سچ تو مگر کہنے دو - دل دردمند کی صداقتوں کا آئینہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-10

سچ تو مگر کہنے دو - دل دردمند کی صداقتوں کا آئینہ

sach-to-magar-kahne-do

"سچ تو مگر کہنے دو" کے زیر عنوان ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے تقریباً 900 مضامین (بطور اداریہ) تحریر کئے، جو ہفت روزہ "گواہ" کے علاوہ ہند و پاک کے متعدد اخبارات میں شائع ہوئے۔ ان میں سے 125 منتخبہ مضامین کو کتابی شکل میں 2017ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کتاب کو اترپردیش اردو اکیڈیمی نے دس ہزار روپے کے انعام سے نوازا ہے۔
روزنامہ سالار (بنگلور) میں اسی کتاب پر ایک موقر تبصرہ تحریر کیا گیا ہے، جو متذکرہ اخبار کے شکریے کے ساتھ یہاں بھی پیش ہے۔

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کی ادارت میں حیدرآباد سے "گواہ ویکلی" مستقل طور پر تقریباً بیس سال سے شائع ہوتا رہا ہے۔ فاضل پرویز ملک کے مستعد اردو صحافیوں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے اقدار پر مبنی صحافت کو فروغ دینے کی مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ آپ نے اردو صحافت کی تاریخی وراثت کی تقلید کو روبہ عمل لاتے ہوئے اپنے اخبار کے ذریعے معاشرے میں مذہبی ، سماجی اور تعلیمی آگہی عام کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے اجتماعی اور انفرادی مسائل پر آپ نے کھل کر لکھا ہے۔ اپنی تحریروں میں وہ اپنے قارئین کو دعوت احتساب دیتے ہیں۔
اپنے ہفت روزہ اخبار "گواہ" میں تقریباً گیارہ سال سے وہ اپنے احساسات ،خیالات اور مشاہدات و تجربات کو اداریہ "سچ تو مگر کہنے دو" عنوان کے تحت سپرد قلم کرتے آئے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں ساڑھے چار سو کے قریب ان کے اداریے نہ صرف ان کے اخبار میں بلکہ ملک کے دیگر اردو اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی کامیاب رفتار ترقی کے باعث "گواہ" کا آن لائن ایڈیشن بھی پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ اس طرح فاضل حسین پرویز اپنی فکرمند اور تجزیاتی تحریروں کے حوالے سے اردو پڑھنے والوں میں اعتبار کا استعارہ بن گئے ہیں۔
آپ کے منتخب 125 ادارتی مضامین سال 2016ء میں کتابی شکل "سچ تو مگر کہنے دو" میں منظر عام پر آئے ہیں۔ 486 صفحات پر مشتمل اپنے ادارتی مضامین کے مجموعے کا انتساب آپ نے یوں لکھا ہے:
"حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے نام جنہوں نے حق و صداقت کا پرچم سربلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ اذبیتیں برداشت کیں مگر ان کے پایۂ استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ حق کا پرچم ہمیشہ بلند ہو کر رہا۔ سچ کی ہمیشہ فتح ہوئی کیونکہ سچ بولنے والوں کو اللہ رب العزت کی مدد حاصل ہوتی ہے۔"

یہ انتساب ہی دراصل فاضل پرویز کے صحافتی زاویہ نگاہ اور حق و صداقت کی پاسداری پر ان کے یقین محکم کا پتہ دیتا ہے۔ ویسے اس دور میں اکثر صحافی اور اخبارات مفاد پرستی کی وبا میں مبتلا ہیں۔ خوشامد، چاپلوسی اور مالی فائدہ کے لئے صحافتی قدروں کا سودا کیا جاتا ہے۔ منفعت پسندی نے عام طور پر اخبار نویسی کو یرغمال بنا رکھا ہے، جہاں صداقت پر مبنی خبریں اور قارئین کو سماج کا آئینہ دکھانے اور سیاسی مفاد پرستی ، فرقہ پرستی کے ماحول میں ان کے شعور کی بیداری کے لئے اخبار چلانا اب گزرے زمانے کی باتیں رہ گئی ہیں۔ فاضل پرویز نے ہر ہفتہ اپنی ادارتی تحریروں میں استحصال اور اخلاقی پستی اور سیاسی بالادستی کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ سلامتی کہاں مضمر ہے اور تباہی کا راستہ کونسا ہے؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے "اردو میڈیا کل آج کل" کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے، جس کی تلخیص کتابی شکل میں بھی 2015ء میں آئی ہے اور اب تک اس کے دو ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ عنقریب تیسرا ایڈیشن بھی شائع ہو رہا ہے۔ پیشۂ صحافت سے اپنی دلی وابستگی اور عقیدت کے باعث فاضل پرویز نے خصوصی طور پر مسلمانوں میں مذہبی، معاشرتی اور سماجی بیداری کی جانب اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ زیر نظر مجموعے کے حرف آغاز "سچ بہت مشکل ہے" میں ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد یوں رقمطراز ہیں:
"ہفتہ وار گواہ کے ادارتی صفحات پر شائع ہونے والے متفرق مضامین کا یہ مجموعہ 'صحیفہ پرویز' ہے۔ ایک صحیفہ نگار کے علاوہ وہ کبھی کبھی مصلح قوم کی طرح اپنے قلم کے ذریعہ سماج و معاشرہ میں بالخصوص مسلمانوں کی بیدارئ شعور کا فرض بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ایک سماجی جہدکار کی طرح زندگی کے کم و بیش تمام شعبوں کو اپنے اداریوں کا موضوع بناتے ہوئے اپنی قومی و سماجی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے والے علمبردار نظر آتے ہیں"۔

کتاب میں شامل تمام مضامین میں نے کئی بار پڑھے ہیں۔ ان مضامین کی منفرد حیثیت ان معنوں میں بھی میں نے محسوس کی ہے کہ فاضل پرویز نے روز مرہ کے واقعات اور حالات کی تصویر اپنی زندگی سے جوڑ کر پیش کی ہے۔ وہ ایک ذمہ دار بیٹا، بھائی ، شوہر اور مشفق و مہربان باپ کے طور پر اپنے گھر، خاندان، محلہ اور شہر میں رونما ہونے والے واقعات کو اپنے مشاہدے کی نظر سے دیکھ کر اپنے قارئین کو یہ سمجھانے کی پرخلوص کوشش کی ہے کہ صالح قدریں رحمت کا باعث ہوتی ہیں اور تنگ نظری تنگ دامنی زحمتوں سے روبرو کرتی ہیں۔
ادارتی مضامین کے اس مجموعہ میں شامل تمام تحریریں ایک باشعور اور ذمہ دار صحافی کے دل دردمند کی صداقتوں کا آئینہ لگتی ہیں۔ یہ اس لیے بھی میں لکھ رہا ہوں کہ مجھے فاضل پرویز اپنی تحریروں میں بےلوث، تصنع سے پاک اور ملک و ملت کے تئیں خوشحالی اور بھلائی کے متمنی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں روز بروز واقع ہونے والے داخلی معاملات کو اخلاق و سعادت مندی کی قدروں سے سلجھانے کی کوششیں کی ہیں۔ اور اپنے ان ذاتی تجربات کو اپنے اردگرد کے ماحول سے ہم آہنگ کر کے دیکھا ہے اور اپنے تاثرات اور کیفیات پر قرآنی آیات، احادیث نبوی کی روشنی میں مدلل تبصرہ کرنے میں بھی وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
سچ کی اشاعت پر کاربند و پابند عمل رہنے والے فاضل پرویز نے اس مجموعے میں "یہ بھی سچ ہے" کے تحت ابتدائیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی چھوٹی بہن کے علاج کے دوران سال 2016ء میں اسپتال کے ICU میں رات وہ قیام کیا کرتے تھے اور انہوں نے حیات اور موت کی کشمکش کو قریب سے دیکھا اور ابتدائیہ کے لئے تحریر انہوں نے "نیم شب آئی سی یو میں" اس لئے بھی لکھی کہ موت ہی تو سب سے بڑی سچائی ہے۔ یوں ڈاکٹر فاضل پرویز نے جھوٹ کے کاروبار، دوغلے پن کے خاتمے اور صداقتوں کے اظہار کے لئے قلم و قرطاس کا ذمہ دارانہ استعمال کر کے اردو صحافت کی آبرو کو تابندگی بخشی ہے۔
زیرنظر مجموعہ اردو صحافت میں مقصدیت پر مبنی تحریروں کے لئے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ مذہبی ،سماجی ، معاشی اور تعلیمی موضوعات پر حالات کی تبدیلی کی تمنا اور آرزو لئے فاضل پرویز مسلسل لکھ رہے ہیں۔ بامقصد صحافت کی افادیت کا شعور جنہیں ہے وہ ان کی تحریروں کی قدر کرتے آئے ہیں۔

ھدیٰ پبلیکیشنز کے زیراہتمام شائع شدہ یہ کتاب گواہ اردو ویکلی، بیچلرس بلڈنگس، معظم جاہی مارکیٹ، حیدرآباد اور ھدیٰ ڈسٹریبیوٹرس، پرانی حویلی، حیدرآباد سے حاصل کی جا سکتی ہے، جس کی قیمت ساڑھے تین سو روپئے ہے۔ طباعت و ترئین دیدہ زیب ہے۔ کتاب کے سرورق پر مشہور شاعر شاذ تمکنت کے فرزند نامور آرٹسٹ فواد تمکنت کی پینٹنگ ہے جو مسلمانوں کے ماضی اور حال کی منہ بولتی تصویر لگتی ہے۔
فاضل پرویز کے مزید ایک سو اداریوں کے انتخاب پر مشتمل کتاب "سچ ہی تو ہے" عنقریب منظر عام پر آ رہی ہے۔

***
بشکریہ: روزنامہ "سالار" بنگلور ، شمارہ؛ 9-اکتوبر-2019
محمد اعظم شاہد
azamshahid1786@gmail.com
Mob.: 09986831777

Sach to magar kahne do. Book review by Mohd Azam Shahid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں