نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-21

نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق

mohammad-and-kindness
#ProphetMuhammad
#ProphetofCompassion

اخلاق کا لفظ انسان کے کردار اور گفتار کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو شخص کردار کے زاویے سے کمزور ہو چاہے وہ کتنا ہی شیریں کلام کیوں نہ ہو اسے صاحب اخلاق نہیں گردانا جاتا۔ اسی طرح کردار کی دولت رکھنے والا اگر گفتار کے حسن سے تہی دامن اور عاری ہے تو اسے بھی کوئی با اخلاق ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس لیے اخلاق کا جامع اور مکمل تصور ابل علم کے نزدیک ہمیشہ ہی رہا ہے کہ آدمی کو حسن کردار کے ساتھ ساتھ شیریں گفتار کا حامل بھی ہونا چاہیے۔
حسن اخلاق کو صرف گفتار کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو جہاں تک ہمارے آقائے گرامی کے اخلاق عالیہ کا تعلق ہے تو خالق کائنات نے آپؐ کو اخلاق کے اس منصب پر فائز فرمایا جو کسی دوسرے نبی کو بھی عطا نہیں ہوا۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے:
آپ کو خلق عظیم کی لامحدود دولت سے مالامال کیا گیا ہے۔ (القلم: 4)

جہاں تک ہمارے آقائے گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کا تعلق ہے، آپؐ کے بدترین دشمن بھی آپ کے اخلاق کریمہ اور عظیم کردار کے معترف تھے۔ اعلان نبوت سے ایک لمحہ پہلے تک وہ آپ کو صادق و امین کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود جب کبھی ان سے آپ کی ذات عالی کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر اس بات کا اظہار و اقرار کرتے کہ آپ کی ذات سے ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ بلاشبہ آپ اخلاق کا اعلی اور بے مثال نمونہ ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ بدر کے میدان میں پیش آیا۔ جب ابوجہل سے اس کے ساتھیوں کے مسلمانوں سے نہ لڑنے کے متعلق مذاکرات ہو رہے تھے تو اس کے ایک سردار نے اپنے سربراہ ابوجہل سے پوچھا:
بتائیے تو سہی محمد کریم (ﷺ) کے بارے میں آپ کے کیا خیالات اور اختلافات ہیں؟
تو ابوجہل نے بلاتامل یہ کہا کہ اس کے کردار و گفتار کے بارے میں ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ ہمارا اس سے اختلاف نظریے اور خاندانی برتری کا ہے۔
قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے:
بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی فضول باتیں آپ کو پریشان کرتی ہیں یقیناً وہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔
(الانعام : 33)

اخلاق ہی وہ قوت ہے جس سے مسلمانوں نے پوری دنیا کو مسخر کیا تھا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلی دفعہ مصر کی سرزمین پر وارد ہوئے تو مصر کے عیسائی گورنر مقوقس نے مذاکرات کے لیے مسلمانوں کے پاس اپنے نمائندے بھیجے تاکہ ان کے اخلاق و کردار اور ان کی فوجی قوت کا پتا کیا جا سکے۔ حضرت عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) اس محاذ پر کمانڈر تھے۔ عیسائی مشن نے واپس جا کر ان الفاظ میں اپنی رپورٹ دی تھی:
ہم نے ایسی قوم دیکھی ہے جس کا ہر فرد موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ وہ شان و شوکت کی بجائے تواضع اور انکساری پسند کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے دل میں دنیا کی حرص و ہوس نہیں ہے۔ وہ زمین پر عام لوگوں کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ سربراہ فوج اور عام مجاہد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ اس وجہ سے چھوٹے بڑے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ وہ نماز کے لیے بڑی مستعدی اور ذوق و شوق کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں۔ نماز سے پہلے وضو کرتے اور نہایت عاجزی کے ساتھ رب کی بارگاہ میں قیام و سجود کرتے ہیں۔

ایسے ہی کردار کا مسلمانوں نے جگہ جگہ مظاہرہ کیا تھا۔ سلطنت روما کے فرمانروا ہرقل نے جب اپنی قوم کے زعما اور افواج کے سپہ سالاروں کے اجتماع میں پسپائی اور ناکامی کے اسباب کے بارے میں پوچھا تو ایک بوڑھے عیسائی نے کھڑے ہو کر واشگاف الفاظ میں کہا تھا:
ہمارا کردار اتنا گھناؤنا اور گھٹیا ہے کہ ہم میں شراب نوشی، بدکاری، خیانت اور بدعہدی کثرت سے پائی جاتی ہے، جبکہ ان کا کردار یہ ہے:
وہ وعدے پکے، دیانت و امانت کے حامل، ان کی راتیں مصلے پر اور دن گھوڑوں کی پیٹھ پر گزرتے ہیں۔

گفتگو میں الفاظ کا چناؤ اور انتخاب، لب و لہجے میں نرمی اور ملائمت، آدمی کی گفتگو کو موثر اور پروقار بنا دیتی ہے۔ اکثر اوقات بدترین دشمن بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آدمی کا موقف چاہے جتنا بھی مضبوط اور مدلل کیوں نہ ہو، جب تک الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں حسن جمال پیدا نہ کیا جائے اس وقت تک گفتگو دوسرے پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کو فرعون کے پاس بھیجا تو فرعون کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے:
اے موسیٰ! فرعون کی طرف جائیے، وہ سرکشی اور نافرمانی میں حد سے گزرا ہوا ہے۔ (النزعت: 17)
اس کے باوجود آپ کا فرض ہے کہ آپ نرمی اور محبت کے ساتھ اسے سمجھائیں۔ (طہ: 44)

قرآن مجید کے اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے نبی محترم ﷺ نے معاملات میں نرمی اور گفتگو میں ملائمت اور شفقت کو پسند فرمایا ہے۔
ایک دفعہ یہودیوں کا وفد آپ ﷺ کے ہاں حاضر ہوا۔ انہوں نے ملاقات کی اجازت چاہی، جب آپ کی خدمت میں آئے تو "السلام علیکم" کے بجائے "السام علیکم" کے الفاظ استعمال کیے جس کے معنی ہیں: آپ ہلاک ہو جائیں۔ (نعوذ باللہ)
آپ ﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بات سنتے ہی غیرت میں آئیں اور چپکے سے جواباً کہا:
تم پر ہی موت اور اللہ کی لعنت و پھٹکار اور غضب نازل ہو۔
نبی اکرم ﷺ نے جب یہ الفاظ سنے تو آہستہ سے فرمایا:
اے عائشہ رک جاؤ! سختی اور بری بات سے اجتناب کرتے ہوئے نرمی اختیار کرو۔
تو بی بی عائشہ نے عرض کیا: کیا آپ نے ان کے الفاظ نہیں سنے؟
فرمایا: کیوں نہیں۔
تو بی بی عائشہ نے دوبارہ عرض کیا: میں نے تو انہی کے الفاظ لوٹائے ہیں۔
تب آپ ﷺ فرماتے ہیں:
ان کی بددعا میرے حق میں قبول نہیں ہوتی جبکہ میں اگر ان کے لیے بددعا کروں تو فوراً قبول ہو جائے گی۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے مزید فرمایا:
آپ کو برے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش کلامی پسند نہیں کرتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ رفیق ہیں اور نرمی کو پسند کرتے ہیں۔ نرمی ہر چیز کو بلند کر دیتی ہے۔
(بحوالہ: مشکوٰۃ)

***
ماخوذ از کتاب:
آپ ﷺ کا تہذیب و تمدن (سن اشاعت: دسمبر 2000)

The kindness and morality of Prophet Muhammad (saw)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں