سروجنی نائیڈو - ریاست حیدرآباد کا ایک دمکتا ستارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-11

سروجنی نائیڈو - ریاست حیدرآباد کا ایک دمکتا ستارہ


سروجنی نائیڈو کے شخصی تعارف پر مبنی یہ مختصر و دلچسپ مضمون دکن کے مایہ ناز ادیب نصیر الدین ہاشمی نے آزادی ہند سے قبل سابق ریاست حیدرآباد دکن میں سپرد قلم کیا تھا جو ان کی تصنیف "حیدرآباد کی نسوانی دنیا" (اشاعت: 1944) میں شامل ہے۔

بلبل دکن مسز سروجنی نائیڈو کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کی زندگی کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں۔
مسز سروجنی نائیڈو کے والد ڈاکٹر اگھورناتھ چٹوپادیائے بنگال کے باشندے تھے۔ نواب مختار الملک اول کے زمانہ میں (1877ء) حیدرآباد آئے، حیدرآباد کالج کے پرنسپل بنے، اس کے بعد نظام کالج میں پروفیسر کیمیا کی حیثیت سے برسوں سرکاری خدمت پر مامور رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو حیدرآباد کی ترقی سے خاص دلچسپی تھی۔ آج سے پچاس سال پہلے (1894ء) کی ہر علمی تحریک میں ڈاکٹر صاحب کا عملی حصہ ہوتا تھا۔ حیدرآباد میں مدرسہ نسواں کے قیام کے وہ بانی تھے۔
1879ء میں مسز سروجنی نائیڈو کی ولادت حیدرآباد میں ہوئی۔ اور ابتدائی تعلیم و تربیت بھی یہاں ہی ہوئی۔ اس کے بعد یورپ گئیں اور مدینۃ العلم آکسفورڈ میں شریک ہوئیں، اسی مقام سے آپ کی شاعری کا آغاز ہوا۔ 1898ء میں آپ کی شادی مدراس کے ڈاکٹر نائیڈو سے ہوئی۔ مسز سروجنی کا تعارف دو حیثیتوں سے کرایا جا سکتا ہے: ادیبہ اور سیاسی رہنما۔
جیسا کہ تذکرہ کیا گیا ہے، آپ کی شاعری کا آغاز انگلستان سے ہوا اور اس وقت (1944ء) آپ ایک کہنہ مشق شاعرہ ہیں۔ اب تک آپ کی نظموں کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں:
  • طلائی آستانہ [The Golden Threshold]
  • طائر وقت [The Bird of Time]
  • شکستہ پر [The Broken Wing]
ان نظموں کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے مشرقی خیالات، مشرقی جذبات کا مغربی لباس اور مغربی رنگ میں اظہار ہوتا ہے۔ کبھی آپ کے مغربی مےکدہ میں شیراز کی مے دوآشتہ جھلک دیتی ہے۔ آپ کی نظموں میں حب الوطنی، انسانی ہمدردی، شفقت مادری اور دورِ قومی کے ایسے ایسے انمول نگینے نظر آتے ہیں، جن کی درخشانی اور تابناکی دیکھنے والوں کو متعجب و متحیر کر دیتی ہے۔ ان نظموں میں ایک طرف موذن کی اذاں ، پجاری کی بھجن کا ترانہ گایا گیا ہے تو دوسری طرف کہاروں کے گانے، پالکی بردار کے گیت، فقیر کی صدا، سنگترہ بیچنے والی کی آواز کو بھی لطیف اور پاکیزہ مضمون کی صورت میں بدل دیا ہے۔

شاعری کی طرح آپ کی نثر بھی فصاحت و بلاغت آمیز ہوتی ہے۔ اس کی روانی، رنگینی اور خیالات کی ندرت قابل داد ہوتی ہے۔
مسز سروجنی کو بحیثیت مقررہ پیش کرنا ضروری ہے۔ آپ نہ صرف ایک جادو بیان شاعرہ ہیں بلکہ فصیح و بلیغ مقررہ بھی ہیں۔ آپ تقریر نہیں کرتیں بلکہ روانی، تسلسل اور زورِ بیاں کا دریا بہا دیتی ہیں۔ الفاظ کی آمد، بیان کی سلاست، آواز کا ترنم ایک سیلاب ہوتا تھا، جو دلوں میں طوفان برپا کر دیتا ہے۔ انگریزی خطابت کے پورے گر آپ کو معلوم ہیں۔ آپ صرف حیدرآباد ہی کی نہیں بلکہ سارے ہندوستان کی ایسی خاتون ہیں جنہوں نے امریکہ اور انگلستان میں تقریر کر کے اہل زبان سے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔
اس بلبلِ دکن کی خوش نوئی اور جادوبیانی نے تحسین اور آفرین کے صدہا تمغے حاصل کیے ہیں۔ مسز سروجنی کی تقریر ایسی موثر ہوتی ہے کہ جو اصحاب انگریزی سے واقف نہیں ہوتے ان پر بھی آپ کی روانی اور اسلوب بیان کا خاص اثر ہوتا ہے۔ آپ کبھی کبھی اردو میں بھی تقریر کرتی ہیں جو دلچسپی میں انگریزی سے کم نہیں ہوتی۔

مسز سروجنی کی سیاسی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ آپ کل ہند کانگریس کی روح رواں ہیں، اس کی صدارت کر چکی ہیں، عرصہ دراز سے اس کی انتظامی کمیٹی کی رکن ہیں۔ کئی مرتبہ سیاسی قیدی کی حیثیت سے اسیر فرنگ ہو چکی ہیں۔ آپ کا مسلک یہ ہے کہ ہندو اور مسلم باہم اتفاق کریں اور اس اتحاد و اتفاق سے ہندوستان کی حکومت کی جائے۔
مسز سروجنی کو عورتوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی سے بھی دلچسپی ہے، وہ نہ صرف عورتوں کو گھر کی چار دیواری کے اندر آزاد دیکھنے کی متمنی ہیں، بلکہ حکومت میں حصہ دار سیاست میں دخیل ہونے کی آرزو رکھتی ہیں اور اسی کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ آپ کو سیر و سیاحت، مہمان نوازی وغیرہ کا بڑا شوق ہے اور دنیا کی بڑی بڑی ہستیوں کی مہمان نوازی کا امتیاز حاصل ہے۔

***
ماخوذ از کتاب:
حیدرآباد کی نسوانی دنیا (مصنف: نصیر الدین ہاشمی، اشاعت: 1944)

Sarojini Naidu, the nightingale of India.

1 تبصرہ:

  1. بہت اچھا مضمون ہے۔ مگر مختصر ہے۔ تشنگی رہ گئی۔ کاش ان کے اسلوب پر مزید بات کی جاتی۔ نسائی لب و لہجے کو موضوع بنا کر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے کلام کے مجموعے عام طور پر دست یاب نہیں ہیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شاعری اور شعور دونوں کی آمیزش سے بھر پور کام لیا ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں