ڈاکٹر سید محمود 1889ء میں غازی پور کے ایک گاؤں سیدپور بھیتری میں پیدا ہوئے۔ ان کے اسلاف میں بندگی شاہ جمال میاں اور شاہ محمود نمایاں شخصیتیں ہیں جو اکبر بادشاہ سے پہلے ہندوستان آئے تھے۔ ڈاکٹر سید محمود نے جونپور میں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کیے پھر علی گڑھ چلے آئے جہاں سر راس مسعود کے درجہ میں ہی ان کا داخلہ ہوا اور موصوف سے ان کی خاصی گہری دوستی ہو گئی۔ تصدق حسین شروانی اور عبدالرحمٰن بجنوری بھی ان کے ہم جماعت تھے۔ سید محمود 1907ء میں علی گڑھ میں تعلیم کی تکمیل کے بعد انگلینڈ گئے اور کیمبرج میں دو سال قیام کر کے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ پھر وہاں سے ایک جرمن پروفیسر کے آمادہ کرنے پر جرمنی گئے اور وہاں سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی، جس کا موضوع تحقیق تھا: "مغلوں کا سیاسی نظم و نسق"۔
یورپ سے واپسی پر سید محمود بانکی پور (بہار) میں مقیم ہوئے اور آٹھ نو سال خوب وکالت کی۔ 1914 میں سید محمود آل انڈیا کانگریس کے باضابطہ ممبر بن گئے۔ جس زمانے میں پنڈت نہرو کے والد موتی لال کانگریس کے صدر تھے، اسی دور میں سید محمود کو کانگریس کا جنرل سکریٹری بنا دیا گیا تھا۔ کئی بار موتی لال نہرو کے ساتھ سید محمود کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اور 1941 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے دیگر اراکین کی طرح انہیں بھی احمد نگر کے قلعہ میں قید کیا گیا۔ احمد نگر کی اسی قید کا ذکر مولانا آزاد نے "غبار خاطر" کی حکایت زاغ و بلبل میں کیا ہے کہ سید محمود نے پرندوں سے اپنی غیرمعمولی دلچسپی کے سبب جیل کی چڑیوں کو روٹی کے ٹکڑے کھلا کھلا کر خاصا شوخ بنا دیا تھا۔
ڈاکٹر محمود کا خیال تھا کہ سیاست کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ الیکشن میں حصہ لیا جائے۔ اقتصادی، تعلیمی و سماجی حالات کی اصلاح کو لوگ سیاست نہیں سمجھتے۔ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان ہریجن ہوتے جا رہے ہیں اور انہیں سماجی حیثیت سے سنبھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں کوئی الگ سیاسی پارٹی بنانا مسلمانوں کے لیے مہلک بات ہے، پھر ردعمل کی تھیوری کی روشنی میں سیاست ان کے نزدیک قطعی غلط بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملہ میں علامہ اقبال سے مختلف خیالات کے حامل تھے۔ علامہ سماجی اصلاح کو قطعاً بےمعنی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک قوموں کے ارتقا کا راز یہ ہے کہ وہ غلبہ و استیلا کے لیے اقتدار کی زمام ہاتھ میں لینے اور امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے جدوجہد کریں۔ سماجی اور تعلیمی اصلاح کے سارے ذرائع تو حکومت کے ہاتھ میں ہیں ، پھر اگر حکومت نہ بدلی جائے اور اس پر قابو نہ حاصل کیا جائے تو کوئی سماجی و تعلیمی اصلاح کا منصوبہ کیوں کر روبہ کار آ سکتا ہے؟ مولانا حسین احمد مدنی کا بھی خیال تھا کہ اسلام غلبہ و استیلا کے لیے آیا۔
سید محمود کا یہ خیال تھا کہ اسلام کے غلبہ و استیلا کی جدوجہد مسلمانوں کے تعلیمی معیار کی بلندی ، اقتصادی استحکام، ملی اتحاد اور سماجی اصلاح سے شروع ہونی چاہئے نہ کہ قوم پرستانہ انداز کی جذباتی کوششوں سے۔ غرض سید محمود مشاورت سے دل برداشتہ ہو گئے۔ ان کا استعفی شائع نہیں کیا گیا اور لوگ یہ کہتے رہے کہ وہ کرسی کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں، مگر اپنی زندگی کی آخری منزلوں میں ان کے جو ولولے اور عزائم تھے وہ خود انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:
(بحوالہ: "دوام" جون، جولائی 1970ء)اس میں شبہ نہیں کہ میں قرون اول کا مسلمان نہیں، سرسید احمد خاں نہیں۔ معمولی دنیاوی آدمی ہوں مگر صحیح اسلامی جذبہ رکھتا ہوں۔ اسی جذبہ نے ہمیشہ مجھے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی لینے اور انھیں حل کرنے پر آمادہ کیا۔ اس وقت اسی جذبہ کی وجہ سے اندر اندر جل رہا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کہاں سے وہ ساتھی لاؤں جو میرے خوابوں میں رنگ بھر سکیں؟ مسلمانوں کے مسئلہ کو نہ آزادی سے پہلے اور نہ ہی آزادی کے بعد میں نے جرأت کے ساتھ پیش کرنے میں کبھی کمزوری دکھائی ہے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے مسائل پیش ہوتے رہتے تھے۔ 1941ء میں اس طرح کی ایک نشست میں آصف علی نے کہا کہ مسلمان نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے شکوہ سنج ہیں، نہرو بگڑ گئے:
"تم مسلمانوں کی کیا تو ہین کر رہے ہو۔ کیا ان کا فقط یہی نقطہ نظر ہے؟"
میں نے کھڑے ہو کر کہا: "مہاتما جی، اس موقع پر مجھے کچھ کہنا ہے۔ میرے خیال میں مسلمانوں کو نوکری وغیرہ کی شکایت نہیں ہے، مسلمان قوم اتنی کاسہ لیس نہیں ہے۔ اس کا یہ دماغ ہے کہ اس نے چھ سات سو سال حکومت کی۔ ملک کو ایک زبان، ایک خوراک، ایک رہن سہن، فن تعمیر اور مصوری دیا اور ہندوؤں سے بہت سی چیزیں لے کر ایک مشترکہ چیز پیش کی۔ حتی کہ مسجدوں کی تعمیر میں ہندوستان کے مخصوص فن تعمیر سے استفادہ کیا مگر اس کے باوجود وہ آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہندو یہ مشترکہ تہذیب چھوڑتا جا رہا ہے اور وہ یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جس کامن چیز نے ان کو ایک دوسرے سے ملایا، اسے ہندو نظرانداز کر رہے ہیں اور اس کی جگہ پر دو ہزار سال پہلے کی چیزیں سامنے لا رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیزیں مفید اور مناسب نہیں ہوں گی۔ کاش وہ مادی تفصیلات کے بجائے پرانی قدروں کو زندہ کرتے تو وہ مسلمانوں سے اور قریب آ جاتے۔ مسلمان جاہلوں اور نادانوں کی قوم تو ہے نہیں۔ کوئی نہ کوئی وجہ رہی ہوگی۔ میرے خیال میں گاندھی جی، آپ ایک سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ایک سماجی لیڈر ہیں۔ آپ کے مستقبل کے ہندوستانی معاشرہ میں مسلمان اپنے لیے کوئی جگہ نہیں پاتا۔
گاندھی جی نے مجھ سے کہا: "تم یہ باتیں لکھ ڈالو"۔ میں نے اس موضوع پر ایک پمفلٹ لکھا جو بمبئی میں چھیا۔ غرض میں نے کبھی اعلان حق سے گریز نہیں کیا اور مسلمانوں کو غیرت دلانے اور ڈانٹے کے ساتھ ان کے مسائل کو بھی پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔"
زبان کے مسئلے پر بھی سید محمود کی رائے اوروں سے منفرد تھی۔ وہ مسلمانوں کی اس معاملہ میں تنگ نظری کے شاکی تھے۔ سید محمود کو شکو ہ تھا کہ حکومت اترپردیش نے اردو کو بری طرح نقصان پہنچایا، سمپورنانند نے ایسی پالیسی بنائی کہ تیس برس میں خود بخود ایک نسل اردو سے محروم ہو جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہمارا یہ حال ہے کہ ہم صرف اخباروں اور رسالوں کی حد تک شور مچاتے ہیں لیکن تعلیمی اداروں کی طرف توجہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف پروپیگنڈا اور اخباروں میں بیان چھپنے سے تو اردو زندہ نہیں رہ سکی۔
اردو ہندی کے اختلاف پر سید محمود نے ایک بار کے۔سی۔پنت جی کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ 1949ء میں جمعیت العلماء کا اترپردیش میں بڑا جلسہ تھا۔ پنت جی نے اردو کے بارے میں سخت تقریر کی تھی اور کچھ اس طرح کی باتیں ہوئی تھیں کہ:
"اردو چوہیا ہے اور ہندی ہاتھی ہے، اردو پر غیرملکی اثرات ہیں، سہراب و رستم و افراسیاب کی باتیں کرتی ہے اور لیلی مجنوں کے گیت گاتی ہے، پھر اردو آزاد ہندوستان میں کیا ترقی کرے گی؟"
سید محمود نے ان کے جواب میں یہ تقریر کی تھی اور کہا تھا:
(بحوالہ: "دوام" جون، جولائی 1970ء)"پنت جی! اردو بہت سخت اور بری ہے اور لائق توجہ نہیں۔ یہ سب تسلیم کیے لیتا ہوں، آپ یو۔پی کے چیف منسٹر ہیں، اردو کے خلاف نفرت کے جذبات پھیلے ہوئے ہیں۔ چلئے، آپ جو زبان اس وقت بولے ہیں اسی کو یہاں رائج کر دیجئے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اردو شیریں و فرہاد اور لیلی و مجنوں کے گیت گاتی ہے، اس لیے قابل گردن زدنی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ لوگ (رستم و افراسیاب) مسلمان تھے؟ آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مسلمان نہیں تھے، یہ تو مسلمانوں کی بلند ظرفی ہے کہ وہ جہاں گئے انھوں نے وہاں کے ہیروؤں کو اپنایا۔ خود ہندوستان میں بھی ان کا یہی رول رہا ہے۔ چنانچہ اردو نے رام اور کرشن کے نغمے اور یہاں کی روحانی قدروں کے ترانے دنیا کو سنائے ہیں۔ یہ ایک جمہوری زبان ہے۔
ڈاکٹر صاحب آزادی کے بعد ہندو فرقہ پرستوں کی اردو کے خلاف محاذ آرائی سے مضطرب تھے۔ انھیں یہ بھی شکوہ تھا کہ پنڈت نہرو اردو کے لیے جو کر سکتے تھے، انہوں نے نہیں کیا اور کمزوری دکھائی۔ ڈاکٹر محمود چاہتے تھے کہ اترپردیش و بہار میں اردو سکنڈ لینگویج بنانے کے لیے صدر کا آرڈیننس نافذ ہو۔ انھوں نے حکومت بہار سے کرشن بلبھ سہائے کے زمانے میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کے لیے تجویز پاس کروا کے بھیجی تھی لیکن بہار کے بعد میں کچھ ایسے حالات ہو گئے کہ وہاں کی حکومت اس تجویز پر اصرار نہ کر سکی۔ پھر انھوں نے اندرا گاندھی سے اس معاملے میں خط و کتابت کی اور سید محمود کے بقول اندرا جی اس کے لیے راضی بھی تھیں مگر مشاورت کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے کانگریس کے خلاف صف آرا ہونے کی وجہ سے وہ خاموش ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کو آخر وقت تک یہ امید لگی ہوئی تھی کہ اندرا جی اپنا وعدہ پورا کریں گی لیکن ان کی یہ آرزو ان کی زندگی میں اور پھر ان کے اس جہان فانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی پوری نہ ہو سکی۔
آزادی کے بعد اردو کے علاوہ مسلمانوں کو ایک اور سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے سرکاری اسکولوں کے لیے جو نصاب تعلیم مرتب کرایا اس میں ایسی کتابیں رکھی گئیں جن میں ایک مخصوص مذہب اور اس کی دیومالا کو قومی تہذیب کا جزو قرار دے کر ان پر مضامین شامل کیے گئے۔ ڈاکٹر محمود کو اس بے ضابطگی اور ملک کے سیکولر اور جمہوری کردار کو بگاڑنے کی اس شرمناک کوشش پر بہت صدمہ ہوا۔ وہ چاہتے تھے ک تعلیم کو بچوں کے اندر میل، محبت اور بھائی چارہ کے جذبات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور ایک مشتر کہ کلچر کے احترام کے جذبات ابھارے جائیں۔ ان کا خیال تھا:
(بحوالہ: "دوام" جون، جولائی 1970ء)ہندوستانی قومیت کا احساس کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟ ماں کے پیٹ سے تو بچہ اسے لے کر آتا نہیں، آپ اس کے خلاف زہر اس کے دماغ میں اتارتے ہیں تو اس سے یہ توقع کیسے ممکن ہے کہ وہ قوم پرست بنے گا؟ ابھی آپ نے یہ ہی نہیں طے کیا ہے کہ ہندوستانی بچوں کا کیا دماغ بنائیں اور اختلافی مسائل کو کس طرح نظر انداز کریں؟ ضرورت ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری اسٹیج کی کتانیں خود مرکز کی نگرانی میں تیار کی جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ پبلشرز پیسے دے کر اپنی مرضی کے مطابق کتابیں کورس میں رکھوا لیتے ہیں، یہ کتابیں نہایت مضر ثابت ہوتی ہیں۔ میں نے یہ باتیں بار بار چھاگلہ کو ان کی وزارت کے دوران لکھیں مگر کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اترپردیش سے شیروانی صاحب نے کورس کی کتابیں لاکر اندرا جی کو دکھائیں کہ یہ دیکھیے، یہ سب تماشا ہو رہا ہے۔ اندرا نے انھیں چھاگلہ کے پاس بھیجا کہ ایک کمیٹی اس کی تحقیق کے لیے بنائیں۔ اندرا خود راجیہ سبھا گئیں اور چھاگلہ سے کہا کہ اسے پڑھ کر سنائیں۔
تمام ممبران ان اقتباسات کو سن کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا غضب ہو رہا ہے؟ ایک کمیٹی بنی، رپورٹ بھی دیدی گئی کہ ریفارم ہونا چاہیے، مکر اب تک کچھ نہیں ہوا۔
ڈاکٹر سید محمود کانگریس کی وعدہ خلافیوں کے تسلسل و تکرار کے باوجود اس سے مایوس آخری عمر تک نہیں ہوئے۔ چھاگلہ کے بعد وزارت تعلیم میں آر۔وی۔راؤ کا زمانہ آیا اور یہ شخص اور زیادہ تنگ نظر ثابت ہوا۔ ڈاکٹر محمود راؤ سے نالاں تھے مگر اندرا کو کیونکر قصور وار ٹھہراتے، اس لیے کہ اندرا جی کو مناسب آدمی ان وزارتوں کے لیے نہیں مل رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی اس سادگی پر خواہ کوئی کچھ بھی کہے، ان کی اس خوبی کی تعریف کرنی پڑے گی کہ انھوں نے جس جماعت کی خاطر پوری جوانی قربان کر دی، بڑھاپے میں اس کی نا اہلی اور بددیانتی کے باوجود اس سے ترک تعلق پر تیار نہ تھے۔ آخر وقت تک ان کے دل میں یہ آرزو کروٹیں لیتی رہی کہ کانگریس کو سیکولرزم کی شاہراہ پر واپس لایا جائے اور ہندو قوم کے ذہن کی اصلاح کی جائے اور اس کے لیے سیاسی پینتروں کے بجائے تعمیری طریقوں کو اختیار کرنا ہوگا۔
ڈاکڑ محمود صرف ایک مورخ اور سیاستدان ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اسلامی فکر و نظر کے سرچشموں سے اپنے ذہن و دماغ کو سیراب کیا تھا، وہ اسلام کی پوشیدہ توانائیوں کو روبۂ عمل لانے اور اسے پھر ہمارے معاشرہ و تہذیب کی ایک انقلاب آفریں قوت بنانے کے آرزو مند تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
چالیس برسوں کے دوران (1949 تا 1989) کانگریسی رہنماؤں نے اترپردیش میں اردو کو قتل کرنے کی تمام تر کوشش کی ۔۔۔
From 1949 to 1989, [forty years], Congress leaders in Uttar Pradesh did their best to kill Urdu
***
ماخوذ از کتاب:
انوکھے لوگ نرالی باتیں (مصنف: ڈاکٹر سید عبدالباری، اشاعت: 2009)
ماخوذ از کتاب:
انوکھے لوگ نرالی باتیں (مصنف: ڈاکٹر سید عبدالباری، اشاعت: 2009)
Dr Syed Mahmud and his campaign for Urdu during Congress reign post independence
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں