عجائب خانۂ عشق - الیاس سیتاپوری کی تاریخی کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-05

عجائب خانۂ عشق - الیاس سیتاپوری کی تاریخی کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ajaib-khana-e-ishq-ilyas-sitapuri

الیاس سیتاپوری (پ: 30/اکتوبر 1934 لکھنؤ ، م: یکم/اکتوبر 2003 کراچی)
اردو میں تاریخی کہانیاں لکھنے والے اس مصنف کا ایک مجموعہ "کشمیر کی کلی" تعمیرنیوز پر پیش کیا جا چکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے باطن میں موجود نیکی، خوبصورتی اور سچائی کے بہت سے کرداروں کو جبر کے بیشمار خفیہ طریقوں سے دبایا گیا اور انہیں پراسرار گمنامیوں میں دھکیل دیا گیا۔ مگر الیاس سیتاپوری کے بےپناہ مطالعہ کی لگن نے تاریخ کے ضمیر کی پرکھ کی اور یوں ان کی کہانیوں میں ان تمام عناصر کی حقیقی اور سچی گونج سنائی دیتی ہے۔
اس بار الیاس سیتاپوری کی چھ (6) منتخب تاریخی کہانیوں کی کتاب "عجائب خانۂ عشق" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 15 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

معروف ادیب احمد ہمیش اس مجموعہ کے تمہیدی مضمون بعنوان "الیاس سیتاپوری اور خالص مشرقی فکشن" کے تحت لکھتے ہیں۔۔۔
الیاس سیتاپوری کے مقصد کا مآخذ ہے اسلام اور صرف اسلام ۔۔۔!
اور اسلام سے مراد وہ اسلام جو حضرت آدمؑ کے خمیر سے شروع ہو کر حضرت ابراہیمؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ کے سلسلہ سے آں حضرتؐ کی ذاتِ اقدس میں مل کر مکمل ہوا۔ آں حضرتؐ نے کعبہ میں رکھے ہوئے جن 360 بتوں کو توڑا تھا، وہ دراصل بادشاہوں اور مختلف قبیلوں کے سرداروں کے بااختیار خودساختہ مرتبہ کو ظاہر کرنے والے بت تھے۔ علامتی معنوں میں ان کی موجودگی کا لاشعوری طور پر سکہ بٹھانے کے لیے من گھڑت ضمیات اور دیومالاؤں کو رواج دیا گیا تاکہ لوگ قادرِ مطلق سے ہٹ کر جھوٹے دیوی دیوتاؤں کی صورت میں بادشاہوں اور سرداروں کو پوجیں۔
آں حضرتؐ نے بت شکنی کا اقدام اس لیے کیا کہ لوگ ازلی و ابدی سچ میں ایمان لائیں۔ بت شکنی کے منصب کا اعادہ مختلف پیرایوں اور مختلف ادوار میں ہوا۔ ابن عربی کی معرفت وحدتِ وجود اور ابن خلدون کے توسط سے حق گوئی کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کا اعادہ ہوا۔ یہی مسلک ان تمام صوفیا کرام کا رہا جنہوں نے اپنی تعلیمات میں قرب الٰہی کی وسعتوں کو عام کیا اور ہر دور میں مطلق العنان بادشاہوں سے اخلاقی سطح پر جنگ کی اور خلقِ خدا کو ان کے عتاب سے بچائے رکھنے کی کوشش کی۔ یہی اخلاقی جنگ عوام الناس کے مرکب محسوسات کے ساتھ مشرقی داستانوں میں منتقل ہوئی اور عام ہوئی۔
پریم چند تک پہنچ کر اس کی صورت عام ہندوستانی معاشرہ کی اونچ نیچ کے شعور میں ڈھل گئی۔ پریم چند ذات پات کے مخالف تھے۔ یاد رہے کہ ذات پات کی تقسیم بھی بت پرستی کی دین تھی اور مشرق میں اس کے خلاف جو اخلاقی جنگ لڑی گئی، اس میں اسلام کا دخل اس لیے زیادہ ہے کہ اسلام نے انسانی آزادی کے تصور کی توسیع میں، مساوی حقوق، اخوت، انصاف اور سزا و جزا کے معیارات متعین کیے۔ اس کے برعکس مغرب میں انسانی آزادی کا تصور روحانی نظام سے نجات کے معنی میں بیسویں صدی پر مسلط ہوا۔ اور جو کچھ روحانی نظام مغرب میں کبھی تھا وہ "اعترافات" کے ڈھونگ کے نتیجے میں ختم ہو گیا۔ البتہ "اعترافات" کے غلبہ سے جو فطرت مرتب ہوئی تھی وہ مغرب کے فکشن میں منتقل ہوئی۔
پریم چند کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے مغرب کے فکشن کی اعتراضات والی ذہنیت کو قبول نہیں کیا بلکہ اس "مشرقیت" پر اکتفا کیا جو عام ہندوستانی معاشرہ میں مرکب اعتقادات کی صورت میں موجود تھی۔ یہی "مشرقیت" خالص اسلامی معنوں میں پریم چند کے بعد الیاس سیتاپوری کے مزاج میں اس انداز سے داخل ہوئی ہے کہ اس نے مغربی اثرات قبول کیے بغیر براہ راست ابن خلدون کے مسلک کو اختیار کیا۔
تاریخ ابن خلدون حصہ اول کے پیش لفظ میں علامی عبدالقدوس ہاشمی لکھتے ہیں:
"چونکہ تاریخ ہی کے ذریعہ ہمیں 'سنۃ اللہ فی الارض' سے واقفیت ہوتی ہے اور یہ واقفیت ہمارے افکار و اعمال پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے خدائے بزرگ و برتر نے اپنی مقدس کتاب قرآن حکیم میں لوگوں کو تاریخی واقعات کی طرف بار بار متوجہ کیا ہے اور بار بار تاکید فرمائی کہ حق کی تکذیب کرنے والوں کا کیا حال ہوا اور حق کو قبول کرنے والوں کو کیسی کیسی سربلندیاں نصیب ہوئیں، ان کو سمجھو۔"

خود ابن خلدون نے اپنے بارے میں اپنی کتاب سے متعلق مقدمہ میں لکھا ہے۔۔۔
"میں نے تمام دنیا کے بکھیڑوں سے الگ ہو کر اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا سلسلہ شروع کیا اور جس نئے اسلوب سے میں نے اس مقدمے کو تکمیل تک پہنچایا ہے وہ اس گوشہِ نشین زندگی کی یادگار ہے۔"
اس بیان کے پیش نظر ظاہر ہے کہ جو بھی ابن خلدون کے مسلک کو اختیار کرے گا اس کے رویہ اور مزاج میں حق گوئی کی صلاحیتیں اور جراتیں بےپناہ ہوں گی۔
الیاس سیتاپوری نے جانے کب سے یہ مسلک اختیار کیا مگر جہاں تک میرے علم میں ہے کہ اس کی زندگی میں ذاتی نوعیت کے جتنے بھی حادثات پیش آئے ہیں وہ محض حق گوئی کی پاداش میں رہے ہیں۔

ایک مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ادب کے نقاد یا تو اکثر جاہل ہیں یا جو معقول سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ الیاس سیتاپوری کی کہانیوں کا ذکر ادبی تنقیدی تعصب کی بنا پر نہیں کرتے اور یہ تعصب صرف اس سبب سے ہے کہ الیاس کی کہانیاں ادبی لیبل لگانے والے رسائل میں شائع نہیں ہوتیں بلکہ کمرشیل سطح پر چھپنے والے ڈائجسٹ میں شائع ہوتی ہیں۔ حالانکہ الیاس خود اپنی کہانیاں کسی ادبی رسالہ میں اس لیے نہیں دیتا کہ معاوضہ نہیں ملتا۔ ظاہر ہے ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہے۔ یوں میں نے اس سے قطع نظر الیاس کی کہانیوں پر لکھنے کا فیصلہ خود کیا۔ الیاس نے مجھ سے خود پر کچھ لکھنے کے لیے نہیں کہا جیسا کہ یہاں بہت سے لکھنے والے ایک دوسرے سے فرمائش کر کے خود پر مضامین لکھواتے ہیں۔ میں نے الیاس کی کہانیوں پر اس لیے لکھنے کا فیصلہ کیا کہ یہ میری ادبی دیانت کا تقاضا پے۔ اگر متعصب نقاد الیاس سے غافل ہیں تو ہوا کریں، مجھے تو بس اتنا کہنا ہے کہ میں نے الیاس کے منصب کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود بھی حق گوئی سے کام لیا ہے۔

***
نام کتاب: عجائب خانۂ عشق
مصنف: الیاس سیتاپوری
تعداد صفحات: 241
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 15 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Ajaib Khana E Ishq by:Ilyas Sitapuri.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

عجائب خانۂ عشق - از: الیاس سیتاپوری :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1قصہ پانچویں درویش کا (از: ادریس صدیقی)7
2الیاس سیتاپوری اور خالص مشرقی فکشن (از: احمد ہمیش)10
3گھنگروؤں کا زخم20
4آگ کا کھیل58
5عجائب خانۂ عشق104
6چنگیز خاں کا مدفن146
7خوابِ خرگوش166
8لال کنور کا افسانہ206

Ajaib khana-e-Ishq, a collection of Urdu short stories from History by Ilyas Sitapuri, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں