حیدرآباد - اردو صحافت اور ادب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-19

حیدرآباد - اردو صحافت اور ادب


اردو صحافت اور ادب کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اردو صحافت نے ادب کو فروغ دیا اور ادب نے اردو صحافت کو جلا بخشی۔ بیشتر صحافی اپنے دور کے نامور ادیب اور شاعر بھی رہے۔ ان نامور صحافیوں نے شعر و ادب کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ تقسیم وطن کے وقت "ادبی دنیا"، "نیا ادب" ، "ادب لطیف" کی بڑی دھوم تھی۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے بموجب آزادی کے بعد ادب و صحافت کو نئی زندگی بخشنے والے چند نام یہ ہیں:
رہنمائے دکن || ہند سماچار || بلٹز || آئینہ || انقلاب || اردو ٹائمز || سالار || نشیمن || آزاد ہند || ملاپ || پرتاپ || صداقت || سیاست || اخبار مشرق || ساتھی || ہماری زبان || قومی تنظیم || منصف || صحافت || اعتماد || اردو ادب || نوائے ادب || معیار || تہذیب || صبح نو || شاعر || صنم || آج کل || شاہراہ || کتاب نما || شب خون || الفاظ || کتاب || روح ادب || افکار || سیارہ || اشارہ || سیپ || طلوع افکار || روبی || شمع || بیسویں صدی || خاتون مشرق || گلابی کرن || پاکیزہ آنچل || دوشیزہ || خاتون || آج کی خاتون || ھما || شبستاں || فلمی تصویر || چہار رنگ || ہزار رنگ || کہکشاں || شگوفہ || فنون || نقوش || روح اردو || مباحثہ || مریخ || سوغات || ایوان اردو || ہماری زبان || قومی زبان

ادب نے صحافت کو فروغ دیا یا صحافت نے ادب کا تحفظ کیا؟ یہ سوال اپنی جگہ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ادب اور صحافت کا رشتہ تب سے ہے جب سے دونوں کا وجود ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ جس طرح سے آپس میں آوازوں سے پیامات کی ترسیل، جو کسی قواعد و ضوابط سے بےنیاز ہوتی ہے، وہ "بولی" کہلاتی ہے۔ مگر جب یہی تحریر میں آتی ہے تو وہ "زبان" کہلاتی ہے، جس میں ادب پیش کیا جاتا ہے۔ مختلف اصناف سخن کے الگ الگ نام دئیے گئے ہیں، مگر جب یہ کسی وسیلہ سے عوام الناس تک پہنچائے جاتے ہیں تو وہ ادبی صحافت کہلاتے ہیں۔
ہر دور میں ادب اپنے اپنے اندازوں میں عوام میں مقبول رہا ہے چاہے وہ مذہبی تصانیف ہوں یا ڈرامے کا انداز ، شاعری، نثر یا کچھ اور۔ دور قدیم سے ہی کسی نہ کسی طرح سے اسے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک اردو ادب اور صحافت کا تعلق ہے، اصناف سخن صحافت کا لازمی حصہ رہے۔ شعرائے کرام کا کلام ، مضامین، مشاہیر کے خطوط، اخبارات، رسائل و جرائد شائع کرتے رہے ہیں۔ ادب نے صحافت کو وقار عطا کیا اور صحافت نے ادب کو شہرت بام تک پہنچایا۔ یوں تو کلاسیکی ادب اور ترقی پسند ادب کا جھگڑا چلتا رہا، مگر ہر دو نے اردو کی لاج رکھی اور صحافت کے اقدار کے استحکام میں اہم رول ادا کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن اخبارات و رسائل نے ادب کو اپنا ایک حصہ بنایا ان کی عمر طویل رہی اور قارئین کے ہر طبقہ میں ان کی پذیرائی ہوتی رہی۔ جن اخبارات و رسائل کی صحافتی زبان میں ادب کی آمیزش کی گئی ، وہ ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔

جہاں تک حیدرآباد کا تعلق ہے، یہ معیاری ادیب و شعرا اور صحافیوں کی سرزمین ہے جن کی شاعری اور نثری تخلیقات کو تقریباً سبھی اردو اخبارات اپنے صفحات کی زینت بناتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہاں سے کسی دور میں معیاری ادبی رسائل اور جرائد شائع ہوتے رہے، جن میں خواجہ حمید الدین شاہد کا ماہنامہ "سب رس" جو ایوان اردو سے اب ڈاکٹر بیگ احساس کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے اور ادبی حلقوں میں اس کی اہمیت ہے۔
خواجہ حمید الدین شاہد پڑوسی ملک کو ہجرت کر گئے اور پھر وہاں سے بھی انہوں نے "سب رس" (کراچی) 1977-96 نکالا۔
ناصر کرنولی کا "پونم" ایک باوقار ادبی جریدہ تھا اور انہوں نے 1967ء میں طنز و مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس کے موقع پر 200 صفحات کا خصوصی شمارہ شائع کیا تھا۔
طنز و مزاح نگاروں کی یہ پہلی کانفرنس تھی جس کے عہدہ داروں میں جناب مجتبیٰ حسین (معتمد)، جناب حمایت اللہ (نائب صدر)، جناب حفیظ قیصر (نائب معتمد)، جناب مصطفیٰ کمال (آفس سکریٹری)، جناب ناصر کرنولی (کنوینر سمپوزیم)، جناب صلاح الدین نیر (کنوینر رابطہ کمیٹی)، جناب رحیم خاں (خازن)، جناب محمد قمر الدین خاں (کنوینیر والینٹرس کمیٹی) اور جناب زاہد علی خاں (کنوینر مالیہ کمیٹی) شامل تھے۔ اسی کانفرنس کے بعد حیدرآباد طنز و مزاح کی راجدھانی تسلیم کیا گیا۔


سلیمان اریب، جن کا تعلق حضری قبیلہ سے تھا، ایک ممتاز شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے ماہنامہ "صبا" کے ذریعہ ترقی پسند تحریک کو تقویت دی۔ 1972 میں ان کا انتقال ہوا۔ لگ بھگ بیس (20) برس تک ان کا جریدہ "صبا" ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کرتا رہا۔ اگرچہ کہ اس کی اشاعت مسدود ہوئے چار دہائیاں ہو گئیں مگر آج بھی اسے یاد کیا جاتا ہے۔
اعظم راہی کی زیر ادارت "پیکر" نے بھی عالمی دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ خود اعظم راہی ممتاز جدید لب و لہجہ کے شاعر کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت کے حامل رہے۔ انہوں نے مختلف اخبارات کے ادبی ایڈیشن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی اور ان اخبارات کی شہرت میں چار چاند لگائے۔ انہوں نے حیدرآباد اور کناڈا سے بیک وقت "فراست" بھی جاری کیا اور جناب ساجد اعظم کی شراکت میں غیرمیقاتی ادبی و ثقافتی خبرنامہ "تیشہ" بھی شائع کر رہے ہیں۔
محترمہ صالحہ الطاف کو ماہنامہ "خاتون دکن" کی ادارت و اشاعت کا اعزاز حاصل رہا۔ جس کی مجلس ادارت میں ان کی چار بہنیں اختر سلطانہ، صبیحہ سعید، صابرہ سعید اور عذرا سعید شامل تھیں۔ جناب صلاح الدین نیر کی خودنوشت "سلسلہ پھولوں کا" میں صالحہ الطاف سے متعلق مضمون شامل ہے۔ خود صلاح الدین نیر نے اس رسالے کی ادارتی ذمہ داری قبول کی اور اسے عملی دنیا میں صحیح انداز میں روشناس کروایا اور اس کے کئی خصوصی ایڈیشن شائع کیے۔
صلاح الدین نیر برصغیر کے ممتاز شعرا میں شامل ہیں، وہ لگ بھگ چار دہائیوں تک روزنامہ "سیاست" کے ادبی ایڈیشن کے روح رواں رہے۔ 1983 سے ماہنامہ "خوشبو کا سفر" شائع کر رہے ہیں جس میں اردو اداروں کی بدعنوانیوں، شاعر و ادیبوں، اسکالرس کے سیاہ کارناموں کا پردہ فاش کیا جاتا ہے۔
پروفیسر مغنی تبسم اردو دنیا کی قابل احترام ہستی رہے۔ شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے ان کا اپنا مقام ہے۔ شعر و حکمت جیسا ضخیم ادبی ششماہی جریدہ ان کے اعلیٰ ادبی ذوق، حسن انتخاب اور فن ادارت میں مہارت کا عکاس ہے۔ اس کے مرتبین میں ممتاز شاعر شہریار کا نام بھی شامل رہا مگر یہ حقیقت ہے کہ مغنی صاحب ہی اس کے لیے زیادہ وقت دیا کرتے تھے۔
مرحوم جناب مضطر مجاز ماہر اقبالیات بھی تھے اور ممتاز شاعر بھی۔ ایک طویل عرصہ تک انہوں نے روزنامہ "منصف" کے ادبی ایڈیشن کے انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس ایڈیشن کو اردو دنیا میں بےحد مقبول بنایا۔
ڈاکٹر فاروق شکیل اب منصف کے ادبی ایڈیشن کے انچارج ہیں اور انہوں نے مقامی اور ابھرتے شعرا کو موقع دیا ہے۔ نوجوان قلمکاروں کی تخلیقات شائع ہو رہی ہیں۔
روزنامہ "سیاست" کا ادبی ایڈیشن معیاری اور باوقار سمجھا جاتا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے شعرا و ادیب اپنی نگارشات روانہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صابر سیوانی ایک طویل عرصہ تک سیاست کے ادبی ایڈیشن کے انچارج رہے۔ ان دنوں یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپی گئی ہے۔
روزنامہ "اعتماد" کا ادبی ایڈیشن بھی معیاری ہے۔ ممتاز شاعر جناب محسن جلگانوی اس کے انچارج ایڈیٹر ہیں۔ 'اوراقِ ادب' ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہے۔ نثر و نظم کا انتخاب ، کتابوں پر تبصرہ اور ادبی مضامین لازوال ہوتے ہیں۔
ممتاز قلمکار اور مبصر ڈاکٹر م۔ ق۔ سلیم برسوں سے "شعاع اردو" شائع کر رہے ہیں، چار دہائیوں سے ہندوستان کے مختلف اخبارات میں ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ روزنامہ "صحافئ دکن" کے ادبی ایڈیشن کے انچارج ہیں۔ اپنی برسوں کی صلاحیتوں کا وہ بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔


جناب عبدالباری جمیل نظام آبادی 1973 سے "گونج" شائع کر رہے ہیں جو ایک ادبی ماہنامہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ادبی اور صحافتی شخصیات پر ایک فوٹو البم بھی شائع کیا تھا۔
جناب عبدالقدیر مقدر "تمہید" کے ایڈیٹر ہیں جو علمی، ادبی اور دینی رسالہ ہے۔ نو (9) سال سے پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ اسے ایک معیاری اور ادبی حلقوں میں قابل قدر و قابل قبول بنانے کے لیے کافی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اقبال شیدائی "پروانۂ دکن" کے مدیر ہیں، وسائل سے نمٹتے ہوئے وہ صحافت کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مجتبیٰ فہیم کی زیرادارت ماہنامہ "رنگ و بو" ادبی حلقوں میں پسند کیا جاتا ہے۔ ممتاز شاعر، ادیب نقاد اور مبصر پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی اس میں ہندوستانی صحافت پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلیکیشنز کے زیراہتمام پروفیسر محمد ظفر الدین کی ادارت مین ششماہی تحقیقی جریدہ "ادب و ثقافت" شائع ہو رہا ہے۔ جو علمی اور ادبی حلقوں میں باوقار اور موتمر جریدہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی مجلس ادارت میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر شارب رودولوی، پروفیسر اشرف رفیع، پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر م ن سعید، پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر وہاب قیصر، پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر محمد فاروق بخشی اور جناب انیس اعظمی شامل ہیں۔ مولانا آزاد یونیورسٹی سے "الکلام" بھی شائع ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر محبوب فرید ایک جانے پہچانے ادیب اور محقق ہیں۔ فروری 2013 میں دینی، علمی ادبی، سائنسی و طبی رسالہ ماہنامہ "شاداب انڈیا" ان کی ادارت میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے یہ جناب قمر صابری کی ادارت میں ماہنامہ "شاداب" کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر محبوب فرید نے شاداب انڈیا کو ایک معیاری جریدہ میں تبدیل کیا۔ مضامین کا انتخاب قابل ستائش ہے۔
ڈاکٹر جاوید کمال کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ادبی اور ثقافتی حلقوں میں گذشتہ چار دہائیوں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ایک ڈرامہ نگار بھی ہیں اور اچھے فنکار اور بہترین صداکار بھی۔ انہوں نے اردو کی تاریخ کو ڈرامہ کی شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے ایک معیاری سہ ماہی ادبی جریدہ "ریختہ نامہ" کی اشاعت کا آغاز کیا ہے جس نے بہت ہی کم عرصہ میں پذیرائی حاصل کر لی۔
اردو اکیڈمی تلنگانہ کا ترجمان ماہنامہ "قومی زبان" اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں شائع ہونے والے مضامین کو معیاری تسلیم کیا جاتا ہے۔ اردو اکیڈمی کا سکریٹری اس کا ایڈیٹر ہوتا ہے۔ چندرسریواستو (حسن علی)، اعجاز قریشی، پروفیسر ایس۔اے۔شکور جیسے سکریٹریوں نے متحدہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ اردو اکیڈمی کے اس ترجمان کے معیار پر توجہ دی ہے۔ موجودہ چیرمین رحیم الدین انصاری بھی اس کے معیار میں اضافہ کے لیے پرعزم ہیں۔
حکومت تلنگانہ کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے زیراہتمام شائع ہونے والے ماہنامہ "تلنگانہ" اپنی بہترین طباعت اور معیاری مضامین کے انتخاب کی بدولت علمی اور ادبی حلقوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ سید حبیب الدین قادری اس کے ایڈیٹر ہیں۔ انوارالعلوم کالج سے گریجویشن، حیدرآباد یونیورسٹی سے ایم۔اے، ایم۔فل کیا ، بھونس کالج آف جرنلزم سے صحافت میں پی۔جی۔ڈپلوما امتیاز کے ساتھ حاصل کیا۔ چار گولڈ میڈل، تین سلور میڈل اور تین نقد انعام حاصل کیے۔ 2007 میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ سے وابستہ ہوئے، متحدہ آندھرا پردیش کے ایڈیٹر رہے، پھر نئی ریاست کی تشکیل کے بعد ماہنامہ "تلنگانہ" کو ملک کے معیاری اردو جرائد میں شامل کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو سے پچیس (25) برس سے وابستہ رہے۔ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔
ممتاز عالم دین و مبلغ مولانا محمد محامد ہلال اعظمی کی ادارت میں علمی و ادبی رسالہ "صدائے شبلی" پورے آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔
جناب اسد ثنائی ہر سال ایک ضخیم جریدہ "الانصار" شائع کرتے ہیں جو بلاشبہ صحت مند فکری رجحانات کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ مختلف شخصیات پر خصوصی نمبر بھی شائع کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام نمبر شائع ہو چکا ہے، ڈاکٹر مضطر مجاز اور ڈاکٹر محمد علی اثر پر خصوصی شمارے منظر عام پر آنے والے ہیں۔
اردو صحافت اور ادب کا ذکر مکرم نیاز اور جناب سردار علی کے ذکر کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔ نامور شاعر جناب رؤف خلش کے فرزند مکرم نیاز اپنی ذات میں ایک انجمن، ادب و صحافت کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ انہوں نے مشہور زمانہ کارٹونس کو اردو میں پیش کیا، یہ سلسلہ بےحد مقبول ہوا۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ "تعمیر" پر اردو ادب کا خزانہ محفوظ کر دیا ہے۔ بچوں کے وہ جانے پہچانے ادیب ہیں اور ایک بہترین نقاد بھی، اردو دنیا میں وہ کافی جانے پہچانے ہیں۔
جناب سردار علی وطن سے دور کناڈا میں ہیں اور وہاں سے "شعر و سخن ڈاٹ کام" کے ذریعے اردو کی جو خدمات انجام دے رہے ہیں اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رسائل، جرائد ہوں یا نگارشات ، شعر و سخن ڈاٹ کام پر موجود رہتی ہیں۔

اور بھی بہت سے نام ہیں ، انشاءاللہ اگلے شماروں میں ان کا ذکر ہوگا۔

***
بشکریہ: ہفت روزہ "گواہ" حیدرآباد ، شمارہ؛ 18/تا/24-اکتوبر-2019

Hyderabad, Urdu journalism and literature. Article by Dr. Syed Fazil Hussain Pervez.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں