اردو تہذیب کی شناخت - جنوبی ہند کی علاقائی زبانوں میں منتقلی کی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-14

اردو تہذیب کی شناخت - جنوبی ہند کی علاقائی زبانوں میں منتقلی کی ضرورت

muslim-marriage-orientation-program-chennai

"مسلم شادیوں کے مسائل اور کونسلنگ" کے موضوع پر چنئی میں 12/اکتوبر 2019 کو دو روزہ سمینار منعقد ہوا۔ اس میں حیدرآباد کے معروف سماجی جہدکار ڈاکٹر علیم خان فلکی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس دورہ سے متعلق زبان و تہذیب کے مشاہدات پر ان کے تاثرات یہاں پیش ہیں۔
ہمارا تلگو مرہٹی وغیرہ کو حقارت سے دیکھنا بہت مہنگا پڑ گیا۔

ابھی چِنّائی سے دو روزہ کونسلنگ ورکشاپ سے لوٹا ہوں، وہاں چنّائی کے کئی سرکردہ نفسیاتی ڈاکٹر، وکیل، علما اور دیگر عمائدینِ شہر موجود تھے۔ سوائے میرے، تمام اسپیکرز نے ٹامل میں خطاب کیا جن میں دو ہندو ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ میں نے آغاز میں جب پوچھا کہ میں چونکہ ٹامل نہیں جانتا اسلئے آپ مجھ سے اردو میں سننا چاہیں گے یا انگلش میں؟ تمام نے کہا کہ انگلش میں۔ کیرالا میں بھی یہی حال ہے عام لوگ تو درکنار علما کی بھی اکثریت صرف ملیالی زبان بولتی ہے۔

اس سے ایک ہفتہ قبل نندیال میں پاپولر فرنٹ کی جانب سے منعقدہ پانچ روزہ ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تھا، جس میں آندھرا اور تلنگانہ کے افراد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اردو اگرچہ کہ لوگ سمجھتے ہیں لیکن تلگو کو اپنی مادری زبان سے کہیں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ کئی علاقوں میں تلگو مترجم کے حصول کی بھی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔

حیدرآباد کے رہنے والے ہماری طرح چونکہ ہمیشہ سے ایک احساسِ برتری کا شکار رہے ، تلگو جو دھیڑوں کی زبان تصوّر کی جاتی تھی اسے ہمیشہ حقارت سے دیکھا۔ ہمارے بچپن میں، مجھے یاد ہے کہ مدرسے میں اگر تلگو میں بات کرتے تو استاد دوبارہ وضو کر کے آنے کیلئے کہتے تھے، اگرچہ کہ وہ مذاق ہی سے کہتے تھے ہوں گے لیکن تلگو کے کمتر ہونے کا احساس دلانے کیلئے یہ کافی تھا، نتیجہ؟

نتیجہ یہ ہے کہ ٹامل، ملیالی اور دوسری علاقائی زبانوں کو اپنا لیا اور ان علاقوں کے مسلمان قومی دھارا میں شامل ہو گئے اور رفتہ رفتہ اپنے دینی لٹریچر اور مدارس کو بھی مکمل اسی زبان میں منتقل کر لیا۔ لیکن ریاستِ حیدرآباد جو اردو تہذیب کا مرکز تھی جس میں کئی مرہٹہ ، آندھرا اور کرناٹک کے علاقے شامل تھے، اس معاملے میں ایک طرح سے بدقسمت رہی۔ یہاں کے باشندے اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ ہمیں کبھی اردو کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنا نہیں پڑے گا۔
نرسمہا راؤ اور نیلم سنجیواریڈی جیسے بڑے لیڈر خود اردو میڈیم کی پیداوار تھے، انہی جیسی کئی اہم بڑی شخصیات کو دیکھ کر شائد ہم پر خوش فہمی تو طاری ہوئی ہی، اس کے علاوہ بھی قوم کے وہ لیڈر جن پر ہم لوگ مکمل تکیہ کرتے رہے ، ان کی قیادت میں ہمارا ذہن ہمیشہ یہی بنا رہا کہ آج بھی ہم نوابی اسٹیٹ میں رہتے ہیں جس میں ہماری زبان ہمیشہ باقی رہے گی۔

وقت کے بدلتے تقاضوں کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں گاؤں گاؤں ضلع ضلع کے مسلمان تلگو میں ضم ہو گئے اور ان کی مکمل تہذیب میں ڈھل گئے۔ دین اور کلچر کو تلگو یا مرہٹی میں منتقل کرنے کیلئے جس تعلیم یافتہ دانشور طبقے کے ضرورت تھی وہ تو اردو یا پھر انگریزی میں پھنسا رہا، نہ خود تلگو یا مرہٹی سیکھ سکا اور نہ اپنے بچوں کو تلگو سیکھنے پر مائل کر سکا۔
پہلا نتیجہ تو یہ نکلا کہ جن اسکولوں میں لاکھوں خرچ کر کے ہم نے اپنے بچوں کو تلگو سے دور رکھا انہی اسکولوں نے انگریزی تعلیم کا لالچ دے کر ہمارے بچوں کو اردو سے بھی دور کر دیا۔ گویا ہم نے تعلیم پر اتنا پیسہ تلگو سے بچانے کیلئے نہیں بلکہ اردو کو نئی نسل سے دور کرنے کیلئے خرچ کرتے رہے۔ اگرچہ کہ اردو دوسری سرکاری زبان ہے، قانون کے مطابق اگر کسی اسکول میں پانچ بچے بھی اپنی مادری زبان کو سیکھنے کے خواہش مند ہوں تو اسکول انتظامیہ پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اردو ٹیچر کا انتخاب کریں۔ لیکن نہ ہمارے لیڈروں نے اور نہ ہمارے سماجی قائدین نےلاکھوں رقومات وصول کرنے والے ان انگلش میڈیم اسکولوں میں جا کر اردو مضمون کو رائج کرنے کا مشورہ دیا۔ اسلئے خود ان کے بچے بھی آج بجائے شرمندہ ہونے کے، فخر سے کہتے ہیں کہ ہمیں اردو نہیں آتی۔

ٹامل اور ملیالی مسلمان تو علاقائی زبان کو اپنا کر ہر شعبہ زندگی میں آگے ہیں، لیکن تلگو اور مرہٹی سے بیر رکھ کر آج ہم کہاں کھڑے ہیں اندازہ لگا لیجئے۔ جس زبان کو ہم نے دھیڑوں کی زبان کہہ کر دھتکارا تھا آج وہی دھیڑ ہر بینک، ہر کالج، ہر سرکاری دفتر اور ہر تجارتی ادارے پر قابض ہیں، ان کی زبان نہ بولنے والوں کے ساتھ آج وہی حیثیت ہے جو کل اردو کی حکومت میں ان کی ہوا کرتی تھی۔

آج وقت کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ حیدرآبادی یا مرہٹواڑے کے نوابی علاقوں کے لوگ جن کی ذہانت، شرافت اور تہذیب اگرچہ کہ عظیم تھی لیکن اب یہ احساس کریں کہ وہ عظمت باقی نہیں رہی، اس کے بارے میں بات کرنا گڑھے ہوئے مُردوں کو کھودنا ہے، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خود اردو کا یہ حال ہے کہ آج جو بھی مشاعرے، ادبی محافل، یونیورسٹیوں میں ایم اے، ایم فِل یا پی ایچ ڈی باقی ہیں بس چند سال کے مہمان ہیں۔ نہ سامعین ہوں گے نہ طالبِ علم۔

اردو کو زندہ رکھنے کی کوششیں لازمی ہیں، ہمارا پورا تہذیبی، تاریخی اور دینی سرمایہ اردو میں ہے، لیکن دوسری طرف ہمیں اس سرمائے کو جلد سے جلد تلگو مرہٹی وغیرہ میں منتقل کرنے کی جستجو کرنا لازمی ہے۔ ورنہ خاص طور پر ان دو علاقوں کے لوگ دین اور مسلم تہذیب سے بہت تیزی سے دور ہو رہے ہیں، احساسِ کمتری کی وجہ سے غیر تہذیب میں بہت تیزی سے ضم ہوتے جا رہے ہیں۔

اگر ہر شخص یہ عہدکر لے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں کم سے کم صرف ایک کتاب کو تلگو، مرہٹی، کنّڑ یا کسی بھی دوسری زبان میں منتقل کر دے گا تو آئئدہ پانچ تا دس سال میں ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ہمارا لٹریچر اسے میسر رہے گا ورنہ ہم لوگ اپنی نسلوں کو دوسری زبانوں اور تہذیبوں میں ضم کرنے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس کام میں ہر شخص کیلئے پندرہ تا بیس ہزار سے زیادہ کا خرچ نہیں۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

The need to transfer Urdu language and culture in regional languages, by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں