سپاس نامہ - مزاحیہ مضمون از وحید اشرف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-05

سپاس نامہ - مزاحیہ مضمون از وحید اشرف

sapaas-nama-waheed-ashraf

آج پرانے شہر میں صبح سے ہی گَہما گَہمی تھی۔دکنی زبان میں گَہما گہمی کو گھمّا گھمّی بھی کہتے ہیںیہ اور بات ہے کہ گھماگھمی دو افراد کے درمیان تو ، تو ،میں ،میں اور دست سے گریبان کے چاک کردینے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔لیکن اس وقت پرانے شہر میں گہما گہمی کی وجہہ خوشگوار تھی۔آج یہاں چیف منسٹر صاحب پرانے شہر کے پرانے شہریوں کو سپاس نامہ پیش کرنے آ رہے تھے۔
جہاں نیا شہر ختم ہو کر پرانے شہر کی سرحد شروع ہوتی ہے وہاں ان وزرا کے استقبال کے جداگانہ انداز تھے۔ نئے اور پرانے میں کچھ نہ کچھ فرق تو ضروری ہے ورنہ نئے اور پرانے کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔نئے پل کے اس طرف جہاں سے نیا شہرشروع ہوتا ہے ، کچھ دور تک سڑکوں کو قومی ترنگوں اور چھوٹے چھوٹے برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔برقی کھمبوں پر اندرا گاندھی ، سونیا گاندھی ،راجیو گاندھی، پرینکا گاندھی ، راہول گاندھی کے ساتھ صرف چیف منسٹر کے قد آدم کٹ آؤٹ آویزاں تھے۔ (ان کٹ آؤٹس میں نہیں تھے تو بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی) جب کہ پرانے شہر میں سڑکوں کے دونوں جانب اتنی زیادہ تعدادمیں چاند تارے والے ہرے رنگ کے پرچم لہرارہے تھے کہ یہاں قومی ترنگے کو لہرانے کی جگہ ہی نہیں بچی تھی۔سڑکوں کے بیچوں بیچ تھوڑے تھوڑے فاصلے پرچیف منسٹر اور دو وزرا ، (ایک اقلیتی بہبود اور دوسرے مسلم اوقاف )کے قد آدم کٹ آؤٹس ایستادہ تھے۔چیف منسٹر صاحب اپنے کاندھے پر غترہ (وہ چھوٹے لال چکس والاچوکور کپڑا جسے اہلِ عرب اپنے سر پر رکھ کر اس پرعقال یعنی کالے دھاگے کی بٹی ہوئی رسی ، رکھے ہیں)اورسر پر جالی دار دھاگے کی ٹوپی کے ساتھ کرتا پائیجامہ زیب تن کئے خالص حیدرآبادی انداز میں سلام کرتے ہوئے ،نظر آنے کے باوجود جامے سے باہر ہی لگتے تھے۔جب کہ دونوں وزراجودھ پوری لباس میں ملبوس اس طرح ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے نظر آرہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ،آج تو ہم ہاتھ جوڑ رہے ہیں اگر کل آپ نے ہاتھ کو ہاتھ دیا تو اقتدار پر آنے کے بعد یہی ہاتھ آپ کے ہاتھ بھی توڑ سکتے ہیں۔۔
اس سرحد کو جو دو شہروں کے درمیان واحد ' نو لینڈ فار مین۔No land for men ' یعنی "کسی آدمی کے لیے جگہ نہیں " کا درجہ رکھتی ہے ، یعنی نیاپل واحد ایسی جگہ ہے جہاں اب تک تو کسی کا قبضہ نہیں ہے ورنہ سارے شہر میں سڑکیں اور فٹ پاتھ مختلف قسم کے کاروباری افراد کے قبضہ میں ہیں۔ نیاپل تا چارمینار اور چار مینار تا شاہ علی بنڈہ تک سڑک ایک باریک پگڈنڈی کی شکل اختیار کر گئی ہے یہ باریک راستہ بھی اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ اس راستے سے گزرنے والوں کو جبراً خریدار بنا سکیں۔ان راستوں پر اکثر گھما گھمّی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جوں ہی نئے پل کی اس طرف پولیس سائرن بجنے لگے اسی وقت پرانے شہر میں پولیس کی سیٹیاں بجنے لگیں۔سائرن کے بجنے سے نئے شہر مےں کھلبلی ، سیٹاں بجنے پر پرانے شہر میں افراتفری مچ گئی۔کچھ ہی لمحوں میں نئے پل کے اس طرف لمبی لمبی کاروں کا قافلہ آ پہنچا ان کاروں سے چیف منسٹر اور دو اقلیتی وزرانے اتر کرپیدل ہی نئے پل کو عبور کیا۔اس مختصر پیدل یاترا کے آدھے حصّہ کو سدھ بھاؤنا پد یاترا ،اور باقی آدھے حصّہ کو پیدل سفر بنام قومی یکجہتی کہا گیا۔ جیسے ہی یہ مختصر قافلہ پرانے شہر کی سرحد میں داخل ہوا بنیان اور تہبند میں ملبوس دف نوازوں نے دف پیٹنا شروع کردیا۔ یہاں تین اونٹوں کو ان وزرا کی سواری کے لیے سجایا گیا تھا۔( بعد از ازاں اس اکلِ حلال کو حلال کردیا گیا اور بڑی عقیدت کے ساتھ ان کا گوشت نوچ نوچ کرنوش کیا گیا) جیسے جیسے یہ سرکاری قافلہ آگے بڑھتا گیا اسی تناسب سے عوام کے جذبات گہرے ہوتے گئے۔تکڑیوں اور گروپوں میں لوگ الگ الگ تحسین آمیز نعرے بلند کرنے لگے۔

ایک سمت سے ایک گروپ کے قائد نے نعرہ لگایا "ہاتھ کو۔۔۔" تو اسی وقت دوسری طرف سے ایک تکڑی کے لیڈر نے صدا لگائی"توڑ دو ،توڑ دو"تب پہلے والے نعرے کا اس گروپ نے جواب دیا"ووٹ دو ، ووٹ دو"مشرق سے صدا بلند ہوئی"نفرت کی دیوار کو۔۔۔"ٹھیک اسی وقت مغربی کنارے سے آواز آئی" مضبوط کرو ،مضبوط کرو"مشرق کی صدا کا جواب دینے والوں نے اپنے ساتھی کے نعرے کو یوں مکمل کیا" گرادو ، گرادو"۔مضبوط کرو، مضبوط کرو ، کے جواب میں مشرقی ٹولے نے پکارا " ٹوٹتے رشتوں کو"۔کسی نے اپنے دوست سے سرگوشی میں کہا ' کیا میاںہمارے نعروںمیں بھی اتحاد عنقا ہے'۔جیسے ہی اعلان کیا گیا کہ چیف منسٹر صاحب پرانے شہر کے پرانے شہریوں کو سپاس نامہ پیش کر نے والے ہیں تو پھر اےک بار نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ چیف منسٹر صاحب نے ڈائس پر آتے ہی خطاب شروع کر دیا۔ان کا چہرہ پسینہ سے بھیگ چکا تھا۔وہ بے چین اور گھبرائے گھبرائے سے لگتے تھے۔انہوں نے کہنا شروع کیا:
" کھوا تین و حجرات! میں یہ جان کر بہت کھوش ہوں کہ آپ نے مجھے عجّت بکشی۔آپ سب بھی مجھے یہاں ،آپ کے شہر میں دیکھ کر بہت کھوش لگ رہے ہیں۔آپ بھی کوش ہم بھی کھوش اور کھدا بھی کھوش۔اسی موکھے(موقعہ) پر مجھے ایکبال صاحب کا شعر یاد آتا ہے۔
کھودی کو کر بلند اتنا کہ کھدا
بندے سے کھود پوچھے بتا تیری رجا کیا ہے
مجھے یہ دیکھ کر بہت کھوشی ہو رہی ہے کہ آپ لوگ اپنے آپ کو اب بلند کر چکے ہیں۔ یہاں چاروں طرف چھتوں پر، جھاڑوں پر ، بالکونیوں میں ، سیڑھیوں پر ،اونچے اونچے چبوتروں پر چڑھ کر مجھے دیکھ رہے ہیں۔میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کی رجا کیا ہے۔وہ پوری کروں گا۔"

چاروں طرف سے ویسے ہی تحسین آمیز نعروں سے، اس اعلان کا خیر مقدم اور اپنی خوشی کا اظہارکیا گیا۔
الکٹریسٹی ، پانی ، روڈ اینڈ بلڈنگ اور بلدیہ کے موریوں اور ڈرینیج کے ڈپارٹمنٹ کے تحت آپ سے ہماری حکومت کو ہزاروں کروڑ کا فائدہ ہوا ہے الکٹریسٹی سے آپ کے شہر میں مسلسل بلا اطلاع و، وکفہ بریک ڈاؤن سے تین ہزار کروڑروپے کی بجلی کی بچت کر کے گاؤں گاؤں بجلی دی گئی۔پانی کی دو کبھی کبھی چار روز بعد سپلائی سے پانچ سو کروڑ ہم نے بچائے۔ مسلسل پانچ سالو ں سے سڑکوں کی تعمیر نہ ہونے سے چار ہزار کروڑ روپیہ آپ کی وجہ سے بچ پایا۔اسی طرح ڈرینیج ، موریوں اور برساتی نالوں کے نہ بنائے جانے پر ایک ہزار کروڑ روپیہ حکومت کے بچ گئے۔ ٹرافک پولیس کی عدم تعیناتی سے بھی بڑا فائد ہ ہوا لیکن یہ بچت لا اینڈ آرڈر کے محکمہ میں چلی گئی اگر آپ لوگ صابر نہ ہوتے ، اگر آپ لوگ امن پسند نہ ہوتے ، اگر آپ دہشت گرد ،آتنک وادی ہوتے تو ضروراپنی آواج اتنی اٹھاتے کہ دلّی میں سنائی دیتی۔ان کی تقریر جاری تھی کہ کسی نے ان کے کان میں کچھ کہا۔اچانک ان کا موضوع بدل گیا اورعراق اور فلسطین میں ہو رہے ظلم و ستم ،معصوموں کے قتل عام اور انسانوں کی نسل کشی پر بولنا شروع کردیا۔وہ اچھا بول رہے تھے یا نہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل تھالیکن جیسے ہی عراق اور فلسطین کا نام لیا جاتا چاروں طرف سے جذباتی نعرے سنائی دیتے۔ جب انہوں نے اپنی پارٹی کے ابھیان کااعلان کیا کہ :
'آئندہ ہفتے سے پورے پرانے شہر کے چوراہوں پر، گلیوں کی نکڑوں پر اور میدانوں میں ایک ہفتہ تک مسٹر بش کے پوسٹر لگائے جائیں گے اوران پوسٹروں پر دس نمبر کے جوتوں کی بارش کی جائے گی'
تو اچانک کہیں سے کسی نوجوان نے جوش میں آکر نعرۂ تکبیر بلند کر دیا پھر کیا تھا۔ساری فضا رقت آمیزی سے معمور ہوگئی۔
لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب چیف منسٹر صاحب ان نعروں کی گونج سے گھبرا کر اسٹیج سے غائب ہوگئے۔دھیرے دھیر ے نعروں کی شدت میں کمی ہوگئی اور تب لوگوں نے دیکھا کہ اس وقت اسٹیج سے اقلیتی وزیر لوگوں کو مخاطب کر رہے تھے۔انہوں نے اعلان کیا کہ وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عالمِ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان ہی اصل میں قومی یکجہتی کے عَلم بردار ہیں میں نے یہاں ایک ایسی موٹر بائیک دیکھی ہے جس کے بھینس کے سر کی طرح ہیڈ لائیٹ پر قومی یکجہتی کا درس دیکھا ہے۔ہیڈ لائیٹ کے درمیان اللہ لکھا ہے اور اِس کے اوپرامن کا پیغامبر کبوتر سیدھی طرف اوم،دائیں طرف کراس اور اسی طرح نیچے سکھوں کا مقدس نشان پینٹ کیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اس موٹر بائیک کا مالک یہاں اسٹیج پر آئے اور مجھ سے بیس ہزارروپیہ انعام لے جائے۔ کچھ ہی دیر میں ایک ماڈرن نوجوان ،جو سامنے سے اپنے ہیر اسٹائیل سے شاہ رخان ،سیدھی طرف سے سلمان خان دائیں طرف سے عامر خان اور پیچھے سے جاوید جعفری لگتا تھا،اچھل کر اسٹیج پر چڑھ گیا۔ مجمع نے پر زور تالیوں میں اس کو خوش آمدید کہا وزیر موصوف نے اس نوجوان سے اپنے اس انوکھے نمونہ ¿ قومی یکجہتی پر کچھ کہنے کے لیے کہا۔اس نوجوان نے پہلے اعلان کردہ رقم کا مطالبہ کیاجوفوراً ادا کردی گئی تب اس نوجوان نے کہا :
" میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے اس اقدام سے کبھی مجھے اتنی بڑی رقم بھی ملے گی۔میرا اس طرح سے قومی یک جہتی کاپرچا ر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔بات دراصل یہ ہے کہ اکثر میںاپنی بائیک پچھلے پہیّہ پر ہی چلاتا ہوں ،اور رانگ سائیڈ شارٹ کٹ اس لیے مارتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر دیو ہیکل بسوں کی وجہہ سے ہر وقت ٹرافک جام رہتی ہے۔یہی وجہہ ہے کہ اکثر لوگ میری بائیک کے سامنے آتے رہتے ہیں ،اور بری طرح زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے سامنے کے دو دانتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔جب بھی کوئی شریف النفس اور پارسائی میں کتنا بھی یکتا کیوں ہونہ بے ساختہ اس کے منہ سے میرے لیے آخری گالی نکل ہی جاتی ہے۔یہی سوچ کر میں نے اپنی ہیڈ لائیٹ پر تمام مذاہب کے نشان لگادئیے کہ جس کسی کوبھی ضرب لگے اس کو اس کا خدا یاد آجائے۔اس طرح سے میں گالی سننے سے بچ جاؤں اور مار کھانے والااپنے حساب سے اپنے خدا کو یاد کرتا ہوا اسی کے پاس پہنچ جائے۔"

کچھ ہی دیر پہلے جو عراق اور فلسطین کے حالات پر آہ و بکاہ کر رہے تھے وہ سب کچھ بھول کر قہقہہ لگانے لگے۔اسٹیج سے تمام وزرا اور VIPs کب غائب ہو گئے پتہ ہی نہیں چلا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ اربع اشکال ہیرو بھی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔کسی نے اپنے دوست سے سرگوشی میں کہا:
'میاں یہ سب سیاسی حربے ہیں'

بشکریہ: ماہنامہ "شگوفہ" ، اپریل-2009

Sapaas Nama, humorous Essay by: Waheed Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں