محمد یوسف دہلوی - دہلوی طرزِ نستعلیق کے موجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-10

محمد یوسف دہلوی - دہلوی طرزِ نستعلیق کے موجد

yusuf-dehlvi-khattaat

محمد یوسف دہلوی خطاطان پاک و ہند کے خطاطوں میں استاد الاساتذہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپ کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی ایک ماہر خوشنویس تھے جو گذشتہ صدی کے اواخر میں جنڈیالہ ڈھاب والا، ضلع گوجرانولہ سے منتقل ہو کر دہلی جا بسے تھے۔ منشی محمد الدین جنڈیالوی برصغیر کے واحد خوشنویس تھے جنہیں غلافِ کعبہ کے لیے خطاطی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کام انہوں نے 1932ءمیں کیا تھا۔ غلافِ کعبہ کے لیے خطاطی ان کی زندگی کا آخری کام تھا۔ اس کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی ۔ ان کی اولاد میں محمد یوسف دہلوی اور محترمہ فاطمہ الکبریٰ نے بحیثیت خوشنویس بڑا نام پیدا کیا۔ محترمہ فاطمہ الکبریٰ نے تین حمائلیں اور ایک مصحف کی کتابت بھی کی۔ منشی محمد الدین کے بڑے صاحبزادے منشی عبدالقدیر بھی ایک ماہر خوشنویس تھے جن کا انتقال 1969ء میں دہلی میں ہوا۔

محمد یوسف دہلوی کی پیدائش 3 ربیع الاول 1312ھ مطابق 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں ہوئی۔ انہیں بچپن ہی سے فنِ خطاطی سے خاص لگاﺅ تھا۔ ان کی والدہ بہت عابدہ زاہدہ خاتون تھیں۔ آپ کے والدمنشی محمد الدین بڑی محنت سے کتابت کرتے ،مگر یافت کم ہوتی، اس لیے والدہ کی خواہش تھی کہ یوسف کسی اور شعبے میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یوسف جب بچپن میں قلم سے مشق کرتے تو ان کی والدہ قلم توڑ دیتیں، مگر اس سختی نے فنِ خطاطی سے ان کا تعلق اور مضبوط کر دیا اور بعد میں اسی شعبے میں ان کی تمام صلاحیتیں مرکوز ہو گئیں۔ محمد یوسف دہلوی انگریزی زبان میں بھی ماہرانہ دسترس رکھتے تھے ۔انہوںنے دہلی کے مشہور تعلیمی ادارے سینٹ اسٹی فینس کالج ( Saint Stephens College)سے 1911ء میں بی اے کیا تھا ۔ ےہاں ان کے استادوں میں سی ایف اینڈ ریوز ، مولوی ذکاءاللہ اور لارنس آف عریبیا کے بھائی ٹی۔ ایس۔ لارنس شامل تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد آپ نے محکمہ ڈاک میں پوسٹ ماسٹر کی ملازمت بھی کی۔

اگر چہ محمد یوسف دہلوی کے والد دہلی کے نامور خوشنویس تھے مگر آپ نے اپنے والد کی طرز نستعلیق کی تقلید کرنے کے بجائے عہد ِ شاہجہانی کے مشہور خطاط عبد الرشید دیلمی کے کام کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا اور اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لا کر خطِ نستعلیق کی ایک نئی اور خوبصورت روش ایجاد کی جسے " دہلوی طرز نستعلیق" کہا جاتا ہے۔ قیامِ دہلی کے دوران آپ باربار لال قلعہ جاتے اور عبد الرشید دیلمی کے قطعات اور کتبوں کا دیر تک مطالعہ کرتے تھے پھر گھر آ کر ان کی مشق کرتے۔ ےہی وجہ ہے کہ آپ صرف عبدالرشید دیلمی ہی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔لیکن ایک مخصوص اور خوبصورت طرز نستعلیق ایجاد کرنے کے بعد یوسف صاحب کا تخلیقی سفر رکا نہیں بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں عمر بھر جاری رہا۔ یوسف صاحب نے اپنے ذہن و جسم کی تمام صلاحیتیں اپنے فن کو بلند سے بلند تر سطح پر پہنچانے میں صرف کر دی تھیں۔ وہ کبھی اپنے لکھے ہوئے سے مطمئن نہ ہوتے تھے اور اس کی نوک پلک درست کرتے رہتے۔ ان کے فن کے مختلف ادوار ہیں، ابتدا میں ایرانی طرز میں عبد الرشید دیلمی اور امام ویردی کے انداز میں قلم سے لکھتے ، پھر بانس سے جلی لکھنے کا دور آیا، اس کے بعد کے دور میں وہ دو پنسلوں کو جوڑ کر لکھتے اور الفاظ ےا بیک گراﺅنڈ کو سیاہ کرتے، آخری دور میں وہ ایک پنسل سے لکھتے تھے۔ ےہاں تک کہ باریک خطاطی بھی ایک ہی پنسل سے کرتے اور وہی بلند معیار برقرار رکھتے ۔ ےہ گویا ان کے فنی سفر کا نقطہ عروج تھا۔ ان کے بھتیجے علاءالدین خالد مرحوم نے راقم سے ایک ملاقات کے دوران بیان کیا تھا کہ ان کے فنی سفر کے ہر دور میں ان پر ایک مخصوص کیفیت طاری ہوتی تھی جس میں وہ اسی طرح کی خطاطی کرتے تھے۔یوسف صاحب کے خط کی ایک بڑی خوبی ےہ تھی کہ اسے خواہ کتنا ہی چھوٹا (Reduce)کر کے چھپایا جاتا ، نہ تو حروف و الفاظ کا باہمی تناسب بگڑتا اور نہ ہی کسی لفظ کا کوئی حصہ غائب ہوتا۔اسی طرح ابتدا میں ان کے خط نستعلیق کے دائرے قمری ہوتے تھے جبکہ آخر ی دور میں یہ دائرے شمسی ہوگئے ۔اسی طرح ان کے خط میں کششوں اور جوڑوں اور پیوندوں میں بھی ارتقائی منازل نظر آتی ہے جیسا اس مضمون کے آخر میں یوسف صاحب کے تیار کردہ کتب کے ٹائٹلوں اور ان کی خطاطی کے نمونوں سے ظاہر ہے۔یوسف صاحب کے ایجاد کردہ دہلوی طرزِ نستعلیق میں حروف و الفاظ کا قط لاہوری طرز سے کچھ زیادہ ہے لیکن الفاظ کا طول لاہوری طرز سے کم ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لاہوری طرز میں اگر کوئی مرکّب لفظ لکھنا ہو تو حروف ایک ترچھی لکیر کی شکل میں آپس میں جڑتے ہیں جبکہ دہلوی طرز نستعلیق میں ترچھ نہیں بلکہ سیدھی لکیر کی شکل میں حروف جڑتے ہیں جس سے لفظ کی اونچائی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی۔ایک جدید تحقیق کے مطابق دہلوی طرز نستعلیق میں کسی بھی لفظ کی اونچائی 03درجے سے زیادہ نہیں ،اسی خوبی کی وجہ سے کوئی طویل حروف والا مرکب لفظ اوپر کی سطر کے الفاظ سے نہیں جڑتا بلکہ ہر سطر کے الفاظ جدا جدا نظر آتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میںرائج اردو کمپوزنگ کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خط یعنی نوری نستعلیق بھی دہلوی طرز نستعلیق ہی میں ہے۔اس کے حروف او ر ترسیموں(Ligatures) کی کتابت یوسف صاحب کے شاگرد منشی نور احمد خوشنویس کے صاحب زادے اور نوری نستعلیق کے بانی احمد مرزا جمیل نے کی تھی۔

یوسف صاحب،فنِ خطاطی کے جس بلند مقام پر پہنچ چکے تھے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ اس حوالے سے آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بہت سے واقعات مشہور ہیں، جن میں سے ےہاں صرف ایک واقعے کا ذکر کیا جاتا ہے جسے ان کے شاگرد ، نسیم الحق عثمانی نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:
"یوسف صاحب جب دہلی بلی ماران کے ایک کوٹھے پر بیٹھتے تو اس وقت کے ممتاز خطاط وہاں روزانہ حاضری دیتے ۔حضرت باقی امروہوی جو نہ صرف بہت اچھے خوشنویس تھے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ، آپ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ سب دوستوں کے مشورے سے باقی صاحب نے یوسف صاحب کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ آج خطاطی کا مقابلہ ہو گا اور جو ہار جائے وہ سب کو بٹیر کھلائے گا۔ یوسف صاحب نے ےہ شرط منظور کر لی اور سب دوست وقتِ معینہ پردریائے جمنا کے کنارے پہنچ گئے۔ سب سے پہلے یوسف نے لکھنا شروع کیا اور مچھلی کے شکار کی چھڑی سے حروف تہجی (ا۔ب۔ ج۔د)لکھنے شروع کر دےے۔ ابھی س۔ ش تک ہی پہنچے تھے کہ کئی فرلانگ کا سفر طے ہو گیا ۔ اس پر سب لوگوں نے کہا کہ خدا کے لیے بس کر و، تم جیتے اور ہم ہارے ۔لےکن یوسف صاحب کا تقاضا تھا کہ نہیں پورے حروف لکھے بغیر نہیںمانوں گا خواہ آگرے تک جانا پڑے اور پھر بڑی منت سماجت کے بعد منشی جی اپنی ضد سے باز آئے اور بعد میں فرمایا کہ اس ریت پر جو حروف میں نے لکھے ہیں اس کی تصویر جہاز کے ذریعے لے لی جائے اور تصویر میں اگر کوئی حرف فنِ خطاطی کے اصولوں کے خلاف ہو تو میں خطاوار"۔

عہد برطانیہ میں جب انگریزوں نے نئی دہلی کے نام سے پرانی دہلی کے نزد ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا تو کئی نئی عمارتوں کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ان سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے دوران ےہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی ماہر خطاط سے ان پر خطاطی کرائی جائے ۔ مشہور ماہر تعمیرات سرہربرٹ ، سر ایڈون لیون اور والٹر جارج نے نئی دہلی کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا تھا۔ بعض عمارات پر متعدد زبانوں میں خطاطی کرنا تھی۔ اس مشکل کام کی خاطر ماہرین تعمیرات کی نظرِ انتخاب صرف اور صرف محمد یوسف دہلوی پر پڑی۔ آپ اس کام کے لیے راضی ہو گئے، چنانچہ انہوں نے نئی دہلی کے وائسریگل لاج ( موجودہ راشٹر پتی بھون) پارلیمنٹ بلڈنگ ،انڈیا گیٹ ،سیکریٹریٹ نارتھ اور ساﺅتھ بلاک پر اپنی خطاطی کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ ان عمارتوں پر آپ نے 31 زبانوں میں خطاطی کی اور محرابوں پر قرآن مجید،بائبل ،تورات ،گیتا، اور دیگر مذہبی کتابوں کی آیات اور اقتباسات تحریر کیے۔ اس کام کی خاطر پتھروں کی کٹائی کے لیے اٹلی کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں تا کہ غلط کٹائی ، خطاطی کو متاثر نہ کرے۔ ےہ کام ابھی جاری تھا کہ انگریز چیف انجینئر کاتبادلہ ہو گیا۔ نیا چیف انجینئر یوسف صاحب کے مزاج سے ناواقف تھا۔ اس کی کوئی بات آپ کو ناگوار گزری اور وہ اسی وقت کام چھوڑ کر گھر آ گئے۔ بہت کوشش کی گئی ،مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ اس انگریز کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے اعتراف کیا کہ اگر یوسف، اس کام کو مکمل نہیں کریں گے تو کوئی خطاط ایسا نہیں، جو ان کے قلم سے قلم ملا سکے اور بقیہ کام مکمل کر سکے، چنانچہ ےہی ہوا وائسریگل لاج کی جس محراب پر خطاطی کو یوسف صاحب ادھوری چھوڑ کر آئے تھے وہ آج تک ادھوری ہے۔اردو زبان کے نامور محقق مشفق خواجہ مرحوم نے ایک ملاقات کے دوران راقم سے فرمایا تھا کہ دورۂ دہلی کے دوران انھوں نے یوسف صاحب کی ان عمارتوں پر یہ خطاطی دیکھی تھی لیکن اس کی تصویر اتارنا ذرا مشکل کام تھا کیونکہ خطاطی جن پتھروں پر کی گئی ان کا سینہ کاٹ کر خطاطی کے الفا ظ واضح کیے گئے تھے ،اگر خطاطی ابھرواں شکل میں یعنی Embosed ہوتی تو تصویر حاصل کرنا آسان ہوتا۔

قیام پاکستان کے وقت یوسف صاحب دہلی میں تھے۔تقسیم برصغیر کے بعد اندوہناک حالات خصوصاً مسلمانوں کے جانی اور مالی نقصانات کا ان کے حساس دل پر بے حد اثر تھا۔ ادھر پاکستان کی نئی مملکت کے لیے سکّوں اور نوٹوں کی تیاری کے لیے کسی ماہر خطاط کی خدمات درکار تھیں۔اس کام کی خاطر، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پاکستانی ہائی کمشنر مقیم دہلی زاہد حسین کے ذریعے یوسف صاحب کو پیغام بھجوایا ، مگر وہ رضامند نہ ہوئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین(شیخ الجامعہ ،جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی) کو پیغام بھجوایا گیا کہ کسی طرح یہ کام کرائیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ، یوسف صاحب کے مزاج سے واقف تھے ، وہ انھیں کسی طرح جامعہ ملّیہ اسلامیہ جامعہ نگر ، دہلی لے گئے ۔ یہاں یوسف صاحب نے سکوں کے علاوہ ، دو ، پانچ اور دس کے نوٹوں کی تزئین اور خطاطی مکمل کی۔ ابھی پچاس اور سو کے نوٹوں کا کام باقی تھا ۔ایک صبح اچانک یوسف صاحب بقیہ کام چھوڑ کر گھر چلے گئے اور یہ اہم کام ادھورا رہ گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے یوسف صاحب کو دہلی سے لانے اور بقیہ کام مکمل کرانے کی خاطر ان کے کراچی میں مقیم بھتیجے صلاح الدین صاحب سے رابطہ کیا گیا چنانچہ 1952ء میں آپ کے بھتیجے،صلاح الدین صاحب کراچی سے دہلی پہنچے اور کسی بہانے آپ کو دہلی سے کراچی لے آئے۔ یہاں پہنچ کر یوسف صاحب نے پہلے مکلی (ٹھٹہ) اور حیدرآباد کے کتبوں کا مطالعہ کیا ،اس کے بعد سکوں کے لیے طغرے ، خطاطی اور پچاس اور سو کے نوٹوں کا بقیہ کام بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے سے مکمل کیا۔ اس کام کی تکمیل کے بعدجب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک صاحب نوٹوں او ر سکوں پر خطاطی کے معاوضے کا چیک لے کر آئے تو یوسف صاحب نے چیک لینے سے انکار کر دیا چنانچہ یہ چیک ان کے بھتیجے علاءالدین خالد مرحوم نے وصول کیا۔

یوسف صاحب فن کی جس بلندی پر پہنچ چکے تھے ، وہاں سیم و زر کی چمک ماند پر جاتی ہے۔وہ صحیح معنوں میں اپنے فن میں غرق ہو چکے تھے اور ظاہری لباس اور خورد و نوش تک سے بے پروا ہو چکے تھے۔ایک عام آدمی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ انتہائی سادہ لباس میں ملبوس یہ بزرگ کتنے بڑے خطاط ہیں۔ جن جن لوگوں نے یوسف صاحب سے ملاقات کی وہ آج بھی ان کے دل چسپ اور عجیب و غریب واقعات بیان کرتے ہیں۔یوں سمجھیں کہ یوسف صاحب اس دنیا کے نہیں کسی اور ہی دنیا کے فرد لگتے تھے ۔بڑے سے بڑے حکومتی عہدے دار یا مال دار شخص کو بھی وہ خطاطی کا کام کرنے سے انکار کر دیتے یا طویل عرصے تک ٹالتے رہتے جبکہ غریب اور عام افراد کا م بلا معاوضہ اور فوری طور پر کر دیتے ۔بس شرط یہ تھی کہ کام کرانے والا یوسف صاحب کا مزاج شناس ہو۔اس طرح کے بہت سے واقعات راقم نے مختلف حضرات سے سن کر قلم بند کیے ہوئے ہیں جن میں سے چند واقعات اس مضمون کے آخر میں ہم بیان کریں گے۔

دنیا کے عظیم فن کاروں کی طرح یوسف صاحب بھی انتہائی حساس دل کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی بیواﺅں ، یتیموںاورغریبوںکے مستقل وظائف باندھ رکھے تھے۔انسانی ہمدردی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے بلکہ حتی المقدور اس کی مدد کرتے۔راہ چلتے اگر وہ کسی بورڈ نویس کو نستعلیق کی کوئی عبارت لکھتے ہوئے دیکھتے تو فوراً اسے روک دیتے اور بورڈ پر چاک سے اسی عبارت کو نہایت خوبصورت انداز سے لکھتے اورپھر اس سے کہتے کہ اس میںرنگ بھر دو۔رنگ آمیز ی میں بھی یوسف صاحب اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خوبصورت اور جاذب نظر رنگوں کا انتخاب کرتے اور اس بورڈ کو ایک شاہ پارہ بنا دیتے تھے ۔اب تو شہر کراچی ایک دو بورڈوں کے علاوہ یوسف صاحب کی خطاطی کے ان شاہ کاروں سے محروم ہو چکا ہے لیکن ایک زمانے میں ان کے لکھے بورڈ ہر گزرنے والی کی توجہ اپنی جانب کھینچتے تھے ۔یوسف صاحب اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت کرتے کہ حروف و الفاظ کو مردہ نہ سمجھو بلکہ یہ زندہ ہیں اور انسان سے باتیں کرتے ہیں۔اگر کوئی لفظ اصول و قواعد کے خلاف لکھا جائے تو وہ لفظ ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اور اگر کسی لفظ کو خوش خط لکھا جائے تووہ اپنے خوشی کا اظہار کرتا ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ تم ان سے گفتگو کی صلاحیت نہیں رکھتے اور جب ان سے گفتگو کے قابل ہو جاﺅ گے تو وہ تم سے باتیں کریں گے۔ یوسف صاحب کی مستقل عادت تھی کہ اگرراہ میں کوئی پتھر دےکھتے تو اسے اٹھا کر ایک طرف رکھتے خواہ پتھر کتنا ہی بھاری ہوتا۔ دہلی میں قیام کے دوران وہ اکثر شکار پر بھی جاتے ،مگر دورانِ شکار کسی ساتھی کو مور اور دوسرے چھوٹے اورخوبصورت پرندوں کا شکار نہ کرنے دیتے ، اگر کوئی ایسا کرتا تو خفا ہو جاتے ۔ دہلی میں وہ فٹ بال کے بھی شوقین تھے، اچھے فٹ بالر تھے۔ آپ کا ینگ میں کلب ، دہلی سے ہمیشہ تعلق رہا۔

1952ء میں دہلی سے کراچی آمد کے بعد محمد یوسف دہلوی بہادر شاہ ظفر کی دہلی سے منتقل ہو کر بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ ) کراچی کی بہادر شاہ مارکیٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اقامت گزیں ہو گئے تھے۔اسی کمرے میں نہ صرف وہ خطاطی کے خوبصورت نوادر تیار کرتے بلکہ شاگردوں کو فن خطاطی کی تعلیم بھی دیتے۔اسی سادہ سے کمرے میں اس عہد کے بہت سے مشاہیر یوسف صاحب سے خطاطی کا کام کرانے یا ان کی دلچسپ گفتگو سننے آتے تھے۔ان مشاہیر میں زیڈ اے بخاری،ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،مولانا ماہر القادری ،ڈاکٹر الیاس عشقی کے علاوہ معروف خطاط سیّد نفیس الحسینی اور حافظ محمد یوسف سدیدی شامل تھے۔اسی کمرے میں انہوں نے اردو اکیڈمی سندھ،تعلیمی مرکزکراچی،اردو مرکز لاہور،دار الاشاعت اور بعض دیگر اداروں کی کئی مطبوعات کے خوبصورت سر ورق تیار کیے۔کتب و رسائل کے یہ خوبصورت ٹائٹل آج بھی مختلف کتب خانوں میں نظر آتے ہیں اور اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے توان میں یوسف صاحب کی وہ تخلیقی صلاحیتیں نظر آتی ہیں جن میں اس مخصوص شعبے میں ان کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔کاش کوئی باہمت انسان ان خوبصورت ٹائٹلوں پر تحقیقی کام کرے تو ان کے فن کے بہت سے ایسے گوشے سامنے آئیں گے جن سے آج ہم ناواقف ہیں۔یوسف صاحب نے گورنر جنرل ہاﺅس ( موجودہ گورنر ہاﺅ س کراچی ) میں بھی خطاطی کی تھی۔

انہوں نے اپنی طویل فنی زندگی میں بے شمار فنی آثاریاد گار چھوڑے ، جن میں سے چند یہ ہیں:
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی جامع مسجد پر کتبہ ، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے مونو گرام ، رسالہ "شمع" دہلی ،رسالہ"ساقی" دہلی،ساقی کراچی اورندوہ لمصنفین کا رسالہ" برہان " دہلی کی الواح ، کتاب خانہء عزیزیہ اردو بازار دہلی کا بورڈ ۔
اس کے علاوہ کراچی میں دیواروں اور سائن بورڈوں پر کاموں میں برنس روڈ پر شفیق الدین گھڑی ساز کا بورڈ ، صدر میں چوہدری فرزند علی قلفی مرچنٹ کا بورڈ ، بولٹن مارکیٹ میں جوبلی کلاتھ ہاﺅس کا بورڈ ، اردو بازا ر کراچی میں ایچ ایم سعید کمپنی اور قرآن محل کے لیے دیوار پر خطاطی اور ارد و اکیڈمی سندھ کا سائن بورڈ،حبیب بینک لمیٹڈ کے بورڈوں کے لیے خطاطی ،صدر کراچی میںمحبوب مارکیٹ کا بورڈ نیز انا رکلی بازار ، لاہور میں ہمدرد دواخانہ کا بورڈ۔
ان میں سے باقی ماندہ بورڈ آج بھی اس عظیم خطاط کی یاد دلاتے ہیں۔اسی طرح یوسف صاحب کے لکھے سنگ مر مر کے پتھر بھی ان کی خطاطی کے شاہکار تھے ۔
ان پتھروں میں نشتر روڈ کراچی پر 'شو مارکیٹ' کے علاوہ معروف ادیب شاہد احمد دہلوی ، اہلیہ زیڈ اے بخاری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں متعدد قبروں کی الواح مزار بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ یوسف صاحب کا ہر کام اس قدر اعلیٰ پائے کا ہوتا تھا کہ ان کے لکھے ہر نمونہ خط کی مفصل وضاحت کی جا سکتی ہے ۔مثال کے طور پر معروف فلمی و ادبی رسالہ شمع دہلی کی لوح کو ہی لیں۔اس لوح کو یوسف صاحب نے 8391ءمیں قیام دہلی کے دوران لکھا تھا ۔اگر کوئی اور خطاط ہوتا تو شمع اسی طرح لکھتا جیسا کہ یہاں آپ کو کمپوزنگ میں نظر آرہا ہے یعنی شمع کی ع کو اصل شکل میں نہیں لکھتا لیکن یہ ان کا کما ل ہے کہ ع کو اس کی اصل شکل میں لکھا اور م اور ع کو آپس میں اس عمدگی سے منسلک کیا کہ جس کی تعریف الفاظ میں کرنا ممکن نہیں۔شمع کی یہ لوح ابتدا سے اس وقت تک جب تک شمع زندہ رہا یوسف صاحب کے قلم کی ہی لگائی گئی ۔اتفاق سے شمع کے بانی کا نام بھی محمد یوسف دہلوی تھا۔بانی شمع کے انتقا ل کے بعد ان کی یاد میں شمع کا خصوصی شمارہ شائع ہوا تھا جس میں سلامت علی مہدی کا مضمون شائع ہوا تھا ۔اس مضمون میں بھی ذکر تھا کہ شمع کی لوح محمد یوسف دہلوی ہی نے لکھی تھی۔

11 مارچ 1977ء کو یوسف صاحب اورنگ زیب پارک نزد اردو بازار سے ایم اے جناح روڈ پار کررہے تھے کہ ایک جان لیواحادثے سے دوچار ہو گئے۔ یوسف صاحب کو ایک موٹر نے ٹکر مارد ی تھی اور ان کا نحیف و نزار جسم یہ برداشت نہ کر سکا۔ یہ حادثہ جان لیوا ثابت ہوا اورسول اسپتال کراچی میں دنیائے خطاطی کا یہ عظیم فرد خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ تدفین سخی حسن، کراچی کے قبرستان میں ہوئی۔
عجیب بات ہے کہ یوسف صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بھتیجے علاءالدین خالد کو وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر پر کتبہ نہیں نصب کیا جائے چنانچہ ان کی قبر بے کتبہ رہی اوراب ان کی قبر کا کوئی نشان بھی موجود نہیں۔ لیکن ان کی خطاطی کے نمونے تقریباً ہر اہم کتب خانے میں کتب و رسائل کے ٹائٹلوں کی شکل میں محفوظ ہیں۔ آج دنیا میں خطاط تو بہت سے ہیں مگر افسوس!دنیائے فن کے اس یوسفِ گم گشتہ کی طرح لکھنے والا کوئی نہیں ۔یوسف صاحب کے انتقال کے دوسرے روز معروف شاعر جناب قمر ہاشمی نے آپ کے بارے میںایک نظم لکھی جس میں آپ کے فنی مقام اور آپ کی عادات و خصائل کا ذکر اس طرح کیا تھا:

فغاں کہ حرف کو بخشی تھی اس نے رعنائی
دےا تھا لفظ کو آئینہءخود آرائی
جمالِ نقطہ و تزئینِ دائرہ اس سے
نظر فروز ہمیشہ تھے یوسفی طغرے
بجا ےہ رمز کہ وعدوں کی تھی کجی اس میں
عجیب مردِ قلندر کی تھی خودی اس میں
ادائے مہر میں بھی خوئے کج ادائی تھی
گزیز پائی میں بھی رسمِ آشنائی تھی
وہ بے نیاز تھا لیکن امامِ فن بھی تھا
وہ پاک باز تھا دلّی کا بانکپن بھی تھا
کرے گا تربتِ یوسف کی لوح کون رقم
صریرِ خامہ سے اٹھی ہے شورشِ ماتم

ان سطور کا عاجز راقم گزشتہ تین دہائیوں سے یوسف صاحب کے فنی نوادر اور ان کے احوال و آثار جمع کر رہا ہے۔ اس دوران ان کی مجلس میں بیٹھنے والوں سے ان کے بہت سے واقعات قلم بند کر چکا ہوں جن سے ان کی فن خطاطی میں حیرت انگیز صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان شاءاللہ ان کے احوال اور ان کے نوادر خطاطی پر مشتمل ایک جامع کتاب ترتیب دینے اور اسے شائع کرانے کا ارادہ ہے۔یوسف صاحب کے انھی واقعات میں سے چند قارئین ِاخبار ِاردو کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

1۔یوسف صاحب کے ایک شاگرد اور کراچی کے معروف کتبہ نگار شاہد حسن الوری مرحوم نے راقم سے بیان کیا کہ 1968ء میں کراچی کے پولو گراﺅنڈ میں حکومت کی جانب سے ایک بہت بڑے سائز کا بورڈ لگانے کا پروگرام بنا جس پر 'پاکستان زندہ باد' کے الفاظ خط نستعلیق میں لکھنے تھے ۔یہ بورڈ لکھنے کے لیے یوسف صاحب سے درخواست کی گئی۔وہ شاہد صاحب کو لے کر مذکورہ مقام پر پہنچے جہاں یہ طویل و عریض بورڈ سادہ حالت میںموجود تھا ۔یوسف صاحب نے ایک نظر بورڈ کے طول و عرض پر ڈالی اور شاہد صاحب سے کہا کہ ایک لکڑی سامنے والے درخت سے توڑ کر لاﺅ اور 31 انچ کے فاصلے سے دو پنسلیں لکڑی کے ساتھ باندھ دو۔دوسرے الفاظ میں انھوں نے مذکورہ عبارت کے لیے بورڈ کے سائز کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ جو الفاظ لکھیں گے ان میں 31انچ کا قط استعمال ہوگا۔اس کے بعد یوسف صاحب نے یہ الفاظ جس طریقے اور جس سلیقے سے لکھے اس سے ان کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔اگر کوئی اور خطاط ہوتا تو عبارت کا آغاز حرف 'پ ' سے کرتا لیکن یوسف صاحب نے سب سے پہلے پورے بورڈ کے مرکزکا نشان لگایا اور اس میں 31 انچ کے قط کاایک نقطہ لگایا ،اب اس نقطے کے مرکز میں اپنی داہنی ایڑی رکھی اور پنسلوں کو بورڈ پر رکھ کر ایک خاص انداز سے گھومے جس سے حرف 'ن' کی شکل بن گئی گویا انھوں نے پورے بورڈ کے مرکز میں سب سے پہلے نون کانقطہ لگایا اور اس کے گرد دائرہ ۔اب اس نون کے دونوں جانب برابر جگہ میں بقیہ عبارت یعنی داہنی جانب 'پاکستا' اور بائیں جانب 'زندہ باد 'لکھی اور شاگرد سے کہا کہ اسے مکمل کر دو۔بعد میں اس بورڈ پر بلب نصب کیے گئے۔

2۔ ڈاکٹر الیاس عشقی نے ایک موقع پر راقم سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ یوسف صاحب نے ان سے فرمایا کہ انھوں نے فن خطاطی میں مہارت کے حصول کی خاطر ایک ایک حرف پر مہینوں نہیں برسوں محنت کی ہے۔اس کے بعد فرمایا کہ جتنی مرتبہ لکھوادو مجال ہے کسی دائرے ،کشش یا شوشے میں فرق نظر آئے نیز اگر آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی لکھوالیا جائے تو وہ بھی ایسا ہی ہوگا جیسا بغیر پٹی کے لکھا ہوا۔

3۔ڈاکٹر الیاس عشقی مرحوم نے ایک ملاقات کے دوران راقم سے فرمایا تھا کہ ضعیفی کے عالم میں بھی یوسف صاحب جب کاغذ پر لکھتے تو ہاتھ ہلتا نہ تھا بلکہ یوں لگتا جیسے لوہے کے ہاتھ سے لکھ رہے ہوں۔

4۔یوسف صاحب کے شاگرد عبدالرﺅف مرحوم نے ایک موقع پر راقم سے بیان کیا کہ یوسف صاحب کسی کو لکھتے ہوئے دیکھتے تو اگر وہ اصول و قواعد کے خلاف لکھ رہا ہوتا تو برداشت نہیں کر سکتے تھے او ر اسے فوراً روک کر خود لکھ کر بتا تے کہ یوں لکھو۔سڑک پر چلتے ہوئے اگر وہ کسی پینٹر کو بورڈ لکھتے ہوئے دیکھتے تو اسے فوراً روک دیتے اور کچھ دیر تک کاغذ پر لکھی عبارت اور بورڈ کو باری باری غور سے دیکھتے ۔یوں لگتا کہ وہ اپنے ذہن میں عبارت کی سیٹنگ کر رہے ہوں جسے بورڈ پر منتقل کرنا ہوتا۔اس کے بعد چاک ہاتھ میں لیتے اوربڑی تیز رفتاری سے پوری عبارت کاغذ سے بورڈ پر منتقل کر دیتے اور پینٹر سے کہتے :اب اس میں فلانا رنگ بھر دو۔اس کے بعد یہ بورڈ ایک شاہکار بن جاتا۔ایک مرتبہ ایک صاحب نے یوسف صاحب سے پوچھا کہ اتنے لوگوں کو بورڈ کیوں لکھ کر دیتے ہیں اور کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتے؟یوسف صاحب نے انھیں جواب دیا کہ جب شہر میں خوبصورت خطاطی میں بورڈ نظر آئیں گے تو شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگااور لوگ جب خوبصورت خطاطی کو دیکھیں گے تو ان کا ذوق بلند ہوگااور یہی میرا اصل مقصد ہے۔

5۔عبدالرﺅف صاحب نے ایک اور موقع پر راقم سے فرمایا تھا کہ ایک روپے والے سکّے کے ایک طرف 'حکومت پاکستان'ترکی طغرے کی طرز میں لکھا ہوا نظر آتا تھا۔یہ الفاظ لکھوانے لیاقت علی خان کے بیٹے ولایت علی خان آتے تھے ۔یوسف صاحب اپنے ہی مزاج کے آدمی تھے چنانچہ چھ ماہ تک انھیں اپنی دلچسپ باتیں سنا کراور بار بار چائے پلا کر ٹالتے رہے اور چھ ماہ کے بعد 'حکومت ِ پاکستان' طغرے کی شکل میں لکھ کر دیا۔جب ولایت علی خان نے معاوضہ دینا چاہا تولینے سے انکار کر دیا ۔ان کے اصرار پر بہ مشکل صرف بیس روپے لیے۔اس کے بعد یوسف صاحب کاغذ قلم لے کر کچھ حساب کرنے لگے ۔جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ چھ ماہ کے دوران ہم نے ایک سو ساٹھ روپے کی چائے پلائی اور رقم ہمارے پاس بیس روپے کی آئی۔

6۔عبدالرﺅف صاحب نے ایک اور موقع پر راقم سے فرمایا تھا کہ بہادر شاہ مارکیٹ کے جس کمرے میں یوسف صاحب بیٹھتے تھے اس کا پچھلا حصہ فرش سے چھت تک کاغذات سے بھر چکا تھا ۔ان کاغذات میں کئی نادر و نایاب کتب کے علاوہ فنی نوادر ہوتے ۔دراصل یوسف صاحب ردی والوں سے نادر و نایاب کتب اور فنی نوادرحاصل کر کے انھیں اپنے کمرے میں جمع کرتے تھے۔ان کی یاد داشت کا یہ عالم تھا کہ شاگرد کو کہتے کہ فلانی ڈھیری میں اتنی کتابیں چھوڑ کر اس کتاب کو لے آﺅ ۔پھربغیر دیکھے یہ بتاتے تھے کہ اس کتاب کے فلانے صفحے پر فلانا ڈیزائن ہے اسے استعمال کرو۔

آخر میں ہم یوسف صاحب کی خطاطی کے تین نوادر پیش کریں گے جن کے سرسری مطالعے سے ہی یہ ظاہر ہوگا کہ وہ تمام عمر خط نستعلیق میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں مگن رہے اور اس خط میں وہ وہ خوبصورت اصلاحات کیں جو کسی اور خطاط نے نہیں کیں۔پہلا نمونہ 1936ء کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے حضرت شیخ سعدیؒ کی فارسی رباعی اپنے قدیمی طرز نستعلیق میں لکھی ہے جس میں دائرے قمری ہیں اور کششیں قدیمی طرز میں ہیں۔اس نمونے میں شانِ خط میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔نمونہ نمبر 2بھی حضرت شیخ سعدی ؒ کی ایک نعتیہ رباعی ہے جس پر کوئی سنہ نہیں لکھا لیکن یوسف صاحب کے فنی ارتقا سے واقف حضرات اور ان کے شاگردوں کا خیال ہے کہ انھوں نے یہ نمونہ قیام دہلی کے آخری دور میں لکھا۔اس نمونے میں بھی دائرے قمری ہیں لیکن شانِ خط اور دائروں ،شوشوں اور کششوں کا حسن بہت بڑھ گیا ہے اور اوپر تلے مصرعوں میں کششوں کا توازن بہت خوب ہے۔اس رباعی کو یوسف صاحب نے اس قدر خوبصورت انداز سے لکھا کہ بار بار دیکھنے سے بھی سیری نہیں ہوتی۔ ایک ملاقات کے دوران راقم سے یوسف صاحب کے بھتیجے علاءالدین خالد مرحوم نے بیان کیا تھا کہ اس رباعی کو لکھتے وقت یوسف صاحب نے ایک نیا تجربہ کیا تھا جس میںو ہ کامیاب رہے۔انھوں نے کیا یہ کہ پہلے ایک مخصوص روشنائی سے سفید آرٹ کارڈ پر یہ رباعی مکمل حالت میں لکھی،پھر اس پورے کارڈ پر برش سے ایک مخصوص سیاہی پھیر دی۔جب یہ سیاہی خشک ہو گئی تو یوسف صاحب نے برف کی ڈلی اس کارڈپراس انداز سے پھیری کہ تمام الفاظ سفید نظر آنے لگے ۔اب اس کارڈ کو انھوں نے خشک کر لیا جس کے بعد فن خطاطی کا یہ شاہکار وجود میں آیا۔نمونہ نمبر3،ابو مسلم صحافی کی ایک اردو نعتیہ رباعی ہے جسے یوسف صاحب نے 1962ء میں اس طرح لکھا تھا کہ سب سے پہلے کاغذ پر ایک پنسل سے الفاظ لکھے ۔اس کے بعدالفاظ کو چھوڑ کر بقیہ تمام کاغذ کوبرش اور سیاہی کی مدد سے سیاہ کر دیا تھا جس سے سفید الفاظ ابھر کر سامنے آگئے۔یہ رباعی انھوں نے کتاب 'ہماری مصوری ' میں شمولیت کی خاطر اپنے بھتیجے علاءالدین خالد (مالک اردو اکیڈمی سندھ ، کراچی)کی فرمائش پر لکھی تھی۔اس رباعی کی خطاطی گویا ان کے فنی سفر کا بلند ترین مقام تھا۔اس میں انھوں نے نہ صرف دائرے شمسی طرز کے لکھے ہیں بلکہ رباعی کے اوپر تلے مصرعوں میں ایک ایسی فنی خوبی پیدا کی ہے جو کسی اور خطاط نے نہیں پیدا کی۔اس خوبی کا تعلق دائروں اور کششوں میں خوبصورت توازن سے ہے۔اپنی فنی زندگی کے اس دور میں یوسف صاحب نہ صرف ایک پنسل سے نہایت خوبصورت خطاطی پر قادر ہو چکے تھے بلکہ عبارت کے دائیں بائیں اوراوپر نیچے دائروں اور کششوں میں خوبصورت توازن کامظاہر ہ بھی کر دیتے تھے۔

آخر میں یہ افسوس ناک اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یوسف صاحب کے فنی نوادر کے تحفظ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نوادر بڑی تعداد میں ضائع ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ویسے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں فن خطاطی کی مناسب سرپرستی اور نوادر خطاطی کے تحفظ کے عدم انتظام کی وجہ سے خطاطی کے بہت سے نوادر ضائع ہو چکے ہیں لیکن یوسف صاحب کے تو اسی تا نوّے فیصد نوادر ضائع ہو گئے ۔نہ ان کے بارے میں اب تک کوئی کتاب مرتب کی گئی اور نہ ہی ان کے فنی جواہر پاروں کے تحفظ کا انتظام ہوا۔دیگر نوادر تورہے ایک طرف نوٹوں اور سکوںکے لیے کی گئی خطاطی بھی اب ضائع ہو چکی ہے اور جہاں محفوظ تھی وہاں اب اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔کاش ان کے بقیہ محفوظ نوادر خطاطی پر مشتمل کتاب شائع ہو جائے اور ان کی خطاطی کے یہ شاہکار کتابی شکل میںمحفوظ ہوجائیں۔راقم تین دہائیوں سے یہ نوادر جمع کر رہا ہے ۔اگر قارئین اخبار اردومیں سے کوئی صاحب مزید نوادر فراہم کرسکیں تو راقم ان کاممنون ہوگا اوران شاءاللہ ان کے شکریے کے ساتھ یہ شاملِ کتاب ہوں گے۔

***
بشکریہ:
ماہنامہ "اخبار اردو"، اسلام آباد، شمارہ: دسمبر-جنوری-2018

Mohammad Yusuf Dehlvi, the creator of Dehlvi style of Nastaleeq. Article: Mohammad Rashid Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں