الف سے ایکٹر ایکٹریس اشتہار - فلمی قاعدہ از کرشن چندر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-23

الف سے ایکٹر ایکٹریس اشتہار - فلمی قاعدہ از کرشن چندر

bollywood-actor-actress

الف سے ایکسٹرا !
الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے ۔۔!
وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے ۔۔ اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی" پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔ بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے : "باادب باملاحظہ ہوشیار" ۔۔۔ وہ بھی ایکسٹرا ہے۔
کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔
مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہمدردی ہوتی ہے۔ مگر دراصل یہ لوگ کسی ہمدردی کے محتاج نہیں ہیں۔
فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں ۔۔۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔۔۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں ، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔۔ مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔۔۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو ، جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے۔۔۔ پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔۔۔ اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے ، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔
دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔۔۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا !
میں اپنے ایک فلمی ایکسٹرا دوست کو جانتا ہوں۔۔۔ آج سے دس سال پہلے وہ اپنی دو سو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی میں ہیرو بننے کے لیے آیا تھا۔۔۔ اس کی شکل تو اودبلاؤ ایسی ہے، مگر بال دلیپ کمار ایسے رکھتا ہے اور اس لیے اپنے آپ کو کسی طرح دلیپ کمار سے کم نہیں سمجھتا۔۔۔ فلمی دنیا میں آتے ہی اسے جو پہلا کام ملا۔۔۔ وہ لاٹھی اٹھا کر ایک ٹھاکر کے پیچھے چلنے کا تھا۔ دس سال بعد آج بھی وہ اسی طرح لاٹھی اٹھا کر اسٹوڈیو کے دروازے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ مگر فلمی دنیا سے باہر نہیں جائے گا۔
فلم کا ایکسٹرا آج کی دنیا کا ڈان کیوزوٹ [Don Quixote ] ہے ۔۔۔ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور اپنی چاہت کا نیزہ ہاتھ میں لیے کسی چمکتی ہوئی ہوا چکی کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔۔۔ اسے اس کے خوابوں میں گرفتار رہنے دو۔ اور سبق سیکھو کہ :
الف سے ایکسٹرا !!

الف سے ایکٹر !
بمبئی میں دساور سے آتا ہے۔ پنجاب سے آتا ہے اور یو۔پی سے آتا ہے۔ اور جب سے فلم انڈسٹری میں بدصورت اداکاروں کی مانگ بڑھ گئی ہے تو حیدرآباد سے بھی آتا ہے۔
ایکٹر کا سینہ چوڑا، ٹانگیں پتلی، آنکھیں گھٹی ہوئی اور بھویں منڈی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کی جیب میں چنے اور منہ میں عبداللہ سگریٹ ہوتا ہے۔ اکثر دادر مین روڈ پر ٹہلتا نظر آتا ہے۔
ایکٹر دو قسم کا ہوتا ہے۔ چھوٹا ایکٹر اور بڑا ایکٹر ۔۔۔
چھوٹے ایکٹر کا حال تو اوپر بیان ہو چکا ہے۔ بڑے ایکٹر کا حال بتاتے ہوئے ذرا ڈر لگتا ہے۔
ایکٹر ، ایکسٹرا سے اونچی ذات کا ہوتا ہے۔ اسے ہر وقت کلا کا کیڑا کاٹتا رہتا ہے۔ آرٹ اور فن کے میدان میں وہ ایکسٹرا تو کجا کسی ہیرو یا ہیروئین کو خاطر میں نہیں لاتا۔۔۔ اس کا خیال ہے کہ فلمی دنیا کا سارا بھرم اس کے دم سے قائم ہے۔ اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ ایکٹر اپنے فن کا پجاری ہے اور فلم اپنے کمرشیل دھندوں کے باوجود ایک فن ہے جس کا پجاری ایکٹر ہے۔
مگر ایکٹر بننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک ڈاکٹر بننا ، انجینئر بننا۔ اس میں علم اور تجربے کے ساتھ ساتھ خون پسینہ ایک کر دینا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے دل اور روح کا انہماک چاہیے اور برسوں کی ریاضت۔ ہماری فلم انڈسٹری بھی اچھے ایکٹروں سے خالی نہیں ہے بلکہ بعض تو ان میں سے اتنے اچھے اور اپنے کام کے اتنے ماہر ہیں کہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فلم ایکٹر کے مقابلے پر رکھے جا سکتے ہیں۔۔۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں کام کی لگن ہو اور پیسے کا زیادہ لالچ نہ ہو۔ ست رنگی بشرٹ پہننے سے اچھا ایکٹر نہیں بنتا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایکٹر جذبات و احساسات کی ست رنگی دنیا پر قادر ہو۔
اس لیے کہو ۔۔۔ الف سے ایکٹر !!

فلمی قاعدہ : فلم نگری پر کرشن چندر کے قلم کا نشتر !!
فلمی قاعدہ از کرشن چندر - pdf download

الف سے ایکٹریس !
کالی، پیلی، نیلی، گوری، اودی ، عنابی ۔۔۔ ایکٹریس ہر رنگ کی ہوتی ہے اور سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی رہتی ہے۔
ایکٹریس بھی دساور سے آتی ہے اور اکثر حالتوں میں کسی کے ساتھ بھاگ کر آتی ہے۔ اور بمبئی آ کر کسی ہوٹل میں قیام کرتی ہے۔ اور اپنے زیور فروخت کر کے گذر کرتی ہے۔ اس کے بعد وہ فلم کمپنی میں اپنا جسم بیچنے جاتی ہے۔ فلم کمپنی میں خوبصورت جسم کو آرٹ کہتے ہیں۔ اور پروڈیوسر سے لے کر سیٹ کے چپراسی تک آرٹ کے شیدائی نظر آتے ہیں۔
ایکٹر کے مقابلے میں ایکٹریس بہت جلد ترقی کر لیتی ہے۔ اور جتنی زیادہ خوبصورت ہوگی اتنی ہی جلدی ترقی کرے گی۔ بعض ایکٹرسوں کو ہیروئین بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن کئی ایک خوش قسمت ایکٹریس ایسی بھی ہیں جو ایک ہی رات میں کامیابی کے تمام مراحل طے کر لیتی ہیں۔ ہر فلم کمپنی ایکٹریس پر چلتی ہے۔ فلمی زندگی کا محور یہی قتالہ ہے!
ایکٹروں کی طرح ایکٹریسیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ چھوٹی اور بڑی ۔۔۔! چھوٹی ایکٹریس اکثر اپنے بھائی یا شوہر کے ساتھ دیکھی جاتی ہے۔۔۔ بڑی ایکٹریس پروڈیوسر کی کار میں۔ کیونکہ اس کا کوئی شوہر نہیں ہوتا، کوئی بھائی نہیں ہوتا۔ بڑی ایکٹریس کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیٹ پر آ کر سو جاتی ہے اور اس کا موڈ اکثر بگڑ جاتا ہے!!

الف سے اشتہار !
کوئی فلم اشتہار کے بغیر نہیں چلتی۔ فلم بنانے سے پہلے اشتہار دینا پڑتا ہے۔ فلم بننے کے بیچ میں اشتہار دینا پڑتا ہے۔ فلم بننے کے بعد تو دھڑا دھڑ اشتہار دینے پڑتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے فلم کی کامیابی کا یہ فارمولا بنا رکھا ہے:
ہیرو ۔۔۔ ہیروئین ۔۔۔ اور اشتہار !
ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو فلمی ہیرو اور ہیروئین سیکس اور گلیمر کے اشتہار ہیں۔ باقی سب آزار ہے۔
اس لیے بعض فلم اسٹار ، اشتہار کے لالچ میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی ایک کھلا اشتہار معلوم ہوتی ہے۔ وہ انسان نہیں، اخبار کا ایک ورق معلوم ہوتے ہیں۔

***
ماخوذ از کتاب:
فلمی قاعدہ - از: کرشن چندر

Sarcasm of Film industry. Filmi Qaida by Krishan Chander.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں