے بڑوں کو آدابِ محفل سکھائے۔

شروع میں یہ کتاب سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس میں کل چوراسی (84) کہانیاں تھیں۔ لیکن کاٹ چھانٹ اور حاشیہ آرائی نے ان میں کمی بیشی کر دی۔ مختلف زبانوں میں اصل کے ساتھ ساتھ ترجمہ کرنے والوں نے کچھ اپنی طرف سے بھی بڑھا دیا اور کچھ حصوں کو اڑا دیا۔ پوربی زبانوں میں پہلی بار اس کا ترجمہ 1859ء میں مشہور جرمن سنسکرت اسکالر تھیوڈور بنفے [Theodor Benfey] نے کیا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ سٹینلے رائس [Stanley Rice] نے کیا۔ لیکن بعد میں ڈبیلو رائیڈر [Aurther W Rider] نے اس کا ترجمہ کیا جسے آج بھی انگریزی جاننے والے شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب کا ترجمہ عربی، فارسی، عبرانی اور دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ اردو زبان میں کوئی مستند ترجمہ میری نظر سے نہیں گزرا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب کسی کشمیری پنڈت نے تقریباً 2200 برس پہلے لکھی تھی ۔۔۔ اور اس کا کھڑی بولی میں ترجمہ 1199ء میں ہوا۔

پنچ تنتر سے مراد ہے پانچ کتابیں۔
اس کتاب کے پانچ حصے ہیں اور ہر حصہ میں کہانیوں سے کہانیاں نکلتی ہیں۔ گویا ایک جال ہے، جو مصنف بنتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پڑھنے والے کا دل اور دماغ پوری طرح اس میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ ان کہانیوں کے بیشتر کردار جانور ہیں، جو آدمیوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان میں حسد، نفرت، محبت، دوستی، لالچ، رشک، چالاکی، بدھوپن ، غرض آدمی کا ہر نفسیاتی پہلو موجود ہے۔ اور پھر اگر آپ ان کہانیوں کو غور سے پڑھیں تو شیر طاقت ور ہونے کے ساتھ ساتھ بھولا نظر آتا ہے، اور گیدڑ کمزور ہونے کی وجہ سے چالاک ہے۔ سو خدا نے جہاں ایک کمی پیدا کی وہاں اس خلا کو ایک خوبی سے ڈھانپ دیا ہے۔ کوا، ہرن، کچھوا، سانپ، چوہا وغیرہ اپنے نمایاں کرداروں کے ساتھ آدمیوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔

پنچ تنتر کی شروعات کسی مہاراجہ ہی سے ہوتی ہے جس کے تین لڑکے تھے: بھولو، بدھو اور بھوندو۔ راجہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ کچھ سیکھ جائیں۔ اس نے سیکڑوں جتن کیے، لاکھوں پاپڑ بیلے ، لیکن ڈھاک کے تین پات۔
پھر اسے ایک عقلمند گرو ویشنو پنڈت کا پتا لگا۔ اس کے پاس جا کے راجہ نے درخواست کی کہ بچوں کو سنبھال اور سنوار دے تو وہ اسے سو گاؤں کی جاگیر دے گا۔ وہ زمانہ آج جیسا نہیں تھا ، جہاں دو دن فیس نہ لاؤ تو مدرسے سے نام کٹ جاتا ہے۔ اس پنڈت نے راجہ کو منہ توڑ جواب دیا کہ وہ علم بیچتا نہیں، وہ تو یہ چاہتا ہے کہ دیش کے بچے لائق، ہونہار اور عقل مند بنیں۔
جب کسی استاد کا یہ اصول ہو تو اس کے شاگرد کیوں نہ عقل مند بنیں۔ آخر ٹیوشن کا کام تو ہے نہیں کہ بچے کو فیل کر دیا اور اس کے باپ سے سودا کر لیا۔
ویشنو پنڈت نے راج نیتی اور دنیا داری کی سب باتیں تینوں راج کماروں کو سکھائیں اور نتیجہ تو آپ کو پتا ہی ہے کہ آخر میں ان سب کو عقل مند بننا ہی تھا۔

عقل اور حکمت کے جو موتی اس کتاب سے حاصل ہوتے ہیں، ان کے باعث اسے سات سے لے کر نوے برس تک کے سب ہی بچے پڑھتے ہیں اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بچوں کے منہ سے بڑوں کو نصیحت دیتی ہے اور یہ انداز آج کے لکھنے والوں میں بھی ملتا ہے۔ یقین نہ ہو تو جناب کرشن چندر کا "الٹا درخت" یا "بچوں کی الف لیلیٰ" پڑھ کے دیکھ لیجیے۔ اور ویشنو پنڈت والا یہ اصول کہ جانوروں کے منہ سے انسانی باتیں نکلیں، کرشن چندر کے ناول "ایک گدھے کی سرگزشت" میں ملے گا۔ عصمت چغتائی صاحبہ کا "راج کمار" ہے جو کمہار سے کمار اور پھر اس کے برعکس بنتا ہے۔ انسانی قلابازی اور پھر نہایت ذلیل قسم کی سازشوں کا شکار بنتا ہے اور آخر میں فتح یاب ہوتا ہے۔
یہ سب چیزیں لکھی تو بچوں کے لیے ہی جاتی ہیں، لیکن پڑھتے بوڑھے بچے بھی ہیں۔
ایک بات اور سن لیجیے۔ بچوں کی کہانیاں لکھنے کے لیے ادیب کو عام حالات سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ بڑوں کے ماحول میں تو وہ رہتا ہے، کام کرتا ہے، سوچتا ہے، جو وہ محسوس کرتا ہے، لکھ دیتا ہے۔ لیکن بچوں کی کہانی لکھنے کے لیے اسے اسی معیار پر سوچنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو سکیڑ کے دس بارہ برس کا بنانا پڑتا ہے۔ اور پھر اس سطح پر کہانی لکھنی پڑتی ہے۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "کھلونا" نئی دہلی۔ شمارہ: مارچ-1965

Famous stories of Panchatantra.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں