انسان کا تعلق دوسرے انسانوں سے کیسا ہونا چاہئے اور ملک کے یہود و نصاری اور ہندو سکھ و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کس نوعیت کے ہونے چاہئیں ، اس کے بارے میں قرآن کا جو تصور ہے، وہ بالکل واضح و عیاں ہے مگر افسوس کہ دور حاضر میں اس تعلق سے مسلمانوں میں بھی غلط فہمیاں ہیں اور دیگر مذاہب کے اہل وطن میں بھی بڑی غلط فہمی و بدگمانی پائی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عام مسلمان اسلام و قرآن کے صحیح تصور کو سمجھنے میں غلطی کا شکار ہیں ، ان کا سلوک و طرز عمل ایسا نہیں جس سے قرآنی تصور کی عکاسی ہوتی ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تصور اور چیز ہے اور عملی زندگی کچھ اور۔ قرآنی تصور کے مطابق عملی زندگی کو ڈھالنے اور غیرمسلم برادران وطن کے ساتھ سلوک کرنے میں، اسے اپنانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن کے تصور کو اچھی طرح سمجھا جائے، اس کے نظریہ کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ جاننے کی کوشش کی جائے، اس کی تعلیمات کا احاطہ کیا جائے، اس کے مذہبی مقاصد اور قومی حالات کو اور اسی طرح مسلمانوں کے قومی مفاد کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھا جائے۔ نسلی امتیاز، سیاسی، مذہبی، علاقائی تفریق اور قومی و صوبائی عصبیت کے خول سے باہر آیا جائے۔
بیشتر مسلم ملکوں میں بیشمار مذہبی، مسلکی اور دینی اقلیتیں بستی ہیں۔ ہندوستان جیسے ملکوں میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے مگر یہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جسے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسری نمبر کی اکثریت کہا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دور حاضر میں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اقلیت و اکثریت نہ ہو۔ مسلم ملکوں میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد ہے جو اقلیت میں ہیں اور غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے، پھر مسلموں و غیر مسلموں میں بھی سب یکساں نہیں بلکہ وہ خود آپس میں مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان کی مذہبی و مسلکی وابستگیاں مختلف نہیں بلکہ سیاسی گروینی، علاقائی اور انسانی وابستگیاں ہیں ، اس طرح وہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بنے ہوئے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اسلام نے اسلامی وابستگی کے علاوہ ساری وابستگیوں کو مٹایا اور ساری عصبیتوں کو قدموں سے کچلنے کا اعلان کیا تھا اور صرف ایک اسلامی وابستگی کو برقرار رکھا تھا، باقی تمام علاقائی و مسلکی، نسلی و رنگ و روپ کی عصبیت کو جاہلیت کی باقیات قرار دے کر مسترد کر دیا تھا مگر آج جبکہ مسلمان کمزور سے کمزور تر ہو چکے ہیں، ہند و پاک میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں ان کی ہوا اکھڑ چکی ہے، ان کا وقار غارت ہو چکا ہے اور انہیں آپس میں لڑا کر حکومت کرنے کے پروگرام پر عمل ہو رہا ہے اور انہیں مزید باہمی اختلافات میں ڈبو کر انہیں کمزور کرنے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اور ہم مسلمان ہیں کہ اغیار کے چھوڑے ہوئے ان شوسوں کو گلے لگائے اور بوئے ہوئے علاقائی، مسلکی اور رنگ و نسل کی عصبیت کے کانٹوں کی آبیاری کر کے اسے تناور درخت بنا رہے ہیں۔
ہائے افسوس کہ اس طرح کی زمانہ جاہلیت کی عصبیت عوام میں کم اور دینی و تعلیمی اداروں میں زیادہ ہے۔
اسے دینی درسگاہ کا نام دیا جا سکتا ہے یا جاہلیت کی درسگاہ؟
جب ہم خود آپس میں دست و گریباں ہوں گے تو ہم غیر مسلموں کے ساتھ سلوک کرنے میں اسلامی تعلیمات کو کس طرح ملحوظ رکھ سکتے ہیں؟ جب ہم باہمی سلوک ہی میں جاہلانہ و کافرانہ عصبیت کا شکار ہوں گے تو ہم غیرمسلموں کیساتھ سلوک کرنے میں کس طرح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہ سکتے ہیں؟
آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے ہر طرح کی عصبیتوں کو دور کیا جائے کہ اسلام کسی ایک خطہ کا نہیں اور اس کا دائرہ کسی علاقے تک محدود نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں چاہے ان کا ملک کچھ بھی ہو، ان کا رنگ و نسل جو بھی ہو، ان کے عادات و اطوار کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، ان کی زبان جیسی بھی ہو، سب ایک فیملی کے افراد اور ایک چھت کے مکین ہیں۔ اس کے بعد ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہند و پاک اور دنیائے عرب ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مسلمانوں کا سلوگ اپنے دوسرے برادارن وطن کے ساتھ کیا ہونا چاہئے؟ ان تعلقات وسلوک کا نقشہ قرآن نے کھینچا ہے اور ہمیں اسے اپنانے کا پابند بنایا ہے۔
اس دنیا میں اللہ تعالی کی جانب سے انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت اور آسمانی کتابوں اور پیغاموں کو اتارنے کا ایک بنیادی مقصد لوگوں کے دلوں میں اونچے اقدار و اخلاق اور اوصاف حمیدہ کو راسخ کرنا تھا جس کے سہارے انسان ترقی کر کے انسانیت کے اعلی معیار کو پہنچ سکے۔ اللہ تعالی نے اس کے اندر جو فطرت سلیمہ رکھا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے اسی لئے ان آسمانی پیغاموں اور تعلیمات میں بطور خاص ، فضائل اعمال، حسن اخلاق، اعلی کردار، اونچے اقدار اور انسانی شرافت و کرامت پر روشنی ڈالی گئی اور اسے اپنانے اور اس کا خوگر بننے کی بار بار تاکید کی گئی اور ان تمام تر آسمانی پیغاموں میں ان اوصاف کو اپنانے کیلئے کہا گیا اور روئے زمین پر بسنے والے سارے لوگوں اور ساری قوموں و ملتوں سے اپیل کی گئی اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ وہ اسے اپنی زندگی کا دستور عمل اور مشعل راہ بنالیں اور اسی راستے پر اپنی زندگی گزاریں۔
آسمانی شریعتوں نے انہی انسانی اقدار و اخلاق کو اپنا شعار اور اساس و بنیاد بنایا ہے تاکہ یہ دعوت کا گہوارہ بنے کہ اس کے بغیر دعوت کا عمل بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جبکہ رسالت و نبوت دعوت ہی سے عبارت ہے۔ رواداری کے اس عظیم تر نظریے میں قرآن منفرد اور دیگر شریعتوں سے ممتاز ہے۔ اس نے اپنا مخاطب کسی خاص قوم یا خاص رنگ و نسل کو نہیں بنایا بلکہ اس نے کسی استثنا و تحفظ کے بغیر ساری انسانیت اور تمام بنی نوع انسانی کو مخاطب کیا ہے۔
قرآن چاہتا ہے کہ سارے انسان قدر مشترک پر جمع ہوں، باہم ایک دوسرے سے مربوط رہیں جدا نہ رہیں، آپس میں تعلقات استوار رکھیں، قطع تعلق نہ کریں۔ قرآن نے یہود و نصاری اور تمام اہل کتاب کو مخاطب کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے "کلمہ سواء" و جامع قدر مشترک کی بنیاد پر ملنے کی دعوت دی ہے۔ یہی وہ جامع بات قدر مشترک اور یکساں کلام ہے جس پر کسی تحفظ کے بغیر سارے مذاہب اور تہذیب و کلچر جمع ہو سکتے ہیں۔
الله تعالی فرماتا ہے:
"کہو! اے اہل کتاب! ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔"
(آل عمران46)۔
اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلم صرف اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کرنے والے ہیں۔
یہ بنیاد ہمارے لئے کچھ قواعد و ضوابط ، پابندیاں اور قوانین پیش کرتی ہے جسے اس اجتماع و یکجائی میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور وہ ہے توحید، وحدت کلمہ، شہریت کا پاس و لحاظ اور حقوق و ذمہ داریوں میں مساوات۔ غلبہ و تسلط اور آمریت خواہ کسی بھی صورت میں ہو اسے مسترد کرنا اور اندرونی و بیرونی امن و سلامتی اور سیکیورٹی کی برقراری کیلئے بیدار رہنا ہے۔
قرآن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے عالمی اخلاق و اقدار کو سامنے رکھ کر اس اجتماعیت کی دعوت دی ہے جس پر ساری انسانیت جمع ہو سکتی ہے، خواہ اس کا دین و مذہب ، مسلک و مشرب ، ملک وطن اور مفادات کچھ بھی ہوں، اسی کے ذریعے مذہبی تنوع کا بھی پاس و لحاظ رکھا جا سکتا اور انسانی شرافت و کرامت کی بھی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
یہی وہ قرآنی تصور ہے جس سے روئے زمین پر عدل و احسان اور حق و صداقت کو عام کیا جا سکتا اور محبت و مودت ، رحم و کرم، اخوت و بھائی چارگی کو فروغ دیکر انسانوں سے زمین کو آباد رکھا جا سکتا اور خون خرابے اور نفرت و کراہیت سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے کہا ہے:
"اے نبی (صلی اللہ علیہ وسم)! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو، تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راه راست پر ہے۔
(النحل 125)۔
اگر ساری انسانیت، عقل و دانش کو جذبات و وابستگیوں پر فوقیت دینے لگے جس کی تلقین قرآن بار بار کرتا اور اسلام اسے لازم پکڑ لینے کو کہتا ہے، تو یقینی طور پر یہ ملک اور یہ روۓ زمین گہوارۂ امن بن جائے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مایوسی کی فضا سے نکل کر پورے حوصلے اور امنگ کے ساتھ داعی بنیں مگر دوسروں کو اس کی دعوت دینے سے پہلے خود اپنے اندر اس کی عادت و خصلت پیدا کریں۔ یاد رکھیں کہ ہم نے اپنے آپ کو اگر اس وقت نہیں بدلا، اپنی جاہلیت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا اور خاموش دعوت دین کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا، چاہے دوسرے "گھر واپسی" اور "شدھی کرن" کا کتنا ہی شور مچاتے رہیں، اور اس راہ پر اپنی نسل کو نہیں لگایا تو ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
اور اگر ہم نے اس راہ کو اپنا لیا تو ہزار طوفان اٹھتے رہیں ہم ان شاء اللہ لہلہاتے اور پھلتے پھولتے رہیں گے اور ہمارا وجود اس زمین پر اور اس وطن میں متزلزل نہیں ہوگا۔
***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 24/اپریل 2015۔
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 24/اپریل 2015۔
Common values in people of different religions.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں