معاشرے میں استاد کا بلند و اعلیٰ مقام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-05

معاشرے میں استاد کا بلند و اعلیٰ مقام

highest position of Teacher in the society

ہمارے ملک ہندوستان میں یوم اساتذہ 5/ستمبر کو منایا جاتا ہے جبکہ عالمی تنظیم یونیسکو کی جانب سے ورلڈ ٹیچرس ڈ ے 5/اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ ہندوستان میں "یوم اساتذہ" جناب سروے پلی رادھا کرشنن [Sarvepalli Radhakrishnan] کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے۔ یہ اعزاز ان کو اس لیے دیا گیا کہ وہ بنیادی طور پر ایک ٹیچر تھے اور اپنی محنت لگن کی وجہ سے ملک کے جلیل القدر عہدہ صدارت تک پہنچ گئے۔ ان کی محنت کو سراہنے کے لیے جب اس وقت کی حکومت نے ان کو اعزاز کی پیشکش کی تو انہوں نے خواہش کی کہ یہ اعزاز اساتذہ کے نام کر دیا جائے جو قوم و نسل کو باصلاحیت بنانے میں اپنی زندگی لگا دیتے ہیں۔ چنانچہ انہی کی خواہش پر ان کے یوم پیدائش کو "یوم اساتذہ" منانے کا سرکاری اعلان کیا گیا جو ساری اساتذہ برادری کے لیے ایک عظیم اعزاز ہے!

ایک ٹیچر، استاد یا معلم معاشرہ میں باپ یعنی والد کا مقام رکھتا ہے۔ یہاں ہر استاد کو یہ محسوس کرنا اور ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان کا مقام سماج میں کتنا بلند و برتر ہے۔ جیسا ایک باپ اپنی اولاد کی تربیت و حفاظت اور اس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات، موسم اور حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنی جان، صلاحیت اور مال کو داؤ پر لگاتا ہے اسی طرح ایک استاد کو اپنے طلبا کو علمی اور تربیتی طور پر باصلاحیت اور قابل بنانے کے لیے محنت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگرچیکہ دوسرے پیشوں کے مقابل مالی اعتبار سے کم معاوضہ ملتا ہو۔

ایک استاد یا معلم کو مکمل استاد بننے کے لیے تعلیمی ڈگریاں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر توجہ دیتے ہوئے اپنے لباس، اپنی گفتگو، اپنے راستہ چلنے کا ڈھنگ، تنہا ہو یا محفل میں بیٹھنے اٹھنے کا سلیقہ، اپنے چھوٹوں اور بڑوں سے برتاؤ کا سلیقہ، اپنے شاگردوں اور ان کے سرپرستوں سے میل ملاپ کا ڈھنگ، اپنے عہدیداروں یعنی انتظامیہ کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا، گرچہ کوئی بات دل پر ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ پہلے ان امور کی خود تربیت حاصل کرے یا پھر معلم بنتے ہوئے خود کی عملی زندگی سے ان کو حاصل کرے۔ تب کہیں جا کر ایک تربیت یافتہ استاد کی شکل میں ڈھل پائیں گے جس کا فی زمانہ فقدان ہے، ورنہ کتابی و سندی ٹیچر تک محدود ہوکر رہ جائیں گے، جن کا احترام شاید عملی طور پر محال ہے۔

"سورج بننا ہو تو پہلے خود کو روشن کریں"
علم کاحاصل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا ایک "عبادت" سے کم نہیں، اسی لیے ایک ٹیچر کا معاشرہ میں بہت بلند مقام ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ اگر یوں کہا جائے تو زیادتی نہ ہوگی کہ تدریس کے عمل سے آخرت کی زندگی کی کامیابی کی ضمانت بھی ہوگی۔
مگر افسوس بے حد افسوس کہ موجودہ دور کے چند ایک اساتذہ تدریس کے پیشہ کو صرف اور صرف کمائی کا ذریعہ سمجھ کر اس کو اپنا رہے ہیں جو ایک کمزور ذہن اور مادہ پرستی کی علامت ہے۔ اس امر کا ذکر انتہائی افسوس کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے کہ چند ایک اساتذہ نصاب کی بروقت تکمیل میں لاپروائی اور معمولی ضروریات پر طویل رخصت کا استعمال کرتے ہیں۔ ونیز اسکولوں و مدارس کے طلبا و طالبات کے ساتھ جھوئی ہمدردی و مدد کی آڑ میں وحشیانہ برتاؤ کرتے ہوئے ان کا جنسی استحصال تک کرنے کی جرات کر بیٹھے ہیں، جس کا انکشاف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے کیا ہے۔
یقین مانئے کہ مذکورہ وحشیانہ حرکات قیامت تک پیشہ تدریس کے "محترم" ہونے کو رتی برابر متاثر نہیں کر سکتے، بلکہ مجرمانہ کردار کے حامل اساتذہ اپنے آپ کو ذلت کی کھائی میں ڈھکیل رہے ہیں۔

لہذا شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ برادری اپنے تدریسی پیشہ کی محترم صفت کو دل و دماغ میں محسوس کرے اور شیطانی وسوسہ و حرکات سے خود کو اور معاشرہ کو محفوظ رکھیں، ورنہ دور حاضر کی نسل اور سرپرست بلکہ معاشرہ کے ہر فرد کے ذہن میں استاد و معلم کے متعلق نفرت پیدا ہوگی اور نتیجتاً پیشہ تدریس بھی اس کا شکار ہوگا۔
جبکہ ابتدائے دنیا سے لے کر آج تک ایک معلم و استاد کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے بلکہ ہر طالب علم اپنے استاد کے آگے سر خم کر دیتا ہے اگرچیکہ وہ طالب علم وقت کا سکندر ہو یا کسی ملک کے صدارتی منصب پر ہی کیوں نہ فائز ہو۔
یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ایک طالب علم اپنے استاد کو سیلوٹ یا سلامی دیتے ہوئے اس کی تعظیم کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اور موجودہ ریاستی و مرکزی حکومتوں کو چاہیے کہ مذکورہ بالا مجرمانہ و درندہ صفت افراد کی سوچ و حرکات پر کڑی سے کڑی نظر رکھیں اور ایسے مجرمین کے خلاف سخت سے سخت قانون اور سزائیں مرتب کریں تاکہ اس طرح کے معیوب افکار و اعمال تعلیمی اداروں کی فضا کو آلودہ نہ کر سکیں۔

عظمتیں پاؤگے کردار و عمل سے اپنے
صرف استاد کی سند سے عظمت نہیں ملنے والی

بشکریہ: روزنامہ "راشٹریہ سہارا" ، حیدرآباد
شمارہ: 5/ستمبر 2019

The highest position of Teacher in the society. Essay: S. M. Arif Hussain.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں