معراج فیض آبادی - کہاں وہ بات ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-09

معراج فیض آبادی - کہاں وہ بات ۔۔۔

meraj-faizabadi
معراج فیض آبادی (پ: 2/جنوری/1941 ، م: 30/نومبر/2013)

ایسے خوش نصیب شعرا کم ہوتے ہیں جنہیں اسٹیج اور رسائل و جرائد ہر دو اعتبار سے شہرت و مقبولیت حاصل ہو۔ مشاعرے کے شعرا عام طور پر عوامی مزاج اور ذہن یا پھر اسٹیج کے تقاضوں کی آفت میں اس طرح ملوث ہو جاتے ہیں کہ ادبی شان اور رسائل و جرائد کے تقاضے ملحوظ نہیں رکھ پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری عوامی جذبات اور عمومی لہجے کی شاعری ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس رسائل و جرائد میں چھپنے والے شعرا اس قدر مخصوص لب و لہجے اور لفظیات میں قید ہو جاتے ہیں کہ مشاعروں کی مقبولیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے جناب معراج فیض آبادی کی تخلیقی قوت پر کہ وہ مشاعروں اور جرائد میں یکساں مقبولیت کی حامل ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے عوامی ذہن و مزاج کو ملحوظ رکھا لیکن شعری محاسن اور فنی تقاضوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
اس مختصر سی تحریر میں ان کی بذلہ سنجی ، ان کا اخلاص اور شعری طریقۂ کار پر گفتگو کی گئی ہے جس سے ان کی شخصیت اور شاعری کے کچھ جانے انجانے پہلو زیر بحث آ گئے ہیں۔
یہ بات 1980ء کی ہے، میں اپنی شاعری کے آغاز کے دور میں تھا۔ اسی دوران جشن لکھنؤ کے مشاعرے میں مجھے یاد کیا گیا۔ میں جب اپنا کلام پڑھ رہا تھا تو مجھ سے میرے ایک گیت کی فرمائش کی گئی جس کا عنوان تھا "تجھے تجھ سے چرالوں گا"۔ میں خوب داد وصول کر رہا تھا کہ اچانک ایک جملہ میرے کانوں میں پڑا :
"میاں اس کم عمری میں اس قدر تجربہ کی بات؟ کیا کہنا"
اس جملے سے سارا ماحول قہقہہ زار ہو گیا۔ میں نے اسٹیج پر مڑ کر دیکھا تو وہ جملہ معراج فیض آبادی کا تھا۔ میں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور کہا کہ:
"سب ان جیسے بزرگوں سے ہی سیکھا ہے"۔
بس کیا تھا معراج بھائی نے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ یہ لڑکا ضرور کچھ نہ کچھ بنے گا۔ وہ دن سو آج کا دن ، معراج صاحب وہی محبت اور شفقت سے پیش آتے اور ہر ملاقات میں کچھ نہ کچھ ایسا عکس مجھ پر ضرور چھوڑ جاتے کہ ان کو بھلایا نہ جا سکے۔ ہندوستان اور ہندوستان سے باہر میں نے ان کے ساتھ سینکڑوں مشاعروں میں شرکت کی۔ کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ میرے خاندان کے اپنوں سے الگ ہیں۔ وہی لہجہ اور محبت۔ وہی شفقت اور اپنے چھوٹوں کے ساتھ اسی انداز سے سرپرستانہ سلوک۔ یہاں ان کے ساتھ کے چند واقعات پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں جو ان کے اعلی ظرف اور وسیع القلب ہونے کی مثال ہیں۔
سعودی عرب کے ایک مشاعرے میں تمام شعرا کے ساتھ میں بیٹھا تھا کہ شاعری کا ذکر شروع ہو گیا۔ سب نے اپنے اپنے اشعار سنائے۔ میں نے بھی کچھ شعر سنائے۔ دوران گفتگو میرے ایک شعر پر ایک شاعر نے کچھ مشورہ دیا اور کہا میں اس میں کچھ تبدیلی کر لوں۔ میں نے کہا کہ ضرور، بہ گفتگو ختم ہونے کے بعد کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے معراج فیض آبادی نے فرمایا کہ: ماجد میاں، آپ کو یہ مشورہ مخلصانہ نہیں دیا گیا اور مناسب یہی ہے کہ آپ اس شعر میں کوئی تبدیلی نہ کریں۔ پھر انھوں نے اس شعر کی تعریف اور تبدیلی کے بعد خرابی کو تفصیل سے سمجھایا۔
یہ ان کی اپنے چھوٹوں سے ہمدردی اور ان کے اصلاح کرنے کا جذبہ تھا جو ہر کسی میں نہیں ہوتا۔ ایک بات بےانتہا اہم تھی جو انھوں نے بتائی کہ اگر میں اس شاعر کا مشورہ مان کر وہ غزل اس مشاعرے میں پڑھتا تو یہ تاثر دیا جاتا کہ جیسے میں اس شاعر کی لکھی ہوئی غزل پڑھ رہا ہوں۔ یہ بزرگ شاعر نوجوانوں کو اپنا شاگرد بنا کر ان کو غزلیں لکھ کر دیا کرتے تھے۔ معراج بھائی کی وجہ سے اللہ نے مجھے ان کے احسان اور میری بدنامی سے بچایا۔
واقعات بہت سارے ہیں لیکن ایک واقعہ اور سنیں:
ابھی دو سال قبل میں مسقط کے ایک مشاعرے میں تھا۔ معراج صاحب بھی ہندوستان کے بہت سے شعرا کے ساتھ اس مشاعرے میں تشریف لے گئے تھے۔ کئی برسوں سے ان کی طبیعت خراب چل رہی تھی اور کسی نہ کسی نئی بیماری میں گھرے رہتے تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ان کو "چکن گنیا" کی نئی تکلیف کا سامنا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں۔ معراج بھائی واقعی بے حد تکلیف میں تھے۔ منتظمین مشاعرہ کی کوششوں سے ان کا علاج ہو رہا تھا اور وہ آرام بھی محسوس کر رہے تھے۔ مشاعرہ ہوا اور معراج فیض آبادی نے خوب پڑھا۔ مشاعرے کے کامیاب ترین شعرا میں رہے معراج صاحب۔ اچھے موڈ میں بیٹھے تھے۔ مزاج کے بے انتہا نرم اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حساس بہت تھے۔ مشاعرے کے آخر میں ہندوستان کے ایک مشہور شاعر جب کلام پڑھنے آئے تو حسب عادت انھوں نے معراج صاحب کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ معراج فیض آبادی نے اتنی بیماری کے بعد اتنا اچھا پڑھا اور مشاعرہ لوٹ لیا، اس سے بہتر تو یہ ہے کہ معراج صاحب ہمیشہ ایسے ہی بیمار رہیں جس سے وہ یوں ہی مشاعرہ لوٹتے رہیں۔ یہ سننا تھا کہ معراج بھائی کی آنکھوں میں نمی آ گئی اور ان کا چہرہ مرجھانے لگا۔ میں ان کے پاس بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ اس قدر متاثر ہوئے اس توہین سے کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ بڑی دیر کے بعد وہ سنبھلے اور ذرا ٹھیک ہو سکے۔ دل کے اس قدر معصوم کہ کوئی بھی ان کو ایک لمحے میں رلا سکتا تھا۔ یہ ان کے نیک دل اور مومن صفت ہونے کی دلیل تھی۔ جس شاعر نے ان کی توہین کی تھی اس کو کیا خبر کہ ایک نیک دل انسان کا دل توڑ کر اس نے کتنا بڑا گناہ کیا۔ وہ تو سب کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے کا عادی ہے۔ میں نے جب معراج صاحب سے اس شاعر کے بارے میں کچھ کہنا چاہا تو انھوں نے مجھے منع کیا اور کہا اس کا عمل اس کے ساتھ ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ خدا سب دیکھ رہا ہے۔

معراج فیض آبادی کا تعلق اس نسل سے تھا جس نے ہندوستان کے تمام بڑے اساتذہ کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ وہ اس عہد میں اپنی شاعری کا چراغ جلاتے رہے جو لہجوں کی بھیٹر میں بے انتہا مشکل کام تصور کیا جاتا تھا۔ جہاں غزل کی رومانی روایات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جا رہا تھا وہیں معراج فیض آبادی نے اپنے انداز سے تمام اساتذہ کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہ شعراء کے اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو جمال آرائی اور خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ اظہار کی پاکیزگی اور جذبے کی طہارت پر یقین رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا کسی ایسے نظریہ فکر سے کبھی واسطہ نہیں رہا جس سے لفظ و معنی کا تقدس مجروح ہوتا ہو۔ معراج بھائی کے تخلیقی شعور کی بنیاد ہمیشہ جذبے کی نفاست اور خیال کے اجلے پن پر رہی۔ انھوں نے اپنے سخن چہرے کو فکری بے راہ روی کی گرد اور شعری خودنمائی کے غبار سے کبھی میلا نہیں ہونے دیا۔ تشہیری حربوں سے دور اور گروہ بندی کے سہارے نام کمانے والوں سے ان کا ہمیشہ اختلاف رہا۔ انھوں نے اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اچھا شاعر ہی ایک اچھا انسان ہو سکتا ہے۔

معراج فیض آبادی کے لاتعداد اشعار ایسے ہیں کہ جو زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان کی شاعری میں ہر عمر اور ہر مزاج کی نمائندگی ہوتی تھی اور وہ اس طرح اپنی شاعری کو سنوارنے میں ماہر تھے کہ ہر شخص ان کے فن شاعری پر رشک کرتا ہوا نظر آتا۔ ان کی شاعری کا یہ امتیاز رہا ہے کہ وہ معیار صداقت کو بدل دینے والے زمانے میں بھی اپنی معیاری صداقت کو برقرار رکھتا ہے۔ وہ بوالہوسوں کے ہجوم میں بھی محبت کی پاکیزگی کا چراغ روشن رکھتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں غم دہر میں بھی اپنے آپ کو وقف تو کرتے ہیں لیکن اس میں گم نہیں ہو جاتے کیوں کہ غم دہر کے ساتھ ساتھ غم محبوب کا بھی ان پر حق ہے۔ ساتھ ہی قوم و ملت کا بھی وہ خیال رکھتے ہیں۔ کوئی بھی سنجیدہ موضوع ان کی شاعری سے الگ نہیں رہا اور انھوں نے غزل کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کی خوب سے خوب تر عکاسی کی ہے جو ان کا اپنا حق تھا۔ جدید اور قدیم شاعری کا ایسا سنگم جو ان کی شاعری میں ملتا ہے کہیں اور ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ شاعری کی جس معراج پر وہ براجمان تھے وہاں ہر کسی کا گزر ہونا ناممکن سا لگتا ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں ان کے چند بے انتہا مشہور شعر دیکھیں:
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

لہو کے رنگ کو مہندی کی بو نے چھین لیا
ہوا جوان جو بیٹا بہو نے چھین لیا

بات تو جب ہے مندر کے اونچے کلش مسجدوں کی حفاظت کا پیغام دیں
اور مسجد کے مینار دیں یہ صدا دیکھنا یہ شوالا بڑی چیز ہے

ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم

میں بھی خسرو کی طرح شعر پڑھوں رقص کروں
کاش مجھ کو کوئی محبوب الہی مل جائے

گویا کہ ان کی شاعری میں عصری حسیت، تاریخی پہلو اور انسانی نفسیات کی بے شمار نہجیں موجزن ہیں۔ اللہ کرے ان کی شاعری کے تعمیری ذہن کا فروغ ہو اور وہ اس دنیا کے بعد کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں۔ مذکورہ بالا اشعار کے بطن میں جھانک کر دیکھیں تو یہ محسوس ہوگا کہ انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور پڑھا ہے۔ ضرورت ایسی چیز ہے جو بڑھاپے کی نحیفی اور لاغری کو شکست دے کر ہمیشہ غزل کی طرف گامزن رہنے پر مجبور کرتی ہے، یہ پہلے شعرا کا سیاق ہے۔ دوسرے شعر میں ایک مجبور اور محنت کش باپ کے اس جذبات کی پیش کش ہے جہاں بچپن سے جوانی تک کی محنت و مشقت پر پانی پھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تیسرے شعر میں گنگا جمنی تہذیب کے استحکام کی صورتوں پر غور و خوض ہے، جہاں ہند و مسلم کو ایک دوسرے کے جذبات کے احترام کی دعوت فکر دی جا رہی ہے۔ چوتھا شعر مسلم طبقہ کے ایسے شکوے سے بحث کرتا ہے جو حق بجانب ہے۔ آخر قربانیوں اور جانوں کے لٹانے میں جو طبقہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں پیچھے نہیں رہا وہی آج مشکوک اور مغلوب کیوں ہے؟ پانچویں شعر میں ایک فن کار کے جذبات کی روداد ہے۔ جہاں یہ تمنائیں اس کے سینے میں مچل رہی ہیں کہ مجھے ایسا ماحول میسر آجائے جہاں میرے
افکار اور فن کے پروان چڑھنے کی خوبصورت فضا میسر ہو۔
خلاصہ یہ کہ معراج فیض آبادی کی شاعری کا مطالعہ کرتے جائیے اور وطن اور قوم کے ایک ایک مسئلے کو خوبصورت اور دل پذیر انداز میں محسوس کرنے کا ضابطہ محسوس کرتے رہیے۔

***
بشکریہ: ماہنامہ "آج کل" ، شمارہ؛ جنوری-2014
Dr. Majid Deobandi, R-16, Nafees Road, Jogabai, Jamianagar, New Delhi-110025
Mob.: 09810859786

Meraj Faizabadi, the modern era eminent poet.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں