ہندوستان کی عدالت عالیہ نے آج بروز ہفتہ 9/نومبر 2019 کی صبح ساڑھے دس بجے تقریباً ڈیڑھ سو سالہ قدیم مسجد/مندر اراضی ملکیت کے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت میں، آئینی بینچ کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ سنایا گیا۔ آئینی بنچ میں شامل دیگر چار جج، جسٹس ایس اے بوبڈے [SA Bobde] ، جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ [D Y Chandrachud] ، جسٹس اشوک بھوشن [Ashok Bhushan] اور ایس عبدالنظیر [S Abdul Nazeer] رہے ہیں۔
اس فیصلے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
- متنازع زمین (2.77 ایکڑ اراضی) رام للا وراجمان (شری رام جنم بھومی ٹرسٹ) کو سونپ دی گئی۔
- شیعہ وقف بورڈ کے مالکانہ دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے ایودھیا ہی میں کسی نمایاں مقام پر پانچ ایکڑ زمین اترپردیش مرکزی سنی وقف بورڈ کو مسجد کی دوبارہ تعمیر کے لیے فراہم کرنے کا حکم دیا۔
- سپریم کورٹ نے حکومت ہند کو ہدایت کی کہ وہ مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کرے اور تین مہینے کی مدت کے دوران مندر کی تعمیر کا ایکشن پلان متذکرہ ٹرسٹ واضح کرے۔
- نرموہی اکھاڑے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر مالکانہ حقوق نہیں دیے جا سکتے۔
- عدالت نے کہا ہے کہ ایک مدعی "نرموہی اکھاڑے" کو ٹرسٹ میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کرے گی۔
- آرکائیو ڈپارٹمنٹ کے شواہد کے مطابق بابری مسجد کے نیچے ایک ایسا ڈھانچہ ملا ہے جو اپنی ہئیت میں اسلامی نہیں ہے۔ چیف جسٹس گگوئی نے کہا کہ آثار قدیمہ کے شواہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
- چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 2.77 ایکر اراضی کی ملکیت کا فیصلہ عدالت نے عقائد پر نہیں بلکہ شواہد اور ثبوت پر دیا ہے۔
- عدالت نے کہا کہ مسلمان اس اراضی پر 1857 سے قبل کی اپنی ملکیت کو ثابت نہیں کر سکے، البتہ 1857 کے بعد سے انہوں نے مسجد میں سال 1949 میں اس وقت تک نمازیں ادا کیں تاوقتیکہ وہاں بت رکھ کر اراضی کو متنازع بنایا گیا۔
- عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ 1949 میں مسجد کے اندر بت رکھنا اور پھر 1992 میں مسجد کو ڈھا دینا حقیقتاً قانون کے خلاف حرکت تھی۔
- سپریم کورٹ نے مزید واضح کیا کہ مسجد کا 1992 میں انہدام سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی تھی۔
- سپریم کورٹ نے ستمبر 2010 میں دئیے گئے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے بموجب ہائیکورٹ نے متنازعہ اراضی کو تین فریقین، رام للا وراجمان، نرموہی اکھاڑا اور اترپردیش سنی وقف بورڈ میں تقسیم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
دریں اثنا وزیراعظم نریندر مودی نے اجودھیا میں شری رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ملک کے عوام سے امن ، ہم آہنگی اور یکجہتی برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے مندر نے دہائیوں پرانے معاملے کا خیر سگالی پر مبنی حل دیا ہے۔
اس فیصلے کو کسی کی شکست یا جیت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ رام بھکت ہوں یا رحیم بھکت، یہ وقت ہم سبھی کے لئے بھارتی بھکتی کے جذبے کو مضبوط کرنے کا ہے۔ ملک کے عوام سے میری اپیل ہے کہ امن، ہم آہنگی اور یکجہتی بنائے رکھیں۔ ہمارے ملک کے ہزاروں سال پرانے بھائی چارے کے جذبے کے مطابق ہم 130 کروڑ ہندوستانیوں کو امن اور صبر کا ثبوت دینا ہے۔ ہندوستان کے پرامن بقائے باہمی کی وراثت کے جذبے کا ثبوت دینا ہے۔
بابری مسجد کی اراضی کی حق ملکیت معاملے میں اہم فریق سنی وقف بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے اور فیصلہ پڑھنے کے بعد ہی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف نرموہی اکھاڑا نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ عدالت نے پچھلے ڈیڑھ سو سال سے جاری ان کی لڑائی کو تسلیم کیا ہے اور انہیں مندر کی تعمیر کے لئے مرکزی حکومت کے ذریعہ تشکیل دئے جانے والے ٹرسٹ میں نمائندگی دی ہے اور اس کے لئے وہ عدالت کے ممنون ہیں۔
کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجودھیا معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور اب اہل وطن کو اس کا احترام کرتے ہوئے باہمی خیرسگالی اور بھائی چارہ برقرار رکھتے ہوئے اپنی روایت کی پاسداری کرنی ہے۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے ایودھیا مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بابری مسجد منہدم کرنے کے قصورواروں کو سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
سی پی ایم پولٹ بیورو نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت نے ایک اہم منصفانہ فیصلہ دیا ہے لیکن اس کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن پر اعتراضات کئے جاسکتے ہیں۔ عدالت نے بابری مسجد کو گرائے جانے کو غیر قانونی بتایا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ واقعہ تھا اور سیکولر اصولوں پر حملہ تھا۔ مسجد کو گرائے جانے کے معاملے کو تیزی سے نمٹایا جانا چاہئے اور قصورواروں کو سزا دی جانی چاہئے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے حقائق کے بجائے عقیدے کی جیت بتایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ' کی طرح میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہندوستان کا مسلمان اپنے حق کی لڑائی لڑ رہا تھا، ہم تمام وکلاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے دل وجان سے محنت کی اور اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ سپریم کورٹ سپریم ضرور ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس سے غلطی نہ ہو۔ یہ بات جسٹس جے ایس ورما نے کہی تھی۔
اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ: جنہوں نے چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد گرائی تھی آج انہی کو سپریم کورٹ ہدایت دے رہا ہے کہ ٹرسٹ بنا کر مندر کا کام شروع کیجیے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ اگر مسجد نہیں گرائی گئی ہوتی تو کورٹ کیا فیصلہ دیتا؟
Ayodhya Verdict: SC's historic Ram Janmabhoomi-Babri Masjid land dispute judgment
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں