زبان کو برتنے کا ہنر - رضا علی عابدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-10

زبان کو برتنے کا ہنر - رضا علی عابدی


درج ذیل مضمون بی-بی-سی اردو کے معروف براڈکاسٹر جناب رضا علی عابدی کی کتاب "اخبار کی راتیں" سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کے چند مضامین مصنف محترم کی اجازت سے تعمیر نیوز پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
مضمون-1 : زبان کو برتنے کا ہنر - رضا علی عابدی
مضمون-2 : ترجمے کے رموز - رضا علی عابدی
مضمون-3 : یہ مسائلِ تلفظ - رضا علی عابدی
مضمون-4 : زبان کا فن - رضا علی عابدی
کسی جگہ میں نے لکھا تھا :
"خاتون بولیں کہ مجھے یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ تم کتنے بھولے ہو اور یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ تم اتنے بھولے ہو؟"
اس فقرے کو صحیح لب و لہجے میں پڑھنا آسان نہیں۔ تحریر کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اس میں اپنے جذبات اور احساسات کو شامل کر سکتے ہیں، اپنا لہجہ شامل نہیں کر سکتے۔
میں نے کسی کو بڑے شگفتہ لہجے میں خط لکھا، انہیں لگا کہ میں نے شدید غصے کی کیفیت میں لکھا ہے۔ انہوں نے شکایت کی تو میں نے کہا: اسی خط کو ذرا مسکرا مسکرا کر پڑھیے اور پھر دیکھیے۔

انگریزی میں کہتے ہیں کہ پڑھت کا کمال Stresses اور Pauses میں ہے یعنی جہاں ضرورت ہو، وہاں لفظ کو زور دے کر ادا کیا جائے اور یہ کہ جملے کو صحیح جگہ توڑا جائے یا لمحہ بھر کا وقفہ با سکوت دیا جائے گا۔
وقفے یا سکوت کی خوبی غالب کے اس مصرعے میں دیکھی جا سکتی ہے جسے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی غلط، یعنی یوں پڑھتے ہیں:
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
لیکن صحیح جگہ وقفہ دیا جائے تو اصل میں یہ مصرعہ یوں ہے ؎
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت / کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

ایک اور مشہور مثال، یہ تاریخی فقرہ ہے:
روکو مت جانے دو
روکو کے بعد وقفہ دیا جائے تو کچھ اور معنی ہیں اور مت کے بعد سکتہ آئے تو مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔
Stress کی آسان مثال اس عام فقرے میں ہے۔ مثلاً آپ کہنا چاہتے ہیں کہ:
باقی لوگ پرسوں آئیں گے لیکن وہ کل آئے گا۔
اس میں آپ "کل" پر زور دیں گے اور اگر کہنا چاہتے ہیں کہ باقی لوگ نہیں آئیں گے البتہ وہ آئے گا تو آپ لفظ "وہ" پر زور دیں گے۔

اردو میں ایک بہت ہی دلچسپ مثال لفظ "اچھا" ہے۔ ایک بار ہم دوستوں کی محفل میں کسی نے یہ شغل چھیڑا کہ لفظ "اچھا" کو لہجہ بدل بدل کر ادا کرو۔ کم سے کم بارہ لہجے دریافت ہوئے۔ مثالیں دیکھیے :
اچھا = (ٹھیک ہے، سمجھ میں آ گیا)
اچھا = (واقعی؟)
اچھا = (یوں بھی ہے؟)
اچھا = (دیکھ لیں گے!)
اچھا = (اچھا بابا اچھا، تم جیتے ہم ہارے)

جملے میں وقفے اور سکوت کا دلچسپ قصہ یہ ہے جو میں نے پاکستان میں خبریں پڑھ کر سنانے والوں کی زبانی بارہا سنا ہے:
اقوام متحدہ کے سیکرٹری۔ جنرل بان کی مون
ہم لوگوں کو کتنی آسانی سے فوجی بنا دیتے ہیں۔

ریڈیو اور ٹیلی ویژن والوں کے لیے ادائیگی کا انداز بہت معنی رکھتا ہے۔ خبر میں پڑھنے والے پر لازم آتا ہے کہ جو خبر پڑھ کر سنائے اس میں اپنے جذبات اور احساسات شامل نہ کرے۔ اس غریب کا فرض ہے کہ غیر جانبدار رہنے کی خاطر مشین کی طرح پڑھتا چلا جائے۔ کسی کے انتقال کی خبر ہو یا ولادت کی، ایک آفاقی اصول یہ ہے کہ نیوز ریڈر اس میں نہ اپنا دکھ شامل کر سکتا ہے اور نہ خوشی۔ یہ رسمی یا Formal ادائیگی ہے۔ البتہ ریڈیو یا ٹی وی میں عام گفتگو جو غیر رسمی با Informal ہوتی ہے، اس میں جذبات شامل ہونا فطرت کا تقاضا ہے۔ ریڈیو میں چہرے کے اتار چڑھاؤ با مسکراہٹ نظر تو نہیں آتی لیکن لہجے میں صاف محسوس ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن میں نہ صرف یہ سب بلکہ ہاتھ پاؤں اور بدن کی حرکات و سکنات بھی نظر آتی ہیں جسے انگریزی میں Body language کہا جاتا ہے۔

ریڈیو پر اچھی ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے کہ بولتے یا تحریر پڑھتے ہوئے ہاتھ اس طرح چلائیے جیسے روز مرہ گفتگو کے دوران چلاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بار بار نگاہ اٹھا کر مائیکروفون کو بھی دیکھیے۔ اس سے ادائیگی میں فطری خوبیاں شامل ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ساتھی محمد غیور مرحوم کی عادت تھی کہ مائیکروفون پر خبریں یا تبصرہ پڑھتے ہوئے بار بار سامنے دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کو دیکھا کرتے تھے، مگر صرف دیکھا ہی کرتے تھے۔ انہیں وقت سے کوئی غرض نہیں تھی۔
مائیکروفون پر بولنا عام زندگی میں بولنے سے تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے۔ ہم صاف زبان بولنا چاہتے ہیں، ہر لفظ صاف صاف ادا کرنے کی عمداً کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ہماری بولنے کی فطری رفتار میں فرق نہ ائے۔

فطرت سے قریب رہنے میں بڑی دانائی ہے۔ تصنع اور بناوٹ براڈ کاسٹنگ میں سب سے بڑی لعنت ہے۔ ایک دور تھا جب ریڈیو پاکستان کے اناونسر اپنے گلے سے کھرچ کے ساتھ کراری آوازیں نکالا کرتے تھے۔ ایسا وہ پتا نہیں کیوں کرتے تھے۔ آج بھی ایک صاحب "کریمنل موسٹ وانٹیڈ" نامی پروگرام میں وہی آواز نکالتے ہیں (یادر ہے کوئی پروگرام کے عنوان سے دھوکا نہ کھائے۔ یہ پروگرام اردو میں ہے)
بناوٹ اور تصنع سامعین اور ناظرین سے چھپے نہیں رہتے۔ سمجھدار لوگ لمحہ بھر میں بھانپ لیتے ہیں کہ رو رو کر دعائیں مانگنے والے کی آنکھ میں آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں۔

یہاں براڈ کاسٹنگ کا ایک اصول دہرانا چاہتا ہوں۔ اپنے سامعین یا ناظرین کو کبھی ناسمجھ نہ سمجھیے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو کسی لفظ کا اصل تلفظ نہیں معلوم اور آپ منہ سے وہ لفظ یوں ادا کرتے ہیں کہ سننے والے کو احساس نہ ہونے پائے، تو یوں نہیں ہوتا۔ لوگ معاملے کی حقیقت کو جاننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں لگاتے۔
میں ایک بار پھر ریڈیو پاکستان کی آوازوں کی طرف لوٹتا ہوں۔ اس وقت بیشتر براڈ کاسٹر خصوصاً جو دکن سے آئے تھے، ایک عجیب کراری سی آواز نکالا کرتے تھے۔ اچانک ان کے درمیان ایس ایم سلیم کہیں سے نمودار ہوئے جن کی آواز نرم اور ملائم تھی۔ وہ دیکھتے دیکھتے سامعین کے ہیرو بن گئے اور انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ سامعین نے اپنے ذہن میں ایک گبرو جوان کی تصویر بنا لی۔ براڈ کاسٹر کو اور کیا چاہیے؟
اس موضوع کے آخر میں اس کا نچوڑ :
اصول یہ ہے کہ مائیکروفون پر اداکاری نہ کیجیے۔ صداکاری کیجیے۔ سپاٹ نہ پڑھیے۔ اس میں گفتگو کا انداز شامل کیجیے۔ ہاتھ چلائیے۔ آنکھیں چلائیے اور "نہیں" کہتے ہوئے اگر نفی میں گردن بھی ہلا دیں تو کیا اچھی بات ہے۔
یہ باتیں اصولاً کتاب "ریڈیو کے دن" میں شامل ہوتیں لیکن میڈیا کی بات ہے، سب پر صادق آتی ہے۔

نوٹ :
مضمون نگار، بی بی سی اردو (لندن) کے معروف براڈکاسٹر رہے ہیں۔
***
فیس بک : Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی

The language skills. Article: Raza Ali Abidi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں