موجودہ دور میں کھیلوں کے جتنے بھی نمونے دستیاب ہیں انہیں دو بڑے خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک آسمان کے نیچے کھلی فضا میں کھیلے جانے والے کھیل اور دوسرے چہار دیواری میں چھت کے نیچے منعقد ہونے والے کھیل۔
اس دوسری قسم کے کھیلوں میں "شطرنج" کو بلاشبہ ایک باوقار اور تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کھیل راجاؤں اور بادشاہوں میں بہت مقبول رہا ہے۔
البیرونی کی تحریر سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شطرنج ہندوستان میں زمانۂ قدیم سے رائج ہے۔ البیرونی کے بیان کی تصدیق اکثر مورخین سے ہوجاتی ہے۔ عہد اسلامی میں سلاطین کا شوق و انہماک شطرنج سے کافی تھا۔ یزید بن عبدالملک اور ہشام، ہارون رشید اور اس کے دونوں لڑکے امین الرشید اور مامون الرشید، محمود غزنوی، یوسف صلاح الدین، تیمورلنگ، جلال الدین محمد اکبر اور سلطان عبدالحمید وغیرہ شطرنج کے بڑے شوقین اور اچھے کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔
وزیروں میں جعفر برمکی، ابو بکر بن زہر، وزیر علی القمی وغیرہ اس کھیل کے ماہر تھے۔
اردو کے صاحبِ طرز اور اپنے رنگ کے منفرد شاعر حکیم مومن خاں مومن کا شمار اس دور کے ماہر اور زیرک شاطروں میں ہوتا تھا۔ اودھ کے واجد علی شاہ کا دور شطرنج کے کھلاڑیوں کے لیے کافی سازگار رہا۔ مغلیہ دور کے بادشاہوں نے اس کھیل کی آڑ میں اپنے لیے تفریح و دل بستگی کا سامان فراہم کیا اور مہروں کے خانوں میں حسین و جمیل کنیزوں کو کھڑا کرکے اپنے ذوقِ طبع کی تسکین کی۔
ہمارے ملک میں زمانۂ قدیم سے شطرنج کھیلی جاتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں بہت سارے الفاظ اور محاورے اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر شہ دینا، بازی مارنا، مات دینا، چال چلنا، مہرہ بننا وغیرہ۔ صدیوں سے قابلِ استعمال یہ محاورے یا الفاظ اردو زبان میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ الفاظ اور محاورے شطرنج کے کھیل سے آئے ہیں۔
شطرنج کے ایک بار کے کھیل کو بازی کہتے ہیں۔ اب مشاہدہ کیجیے کہ اس بازی لفظ سے کتنے سارے محاورے، الفاظ، اشعار وجود ،میں آگئے۔ بازی مارنا، بازی لگانا، بازی گر، بازیچہ وغیرہ۔اسی طرح بساط پر نظر کریں تو بساط الٹنا، بساط بچھنا وغیرہ محاورے سامنے آتے ہیں۔
بازیچہ پر غالب کا شعر ملاحظہ فرمائیں
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ڈاکٹر فریاد آذر کا شعر ہے
زندگی اس تری شطرنج کی بازی سے بہت
تھک گیا ہوں میں ، شہ و مات سے آزادی دے
معروف ترقی پسند شاعر جاں نثار اختر لکھتے ہیں
ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
یوں تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر
استاد شاعر طرفؔہ قریشی ناگ پوری فرماتے ہیں
میں بساط شوق بچھاؤں کیا، غمِ دل کی شرط لگاؤں کیا
جوپیادہ چلنے میں طاق تھے وہ تمام مہرے بکھر گئے
قیصر شمیم کسی ماہر شطرنج کے لہجے میں طمطراق سے گویا ہیں
اک پل میں ہم جو چاہیں رکھ دیں بساط الٹ کر
شہ زد پہ آچکا ہے ، اپنا پیادہ رکھئے
ابھی شطرنج ہے جاری ، ذرا الٹے تو بساط
دیکھنا کون ہے شہ ، کون پیادہ ہے میاں
"چال چلنا"شطرنج کےکھیل ہی سے نکلا ہے۔ چال میں آنا، چال پر پڑنا وغیرہ۔ محترمہ کوثر پروین کوثر کا شعر ہے
شہ سے پہلے نہ مات ہوجائے
دیکھ چال اس کی شاطرانہ ہے
بہادر شاہ ظفؔر محتاط انداز میں کہتے ہیں
ہوشیاری سے سمجھ کر چال چلنا چاہیے
کارِ دنیا بھی ظفر شطرنج کا سا کھیل ہے
پروفیسر نصر غزالی کا رنگ کچھ اور ہے
اسی کے سارے پیادے ،اسی کے شاہ و وزیر
بساطِ زیست پہ شہرہ اسی کی چال کا ہے
احمد کمال حشمی نے "چال چلنا" پر عمدہ شعر کہا ہے
وزیر چپ کھڑا تھا اور شہ کو مات ہو گئی
بساطِ زیست پر پیادہ چال ایسی چل گیا
خاکسار کا شعر یوں ہے
زد میں آ سکتا ہے دشمن کا وزیر
عقل کا گھوڑا اڑا کر دیکھئے
لفظ "شہ" اور "مات"سے متعدد محاورے اختراع کیے گئے ہیں مثلاً شہ دینا، شہ پڑنا، مات دینا، مات ہونا وغیرہ۔
اس شہ اور مات پر کچھ مشہور شعراء کے اشعار پیش خدمت ہیں
ہر سمت سے گھر آئے ہیں شطرنج کے مہرے
یہ دیکھ! ابھی شہ ہے ، ابھی مات برادر
(نشتر خانقاہی)
زندگی مہرہ ہے اک شطرنج کا
موت کیا ہے زندگی کی مات ہے
(انجم باروی)
راستے بھاگنے کے سب مسدود
شاہ بھی ہے وزیر کی شہ پر
(مجیب اختر)
مات ہوجاتی ہے پیادے سے بھی شہ کی اکثر
ہم نے دیکھا ہے زماں مات سے پہلے پہلے
(زماں قاسمی)
فرزیں کے لیے گھر کھلنا، پیدل کا کٹنا پر شعر پروفیسر مظفر حنفی کو ہی زیب دیتا ہے۔ ان کا یہ شعر حقیقت کا اظہار بھی ہے اور دل کو چھو لینے والا بھی
کٹ جائیں یہ پیدل تو نکل آئیں گی راہیں
فرزیں کے لیے ورنہ کوئی گھر نہیں کھلتا
شطرنج کا سارا کھیل مہروں کی چال پر منحصر ہوتا ہے۔ مہرے چونکہ بے بس ہوتے ہیں اور ان کا عناں گیر کوئی اور ہوتا ہے اس لیے ہماری زبان میں کسی کا مہرہ بننا محاورہ مستعمل ہوا
خانے میں ہے شطرنج کے جب تک، ہوں پر امید
جب پٹ گیا مہرہ تو کہیں کا بھی نہیں ہے
(جمیل تمنائی)
سیاست کی دنیا میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ منوررانا جیسی بھاری بھرکم شخصیت معمولی مہروں (پیادوں) سے پٹ جاتی ہے
عجیب کھیل ہے دنیا تری سیاست کا
میں پیدلوں سے پٹا ہوں وزیر ہوتے ہوئے
پروفیسر نصر غزالی نے تو بساط ہی کو الٹ کر رکھ دیا
جب بساط الٹی تو جانا کہ تھے شاطر کتنے
کشتی و فیل و پیادہ پہ تھے قادر کتنے
کپڑے یا کاغذ کے جس چوکور ٹکڑے پر شطرنج کھیلی جاتی ہے، اسے بساط کہتے ہیں۔ اس لفظ سے بساط ہونا محاورہ بنا مثلاً اس کی بساط ہی کیا تھی جو اتنا بڑا کام کرجاتا۔ ذوق نے اس لفظ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے
کم ہوں گے اس بساط پہ مجھ جیسے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
شطرنج میں پیادہ سیدھا چلتا ہے جب کہ فرزیں (وزیر) ٹیڑھا بھی چل سکتا ہے۔ ترقی اور کامیابی پاکر آدمی کے اندر جو غرور یا ٹیڑھ آجاتی ہے، اس کے اظہار کے لیے عبد الرحیم خان خاناں نے مہروں کی ان چالوں سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے ؏
پیادہ سے فرزیں بھیو ٹیڑھو ٹیڑھو جائے
آج کی دنیا میں شطرنج کھیلنے کا گر ہر شعبۂ حیات میں استعمال ہو رہا ہے، خاص طور پر سیاست کے میدان میں۔ جیسے جیسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق بڑھتا جارہا ہے، شطرنج ہر مرحلے پر کھیلی جانے لگی ہے۔ بساط بچھانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، صرف اپنا مہرہ بڑھا دینا کافی ہوتا ہے۔ بزرگ شاعر علقمہ شبلی فرماتے ہیں
میں نے دیکھا ہے پیادوں کو بھی آگے شبلی
شاہ کو ، مان لوں کیوں ، مات نہیں ہو سکتی
راقم (زماں قاسمی) کو چونکہ شطرنج سے کافی شغف ہے اس لئے اس موضوع پر اشعار کا معرضِ وجود میں آنا فطری امر ہے
کتنے ماہر ہیں زماں شطرنج میں
ایک دن بازی جما کر دیکھئے
اس قدر مربوط تھیں مہروں کی چالیں دوستو
ہر گھڑی مجھ کو خود اپنی ہار کا خدشہ رہا
وائے وحشت! اسپ و فرزیں ، فیل و رخ سب پٹ گئے
جذبۂ جوشِ ظفر قائم انہیں مہروں پہ تھا
رئیس الدین رئیس نے اپنا ارادہ اس طرح سے ظاہر کیا ہے
کاش شطرنج پہ ظاہر ہو ارادہ میرا
شاہ کو پیٹنے نکلا ہے پیادہ میرا
فراغ روہوی کا انداز دیکھیں
شاہ بھی آچکا مری زد میں
تو فقط جانبِ وزیر نہ دیکھ
ہمدم نعمانی کے پیدل کا جب مزاج بگڑتا ہے تو اس طرح کا شعر وجود میں آتا ہے
اسپ و فرزیں ، فیل و رخ رہ جاتے ہیں ششدر سبھی
جب بگڑجاتا ہے ہمدم میرے پیدل کا مزاج
نسیم فائق کا شعر، شعر نہیں چیلنج ہے
مرے پیادوں کے سامنے اب
تو اپنے شاہ و وزیر لے آ
فتح کا جشن منانے والے تو بہتیرے مل جائیں گے لیکن جان بوجھ کر ہارنے والے؟ آئیے ایوب رضا (جگتدل) کا ظرف دیکھتے ہیں
ظرف ہمارا شیوہ ہے اور دلداری ہے فطرت اپنی
ہم نے تو شطرنج کی بازی جان کے اکثر ہاری ہے
ارشد جمال حشمی کی نگاہ دوربین ہے۔ وہ وزیر پر پیادہ کو ترجیح دیتے ہیں
کماں نہ رکھئے اگر اک بھی تیر باقی ہے
پیادہ ہے تو سمجھئے وزیر باقی ہے
چلتے چلتے ممتاز انور کے پیادے کی چال اور تیور بھی دیکھتے چلیں
ہے پیادے کی زد پہ تیرا شاہ
سوچ لے چال اور سنبھل کر چل
کسی بھی چال میں بدلے گا یہ شطرنج کا تیور
کہاں پہ مات ہوگی شاہ کی ، مہرہ بتاتا ہے
مات تو ہر مقابلے کا لازمی حصہ ہوتا ہے لیکن مات سے پہلے شہ دے کر حریف کھلاڑی کو گھیرے میں لینا اور شکست قبول کرنے کے لیے مجبور کرنا صرف شطرنج میں ہی ممکن ہے۔
ادب میں شطرنج کو جو مقام ملاہےاس کا سارا کریڈٹ اردو کے شعراءحضرات کو ملنا چاہیے۔ منشی پریم چند بھی اس کریڈٹ کے حقدار ہیں جنہوں نے "شطرنج کے کھلاڑی" کی تصنیف کی۔ ستیہ جیت رائے کو بھی کریڈٹ ملنا چاہئے جو اس فلم کے ڈائریکٹر تھے جسے فلم فسٹیول میں کئی انعامات ملے۔
***
بشکریہ:
موجِ قلم - 2012 (بزمِ نثّار، کلکتہ کا پہلا سالانہ مجلّہ)
بشکریہ:
موجِ قلم - 2012 (بزمِ نثّار، کلکتہ کا پہلا سالانہ مجلّہ)
Chess and Urdu poetry. Article: Zaman Qasmi.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں