ڈاکٹر عبدالرحیم - ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-28

ڈاکٹر عبدالرحیم - ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص

dr-abdul-raheem

ڈاکٹر عبدالرحیم حیدرآباد میں 25/ستمبر/2019 کو انتقال کر گئے۔ انہیں خراج عقیدت کے بطور، ڈاکٹر علیم خان فلکی کا خاکہ پیش ہے جو جدہ سعودی عرب میں ڈاکٹر عبدالرحیم کے وداعی جلسے میں 9/مارچ/2006 کو پڑھا گیا تھا۔

کسی زندہ شخص پر خاکہ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بغیر یونیفارم کے ڈیوٹی پولیس والے سے دو دو ہاتھ کر لینا۔ اسی لیے شاید ادبی تاریخ میں جتنے خاکے عظیم تصور کیے جاتے ہیں وہ موصوف کے مرحوم ہونے کے بعد ہی لکھے گئے ہیں۔ کسی کے مرحوم ہو جانے کے بعد مصنف کو یہ سہولت ہو جاتی ہے کہ وہ مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہے گھما سکتا ہے۔ لیکن زندہ شخص پر خاکہ لکھتے ہوے اسے موصوف کی انگلی پکڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ نہ ان کی زیادہ تعریف کی جا سکتی ہے نہ تنقید۔
تعریف اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ ان کو جاننے والے سب زندہ موجود ہوتے ہیں اور تنقید اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ موصوف خود موجود ہوتے ہیں۔ اور نہ ان کی تعریف میں یہ روایتی فرسودہ جملہ کہا جا سکتا ہیکہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی نہ پر ہو سکے۔ کیا پتہ جوش میں آکر موصوف واپس جانے کا فیصلہ ہی نہ بدل دیں۔
لیکن ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب ایسے آدمی نہیں، اس معاملے میں یہ پورے سعودی ہیں ایک بار جو کہہ دیا وہ کہہ دیا اسی پر ڈٹے رہیں گے چاہے اس کے لیے اپنے آپ سے کیوں نہ اختلاف کرنا پڑے۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر رہے، مریضوں کی نبص دیکھنا پیشہ تھا اور صبح و شام ملت کی نبص چیک کر کے اپنے آپ کو فکر میں پریشان رکھنا ان کا مزاج تھا۔ ڈاکٹر بننا ان کی مجبوری تھی کیونکہ انڈیا پاکستان میں ناموں کی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ہر محلے میں تین رحیم چار فہیم اور پانچ علیم نکل آتے ہیں، اس وجہ سے اس سے پہلے کہ لوگ اپنی سہولت کے لیے کچھ القابات لگا دیں اور کالے رحیم بھائی، یا ٹکلو رحیم بھائی وغیرہ پکارنے لگیں انہوں نے جلدی جلدی ڈاکٹری کر ڈالی۔ اور ڈاکٹر محمد عبدالرحیم پیتھولوجسٹ سے معروف ہو گئے۔ مگر زیادہ تر لوگ انہیں رحیم بھائی ہی کہتے ہیں۔ ویسے ان کی دلیری، جسارت او ر نڈرپن دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ڈاکٹر نہ ہوتے تو "بھائی" ہی ہوتے۔ ان کی عمر اور آمدنی وغیرہ کے بارے میں ہم نے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ اس عمر میں ایسی باتیں دریافت کرنے سے بندہ خوامخواہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہسپتال اور گھر میں اک عمر تنہا گزار دی، اپنی صحبت میں رہتے رہتے خود ہی بگڑ گئے اور اپنی لائف اسٹوری کے خود ہی ہیرو رہے اور خود ہی ویلن۔ کئی سال فیملی کے بغیر تنہا رہتے رہتے اتنے تنہائی پسند ہو گئے کہ کسی سے ملتے بھی تو افسوس کرتے کہ اس سے بہتر تو تنہائی تھی۔ اور اب ہم سب کو تنہا کر کے وطن لوٹ رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ محبت اس سے ہوتی ہے جو خوبصورت ہو حالانکہ خوبصورت وہ ہوتا ہے جس سے محبت ہو۔ ڈاکٹر صاحب کو اس معاملے میں ہم خوبصورت ترین سمجھتے ہیں کہ۔۔۔ کلکتہ کے دلشاد صاحب ہوں کہ مدراس کے ڈاکٹر بشیر، علیگڑھ کے ارشد سعید ہوں کہ گجرات کے شبیر پٹیل ہوں یا بمبئی کے ہارون غفور۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے اطراف سبھی ایسے جمع ہوتے جیسے کسی محبوب استاد کے اطراف تلامیذ۔ اتنے سال یہاں رہ کر بھی ڈاکٹر صاحب پورے سعودی نہیں بن سکے شورائیت کے معاملے میں ہمیشہ انتہائی سمجھوتہ پسند رہے البتہ زبان کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ دکنی حیدرآبادی لب و لہجہ پر اس رعب اور اعتماد کے ساتھ ڈٹ کر پر لطف گفتگو کرتے کہ لوگ اپنا شین قاف درست کر لیتے۔ نارتھ اور ساؤتھ والوں کے درمیان ہَو اور نکو کا جھگڑا جو کہ کشمیر سے زیادہ سخت تھا، نہ صرف حل ہو گیا بلکہ دوسروں کو محبوب ہو گیا۔ اب لوگ خود ہی انہیں سننے کھنچے چلے آتے ہیں، گویا بقول مرزا غالب کے:
رات کو جا بیٹھتے ہیں روز ہم مجنوں کے پاس
پہلے اَن بن رہ چکی ہے اب تو یارانہ رہے

کبھی تصنع اختیار نہیں کیا، اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی یعنی جہاں انگریزی بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہاں کبھی انگریزی نہیں بولی۔ نہ اپنا رکھ رکھاؤ بدلا نہ زبان بدلی۔ غالباً وہ اس شعر کے قائل تھے کہ:
جاتی نہیں دماغ سے لکنت خیال کی
جب لوگ سوچتے ہیں پرائی زبان میں
ہم کو ان کی ایک ادا بہت پسند ہے۔ یوں تو وہ کئی معصوم اداؤں کے مالک ہیں لیکن ان کے بھولنے کی ادا بہت خاص ہے۔ جس اشتیاق سے آپ کا ٹیلیفون نمبر لیں گے، اسی انہماک سے اسے محفوظ کرنا بھول جائیں گے۔ جس گرمجوشی سے آپ کی دعوت قبول کریں گے اسی گرمجوشی سے اس دعوت کا دن، مقام اور پتہ بھول جائینگے۔ لوگ کہتے ہیں یہ سگریٹ زیادہ پیتے ہیں، لیکن ہم نے جب بھی انہیں سگریٹ پیتے دیکھا ایک ہی سگریٹ پیتے دیکھا اور اتنا دیکھا کہ جب بھی کسی دکان پر ریڈ ڈن ہل نظر آئی ہم کو ڈاکٹر صاحب کی یاد آئی۔ خواتین سے بہت دور بھاگتے ہیں۔ کوئی خاتون اگر پوچھے کہ ڈاکٹر صاحب آپ میٹرنیٹی ہاسپٹل میں ہوتے ہیں؟ تو فوری گھبرا کر کہتے ہیں جی نہیں، میں پیتھالوجسٹ ہوں۔ بیوی سے بھی اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ ہونے والی بیوی ہوں۔

ڈاکٹر صاحب کو کبھی علاقائی یا لسانی یا محدود مقاصد کی تنظیموں سے دلچسپی نہیں رہی۔ وہ ہمیشہ پوری ملت کے بارے میں سوچنے والے انسان رہے۔ ملی کونسل کی قیادت اور ترقی اسی بات کا ثبوت ہے۔ عام طور پر کسی جماعت کا صدر وہ ہوتا ہے جس کے لیے طویل تحریر پڑھنا اور مختصر گفتتگو کرنا مشکل ہوتا ہے بلکہ پڑھنے اور لکھنے کیلیے تو الگ کارکن رکھے جاتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں بالکل الٹ تھے۔ بڑی سے بڑی تقریر، تنقید یا تبصرے کے جواب میں پہلے تو ایک لمبی سانس بھرتے پھر ایک گمبھیر پراسرار اور گرجدار آواز میں اثبات میں سر ہلاتے ہوے کہتے:
ہاں ں ں ں ں تو یہ بات ہے بولیے ۔۔۔
کہنے والا اک لمحے کے لیے ڈر جاتا کہ اس نے کچھ غلط تو نہیں کہہ دیا۔ انکساری کا یہ عالم کہ جب تک صدر تھے سابقہ صدر کی طرح پیش آئے۔ ہمیں اپنی تقریر کے علاوہ اگر کسی اور کی تقریر کبھی پسند آتی ہے تو صرف ان کی جو انتہائی مختصر بولتے ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ہمارے پسندیدہ مقرر رہے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیے کہ میں جناب نیر صاحب کو پسند نہیں کرتا۔
ضیاالدین نیر کے گھر پر کئی برس تک پابندی سے چلنے والی ہفتہ وار 'فہم قرآن' کی نشستیں علم و ادب کا ایک مرکز بن چکی تھیں جس کو ایک تھینک ٹینک کہوں تو غلط نہ ہوگا۔ دس ساڑھے دس بجے درس قرآن سے یہ سلسلہ شروع ہوتا اور بعض اوقات اتنا دلچسپ ہو جاتا کہ تہجد کی اذان ہو جاتی۔ نیر صاحب کا مکان ایک ایسا کالج تھا جہاں کلاس ختم ہو جانے کے بعد بھی اسپیشل کلاس گھنٹوں چلتی رہتی۔ اہل مطالعہ اور اہل تجربہ کی موجودگی میں موضوعات صف باندھے کھڑے رہتے۔ تدبر اور تفکر کا حق ادا ہوتا۔ وہاں محض اندازے یا قیاس پر اپنی رائے دینے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔ ہر موضوع علمی و عقلی دلائل سے آراستہ ہوتا۔ طارق غازی اور ایوب علی خان سعودی گزٹ کے صحافی ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے۔ ہورے ہفتہ بھر کی سنسرڈ اور غیر سنسرڈ مستند خبروں سے آگاہ کرتے تو ڈاکٹر رحیم اور انجینیر ذاہد علی صاحب اپنے عمیق شوق مطالعہ کے ذریعے اخبارات و رسائل کے قومی و عالمی تجزیوں کو پیش کرتے اور حالات حاضرہ کی صحیح تفہیم سامنے آتی۔
رات جوں جوں بڑھتی جاتی ماہتاب علم و دانش کی ذوفشانی اور بڑھتی جاتی۔ مصلح الدین سعدی مرحوم، جن کی کمی ساری عمر محسوس ہوتی رہے گی، وہ اپنے بصیرت و فراست سے بھرپور رعب دار اور دل پذیر تقریری پیرائے میں علم و دانش کے موتی بکھیرتے۔
گاہے گاہے امیتاز صدیقی، ڈاکٹر معین شاہ، احمد خان بشاوری،اوصاف احمد آئی ڈی بی ، محبوب علی صاحب، دلشاد صاحب افسر فہیم صاحب وغیرہ اپنی چمک بکھیرتے رہتے۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ ہند و پاک سے عمرہ یا حج پر آنے والی اہم دانشور شخصیات جن کا تعلق علم و ادب ، سیاست، سماجیات یا دین سے ہو ان کو رات بھر کے لیے اغوا کر لیا جاتا اور خوب سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ درمیان میں البیک یا شاداب کی بریانی کا دور چلتا۔
ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کی ذاہد علی صاحب سے کانٹے کی نونک جھونک سے ہر شریک محفل لطف اندوز ہوتا رہتا۔ ڈاکٹر صاحب کے بلند قہقہے زندگی بکھیرتے رہتے۔ نیر صاحب کے انتقال کے بعد، میرا مطلب ہے ان کے مکان چھوڑ دینے کے بعد یہ سلسلہ باری باری ہر ہفتہ سب کے مکان منتقل ہوتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد ا ن نشستوں کی یاد اب ایک کربناک یاد بن کر رہ جائے گی۔ ڈاکٹر رحیم اس افق کے آخری ستارے تھے۔ البتہ ضیا الدین نیر صاحب ایک دمدار ستارے کی طرح انشااللہ ہمارے ساتھ جدہ میں رہیں گے، ہم سب انکے لیے دعاگو ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا جسم سعودی عرب میں رہا لیکن وہ ذہن کو دور وطن میں ملی کاموں میں تھکاتے رہے، بحیثیت صدر بھی اور انفرادی طور پر بھی۔ مستقلاً علما، دانشوروں، تعلیم گاہوں، اداروں اور جماعتوں کے لیے مالی اور فکری سرمایہ فراہم کرنے میں سرگرداں رہے۔ ملی کونسل تو بہت بعد میں وجود میں آئی۔ اس کے خدوخال تو برسوں سے ہم ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں دیکھتے آئے ہیں۔ مولانا مجاہدالاسلام قاسمی مرحوم اور ڈاکٹر منظور عالم صاحب کے ساتھ کئی اہم ملی خدمات انہوں نے انجام دیں۔ ماؤنٹ مرسی اسکول کا قیام، شیر مارکٹ میں این آر آیز کی رہنمائی کے لیے بصارت کمپنی کا قیام، ریسیڈنشیل اسکول کے لیے سو ایکڑ زمین کا حصول وغیرہ، یہ تمام کام ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں ہوئے۔ سب کامیابی کی منزل تک نہ پہنچ سکے میں اس کا الزام ڈاکٹر صاحب پر نہیں ڈال سکتا کیونکہ یہ ہماری قوم کا سانحہ ہیکہ
مجھے ہمسفر بھی ملا کوئی تو شکستہ پا مری طرح
کوئی راستوں کا تھکا ہوا کوئی منزلوں کا لٹا ہوا

ڈاکٹر صاحب تو خیر ایک فرد ہیں، یہاں بڑی بڑی جماعتوں کا بھی یہی رونا ہیکہ وہ افراد نہیں ملتے جو بے لوث اور قابل ہوں۔ اور جو قابل ملتے ہیں وہ بذات خود اتنے بڑے قائد و دانشور ہوتے ہیں کہ ان کے لیے بڑی سے بڑی جماعت چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ وہ ترقی پسند ہوتے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب سخت غیر ترقی پسند ہیں۔ ترقی پسند سے میری مراد سرخیے نہیں بلکہ ایسے ترقی والے ہیں جیسے ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے فرمایا کہ:
"ڈاکٹر صاحب اتنے سال میں کچھ نہ کر سکے، ہم نے ایک سال قبل آرگنائزیشن قائم کی اور کہاں سے کہاں ترقی کر لی"۔
ہم نے پوچھا:
" مثلاً کیا؟؟؟"
کہنے لگے : "ہم نے ایک سال میں چھ جلسے کیے۔ دو تعزیتی دو تہنیتی اور دو ۔۔۔۔۔ کچھ تھے اب یاد نہیں کیا تھے۔ اردو نیوز اور سیاست میں چار مرتبہ خبر شائع ہوئی۔ منصف والوں نے تو باضابطہ سی جی صاحب کے ساتھ میری تصویر بھی چھاپی"۔
ہمیں واقعی ڈاکٹر صاحب کے ترقی کیے بغیر سعودی عرب سے چلے جانے پر افسوس ہے۔ نہ خود ترقی کی نہ ہمیں ترقی کرنے دیا۔ افسوس ہوتا ہیکہ ہم نے اتنے سال ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ضائع کر دیے۔ کیونکہ رہنے کے لیے نیوز سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ شائد اسی لیے جدہ میں بعض لوگوں کو دیکھا جو گھر کے کسی کونے میں اگر آگ لگ جائے تو پہلے گروپ فوٹو لے کر اخبار کے دفتر بھیجتے ہیں پھر فائر بریگیڈ کو فون کرتے ہیں۔ لوگ معروف ہونے کے لیے جلدی کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے غیر معروف ہونے میں کئی سال لگائے، کبھی صدارت بھی کی تو آخری صف میں بیٹھ کر کی۔
البتہ ان کی ایک عادت ہمیں بالکل پسند نہیں۔ پروگراموں میں ٹھیک وقت پر آجاتے ہیں اور پروگرام وقت پر شروع نہ ہو تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ تاخیر تو ہند و پاک کی شاندار روایت رہی ہے۔ جس طرح امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے اسی طرح ہر پروگرام تاخیر سے شروع کرنا ہماری تہذیب ہے۔ وقت پر آکر بجائے خود شرمندہ ہونے کے، یہ خوامخواہ منتطمین کو شرمندہ کرتے ہیں۔

بہرحال ڈاکٹر صاحب نے کئی خوشحال سال سعودی عرب میں گزارے، اب ان کے لیے دعا کی ضرورت ہے کیونکہ جیسا کہ ایک صاحب نے کہا:
"ہم شادی کے بعد پچیس سال تک بہت خوش رہے"۔
ہم نے پوچھا: "پھر کیا ہوا؟"
انہوں نے بڑے ملال سے کہا کہ: "پھر ہم ساتھ رہنے لگے"
گھر والے لڑکے کی شادی کے لیے اس کے بڑے ہونے کا انتظار کرتے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں آدمی شادی اس وقت کرتا ہے جب اسے یہ یقین ہو جاتا ہیکہ وہ اس سے مزید بڑا نہیں ہو سکتا اور وہ ریٹائر اس وقت ہوتا ہے جب اسے یہ یقین ہو جاتا ہیکہ اب وہ مزید بڑا نہیں رہ سکتا۔ بڑھاپا دوسرا بچپن ہوتا ہے، جوانی پوری سعودی عرب میں کاٹ کر اب یہ وطن لوٹ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ جب امریکی ریٹائر ہوتا ہے تو کتوں اور پودوں کی نگہبانی کرنے لگتا ہے۔ سعودی جب ریٹائر ہوتا ہے تو دوسری یا تیسری شادی کرتا ہے۔ انڈین یا پاکستانی جب ریٹائر ہوتا ہے تو محلے کی مسجد کی انتظامی کمیٹی میں شامل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تینوں ملکوں سے تعلق رہا ہے، دیکھیے اب یہ کیا کرتے ہیں؟
ہم آخری میں قتیل شفائی کا یہ شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر کریں گے کہ:

اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Dr. Abdul Raheem, a person of caliber, by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں