شاہد ماہلی (پ: یکم/مارچ/1943 ، ماہل، اعظم گڑھ)، غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر اور نامور ادیب و شاعر کا آج 29/ستمبر کو دہلی میں انتقال ہو گیا ہے۔
شاہد ماہلی نے تقریباً چالیس برسوں تک غالب اکیڈمی سے وابستہ رہتے ہوئے زبان و ادب کی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے۔ دہلی اردو اکیڈمی سے بہترین شاعری ایوارڈ کے علاوہ آل انڈیا کیفی اعظمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات اور انعامات سے انہیں نوازا گیا۔
شاہد ماہلی کے فن اور شخصیت کو جاننے کے لیے ڈاکٹر رضا حیدر کی مرتب کردہ کتاب "شاہد ماہلی : عکس اور جہتیں" کا مطالعہ عام قاری اور محقق دونوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ تعمیرنیوز کی جانب سے کتاب کا ڈیجیٹل ورژن پیش ہے۔ 325 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 11 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کتاب کے مرتب ڈاکٹر رضا حیدر، شاہد ماہلی کے تعارف میں رقم طراز ہیں ۔۔۔شاہد ماہلی کا شمار ہمارے ان شعرا میں ہے جنہوں نے شاعری کی مقبول ترین صنف غزل اور نظم میں اپنے فکر و خیال کے نمونے پیش کیے۔ تاہم اپنے شعری مزاج کے اعتبار سے ہماری شاعری میں ایک قابل قدر نظم گو شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زندگی کے گہرے تجربات، مشاہدات، شدید عصری حسیت، بےپناہ سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ بھرپور ادبی و فنی خلوص اور زندگی کے دائمی اقدار کی آمیزش ان کی شاعری کا حسن مستزاد اور طرۂ امتیاز ہے۔
جو لوگ شاہد ماہلی کو قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ حساس طبیعت کے آدمی ہیں۔ وہ برصغیر کے ایک اہم ادارے کے ڈائرکٹر رہ کر بھی نام و نمود سے کوسوں دور ہیں۔ ان کے اندر ہمدردی کا بےپناہ جذبہ ہے، دوسروں کی مدد کرنا ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔
شاہد ماہلی ایک خاموش طبیعت کے انسان ہیں، مگر ان کی یہ خاموشی صرف یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اضطراب اور احتجاج کی ایک پوری دنیا موجود ہے اور یہ احتجاج اور اضطراب خود انہوں نے اپنی زندگی سے تلاش کیا ہے ۔۔۔ اور ان تمام دھاروں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی تخلیق کے سانچے میں ڈھالا۔
شاہد ماہلی اپنے مضمون "میرا ذہنی سفر" میں لکھتے ہیں ۔۔۔ملک کی آزادی کا جشن اور تقسیم کی صعوبتیں تو میرے ذہن میں محفوظ نہیں مگر آزادی کے بعد کی اردو شاعری کا میں ہم سفر رہا ہوں۔ 1960 کے آتے آتے جب میری شعر و ادب کی دلچسپیوں نے سنجیدگی اختیار کرنا شروع کی تھیں، ترقی پسندی اور کمیونزم دونوں کا زور کم ہونے لگا تھا۔ میر و غالب، انیس و اقبال، جوش و فراق، فیض و مخدوم اور میرا جی و راشد کے شعروں کو پڑھنے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ افسانوں اور ناولوں میں دلچسپیاں بڑھنے لگی تھیں۔ بہت سے الٹے سیدھے ناولوں کے ساتھ ساتھ پریم چند کی گئودان، نرملا اور غبن، گورکی کی ماں اور قرۃ العین حیدر کے 'میرے بھی صنم خانے' اور 'آگ کا دریا' اپنے محلے کے کنویں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اور نیم کے نیچے چارپائی پر لیٹ کر ختم کر لی تھیں، مگر ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا کچھ اور ہی لطف تھا۔
لکھنؤ سے 'کتاب' کے اجرا نے چھپنے چھپانے کا شوق پیدا کیا۔ میری پہلی غزل 1965 میں 'کتاب' (لکھنؤ) میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تمام بڑے رسائل میں چھپنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 1966ء میں الہ آباد سے 'شب خون' کا اجرا ادبی فضا میں ایک دھماکے سے کم نہ تھا۔ شب خون اردو دنیا میں ایک نئی فضا بنانے میں کامیاب رہا۔
1970ء کے ایک حادثے نے مجھے دہلی کی سڑکوں پر پھینک دیا۔ وہ میری زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ یوں تو دہلی میں میری پہلی وابستگی ایک بڑی سیاسی جماعت کے صدر دفتر سے ہوئی تھی۔ مگر شعر و ادب کی فضا میرے ارد گرد رچی بسی تھی اور جب خالص ادبی ادارے سے وابستگی ہوئی تو ادبی سیاست سے جابجا سابقہ پڑا۔ ایمرجنسی کے زمانے کی گھٹن، ویت نام، چلی اور افغانستان پر غیرملکی تسلط اور مظالم، بڑی طاقتوں کی بالا دستی، تیسری دنیا کی بےحسی، خود اپنے ملک میں فسادات کا سلسلہ، انسانی قدروں کا زوال، غربت، بیکاری، موت اور بےسمت ادبی فضا سے عجیب سی ذہنی بےچینی پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں 'معیار' کا اجرا اور میرے پہلے مجموعۂ کلام 'منظر پس منظر' کی اشاعت نے ادبی بازی گری کے بیچوں بیچ کھڑا کر دیا۔
1980ء میں 'معیار' میں آٹھویں دہائی کے اردو ادب کا جائزہ دو حصوں میں لیا گیا۔ نئے دستخط کے نام سے نظموں، غزلوں اور افسانوں کے الگ الگ انتخاب شائع کیے گئے جو بہرحال مروجہ جدیدیت سے آگے کا سفر تھا۔ نئے دستخط کے زیادہ تر نام آج کے اردو ادب کے معتبر نام ہیں اور 1990ء کے بعد مابعد جدیدیت کا شور۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
میرا ایک شعر ہے:
ایک بےمعنی تجسس، ایک بےمعنی خلش
ایک شعلہ سا لپکتا جسم میں اکثر لگے
اردو شاعری کی نصف صدی تک ہم سفر رہنے کے باوجود اور اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں دل و دماغ میں ایک مسلسل جنگ جاری ہے۔
شعر و ادب کا مستقبل کیا ہے؟
الکٹرانک میڈیا کے طوفان میں سنجیدہ مطالعے کے سارے اصول اور ضابطے ٹوٹ گئے ہیں، پھر ہم جس زبان میں لکھتے ہیں اسے کون پڑھے گا؟ شاید شعر و ادب کے زوال کا دور شروع ہو چکا ہے اور شاید نظم پر نثر ہی حاوی ہو گئی ہے؟
شعر و ادب مخالف فضا اور تخلیق پر تنقید کی فوقیت سے کبھی کبھی مایوس ہو جاتا ہوں، مگر دوسرے ہی لمحے اپنے بچے کی کمپیوٹر کے کی-بورڈ پر دوڑتی ہوئی انگلیاں اور انٹرنیٹ پر اکیسویں صدی کی دنیا کی سیر سے غالب کا شعر بےاختیار یاد آ جاتا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
شمس الرحمن فاروقی شاہد ماہلی کی نظمیہ شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:شاہد ماہلی ہمارے ان شعرا میں نمایاں ہیں جو 1960ء کی نسل کے بعد منظر عام پر آئے اور اپنی انفرادیت کو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ شاہد ماہلی نے اس وقت بھی اپنی در یافت کے مشکل عمل سے منہ نہ موڑا تھا۔ آہستہ آہستہ ان کی پہچان ایک ایسے شاعر کی بنتی گئی جو اپنے گرد و پیش کی دنیا کی خبر رکھتا ہے اور اکثر اس دنیا کو اپنی داخلی دنیا سے کمتر پاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ داخلی دنیا خارج کے سامنے آنکھ بند کر لیتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ نظم میں کون سا عمل جاری و ساری ہے، آنکھ بند کر لینے کا یا حیرت وخوف سے آنکھ کے پھٹ جانے کا، ایسی صورت میں ان کی نظم ایک غیر معمولی ڈرامائی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
ظ۔ انصاری کہتے ہیں ۔۔۔شاہد نے قدیم سے منہ نہیں پھیرا، جدید کی ریس نہیں کی ، بحروں کی دلنواز پکار کی طرف سے کان بند کر لیے اور چاہا کہ ڈرامائی شعریت سے اس کمی کو پورا کریں۔ کوئی موضوع ان کے لیے ننگا نہیں۔ کہی ان کہی میں فاصلہ نہیں۔ بڑائی جتانے کا ارمان نہیں۔ شام پڑے تنہائی کا احساس بڑے شہر (دہلی) میں بسنے والے اس قصباتی شاعر کے طاق میں دل دوز اور دل ربا یادوں کی شمعیں روشن کر دیتا ہے۔ شمع کی لو تھرتھراتی ہے، دیواروں پر سائے لرزتے ہیں اور شعر وارد ہوتے ہیں۔ ہولناک، المناک ، روٹھنے اور آپ سے آپ من جانے والے سائے، گھومنے والی قندیل کی ننھی منی رنگ برنگی تصویروں کو پھیلانے اور نچانے والے سائے۔۔۔
غزل میں وہ اپنے کئی جدید معاصرین سے زیادہ زچے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو مقام ان کی غزلوں میں ملنا چاہیے تھا، ابھی ملا نہیں ہے۔
شاہد ماہلی کی مطبوعات:
- منظر پس منظر (شعری مجموعہ)
- سنہری اداسیاں (شعری مجموعہ)
- کہیں کچھ نہیں ہوتا (شعری مجموعہ)
- نئی نظم ، نئے دستخط (تالیف)
- پاکستانی ادب اور کلچر کا مسئلہ (تالیف)
- فیض احمد فیض : عکس اور جہتیں (تالیف)
- کیفی اعظمی : عکس اور جہتیں (تالیف)
- انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ (تصنیف)
منتخب اشعار:جنس گراں تھی، خوبیِ قسمت نہیں ملی
بکنے کو ہم بھی آئے تھے، قیمت نہیں ملی
کچھ دور ہم سبھی ساتھ چلے تھے کہ یوں ہوا
کچھ مسئلوں پہ ان سے طبیعت نہیں ملی
تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر
مگر اسی نے کبھی حالِ دل سنا نہ مرا
خامشی لفظ لفظ پھیلی تھی
بےزبانی میں کچھ سنا آئے
شہر کوتاہ میں سب پست نشیں پست نشاں
کس کو ہمراہ کریں کس کا قرینہ سیکھیں
یہ بھی پڑھیے:
***
نام کتاب: شاہد ماہلی: عکس اور جہتیں
مرتبہ: ڈاکٹر رضا حیدر
تعداد صفحات: 325
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Shahid Mahuli Aks Aur Jehtein.pdf
شاہد ماہلی - عکس اور جہتیں :: فہرست مضامین | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | مضمون | مضمون نگار | صفحہ نمبر |
1 | پیش لفظ | ڈاکٹر رضا حیدر | 7 |
2 | شہر خاموش ہے - شاہد ماہلی | شمس الرحمن فاروقی | 14 |
3 | ایک شخصی رزمیے کا بیانیہ | شمیم حنفی | 20 |
4 | شہر خاموش ہے | صدیق الرحمن قدوائی | 31 |
5 | ہمارے عہد کا ایک ممتاز شاعر : شاہد ماہلی | خلیق انجم | 34 |
6 | شاعر سخن سوختہ | عتیق اللہ | 38 |
7 | شاہد ماہلی کی شاعرانہ انفرادیت | ابوالکلام قاسمی | 45 |
8 | شاہد ماہلی - اپنی مہابھارت کا شاعر | ندا فاضلی | 50 |
9 | شاہد ماہلی کا شہر خاموش ہے - ایک تاثر | محمد زماں آزردہ | 54 |
10 | شاہد ماہلی کے شعری امتیازات | علی احمد فاطمی | 64 |
11 | غزل شاہد ماہلی کی حقیقی شناخت | تقی عابدی | 81 |
12 | شاہد ماہلی کی شاعری | سلیمان اطہر جاوید | 92 |
13 | منظر اور پس منطر کا شاعر | زبیر رضوی | 102 |
14 | شاہد ماہلی کا شعری افق | سید امین اشرف | 108 |
15 | شاہد ماہلی : شاعر، شاعری اور شخصیت | اقبال مرزا | 117 |
16 | زندگی کا شاعر - شاہد ماہلی | کشمیری لال ذکر | 120 |
17 | شاہد ماہلی کی شاعرانہ شناخت | جعفر عسکری | 126 |
18 | شاہد ماہلی کی شعری کائنات | فیاض رفعت | 136 |
19 | جادۂ ادب کا تیز رو مسافر : شاہد ماہلی | فاروق ارگلی | 141 |
20 | شہر خاموش ہے | سیفی سرونجی | 148 |
21 | شاہد ماہلی : دھند میں لپٹی ہوئی روشنی | حیدر قریشی | 153 |
22 | تخلیقی امید کا استعارہ اور شاہد کی شاعری | مولا بخش | 159 |
23 | شاہد ماہلی | شائستہ رضوی | 189 |
24 | شاہد ماہلی کا رنگِ شاعری | آفاق فاخری | 193 |
25 | شہر خاموش ہے - ایک قاری کا ردعمل | سراج اجملی | 198 |
26 | شاہد ماہلی | سرور الہدیٰ | 203 |
27 | شاہد ماہلی کی نظمیں (شہر خاموش ہے - کی روشنی میں) | راشد انور راشد | 212 |
28 | شاہد ماہلی کی شاعرانہ عظمت کا آئینہ : شہر خاموش ہے | رئیس الدین رئیس | 221 |
29 | سنہری اداسیاں : شاہد ماہلی | نظام صدیقی | 227 |
30 | شاہد ماہلی کی شاعری : ایک تاثر | سید تاجدار حسین زیدی | 240 |
31 | شاہد ماہلی کی شاعری کا تجزیہ | عفت زریں | 246 |
32 | شاہد ماہلی : جدید غزل کا سنجیدہ شاعر | محمد شاہد پٹھان | 258 |
. | تبصراتی مضامین | - | . |
33 | شہر خاموش ہے | اسد رضا | 296 |
34 | شہر خاموش ہے | فیروز دہلوی | 299 |
35 | شہر خاموش ہے | عادل فراز | 302 |
36 | شہر خاموش ہے | سرور الہدیٰ | 307 |
37 | مشاہیر کی نظر میں | - | 314 |
38 | میرا ذہنی سفر | شاہد ماہلی | 320 |
Shahid Mahuli, Aks aur jehteiN, a collection of research articles, Compiled by Dr. Raza Haider, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں