آل سعود اور عثمانی سلاطین کا تقابلی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-13

آل سعود اور عثمانی سلاطین کا تقابلی مطالعہ

ottoman-sultans-saudi-kings

ہماری سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ سعودی عرب کے حالیہ حکمران خاندان آل سعود اور اس سے ماقبل سلطنت عثمانیہ کے حکمران خاندان عثمانی ترکوں میں خیر کے پہلو بھی ہیں اور شر کے بھی لیکن دونوں خاندانوں میں خیر کا پہلو غالب ہے لہذا اللہ عزوجل سے امید ہے کہ ان سے درگزر کا معاملہ فرمائے لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان دونوں کو ان کے شر کی وجہ سے پکڑ لے اور بالکل معاف نہ کرے، واللہ اعلم۔ البتہ ہم ان دونوں خاندانوں کے خیر کی وجہ سے ان سے محبت رکھتے ہیں اور ان میں موجود شر سے اعلان براءت کرتے ہیں اور ان دونوں ریاستوں کو ایسی مسلمان ریاستیں سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے دین کی بہت زیادہ خدمت کی ہے۔

کچھ عرصے سے ہمارے بعض دوستوں نے آل سعود اور عثمانی سلاطین کا تقابل شروع کر رکھا ہے کہ جس میں آل سعود کو عثمانی ترکوں کے مقابلے میں ڈاکو لٹیرے، غاصب، باغی اور خوارجی تک ثابت کیے جانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو کچھ زیادہ مہربان وست ہیں تو وہ تو عرب بادشاہوں کو "سور" اور "خنزیر" جیسی گالیاں دینے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ دوسری طرف عثمانی سلاطین کو خلفاء بنا کر یوں پیش کرتے ہیں جیسے وہ کوئی مقدس گائے ہوں۔ ہماری نظر میں اس تقابلی جائزے کے پیچھے محض مسلکی تعصب کارفرما ہے کیونکہ سعودی بادشاہ، سلفی فکر رکھتے ہیں اور عثمانی سلاطین، حنفی المذہب تھے۔

ہم جب آل سعود اور عثمانی سلاطین کے نظام حکومت اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حالیہ سعودی عرب میں جتنا اور جیسا اسلام نافذ ہے، عثمانی سلطنت میں اس سے کم اسلام نافذ تھا لہذا نظام کے اعتبار سے سعودی حکومت، عثمانی سلطنت سے زیادہ اسلامی ہے۔ دوسرا اللہ کے ہاں معلوم نہیں دونوں کا کیا مقام ہو گا، ہم اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ آل سعود اور عثمانی سلاطین کی تاریخ پڑھ کر یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ ظاہری اعتبار سے آل سعود کی دینداری واضح طور عثمانی سلاطین سے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔

بہرحال یہ میرا ایک تجزیہ ہے اور اس سے آپ کو دلیل کی بنیاد پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ بس کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ جو تاریخی حقائق میں بیان کر رہا ہوں، آپ ان کے مصدر کا تعین کر دیں۔ اور پھر یہ واضح کر دیں کہ ہمارے مصادر ناقابل اعتبار ہیں اور آپ اس کے برعکس جو دوسرا موقف رکھتے ہیں تو اس کے مصادر ہمارے بیان کردہ مصادر سے زیادہ مستند ہیں اور ان ان وجوہات سے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔ باقی اللہ عزوجل نے ہم انسانوں کو اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم یہ کرتے رہیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ (118) إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ۔

باقی یہ کہ میں مسلکی تعصب میں سعودی عرب کو سلطنت عثمانیہ سے بہتر اسلامی حکومت قرار دے رہا ہوں تو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اتنا کہنا چاہوں گا کہ جب عصر حاضر کی دو جہادی تحریکوں، تحریک طالبان افغانستان اور القاعدہ کا ہم نے اپنی کتاب "عصر حاضر میں تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج" میں تقابلی مطالعہ پیش کیا تو وہاں واضح طور تحریک طالبان افغانستان کو القاعدہ پر ترجیح دی ہے۔ ایک محقق کا کام مسلکی تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر حقائق کی جانچ پڑتال ہوتی ہے، لیکن ہوتا یہی ہے کہ جب نتیجہ مخالف فرقے کے حق میں جاتا ہو تو مخالفین محقق کو حق گو کہنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جب ان کے خلاف جاتا ہو تو وہی محقق مسلک پرست بن جاتا ہے۔ مسلک پرست محقق وہ ہوتا ہے کہ جس کی ہر تحقیق صرف اپنے مسلک ہی کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہو۔

سعودی عرب کے نظام پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ملوکیت ہے لیکن مجھے یہ بتلائیں کہ ملوکیت کی کون سی تعریف ایسی ہے کہ جس پر دولت عثمانیہ پوری نہ اترتی ہو ؟ کیا وہاں باپ کے بعد بیٹا جانشین نہیں بنتا تھا ؟ کیا وہاں چھ صدیوں تک ایک ہی خاندان کی حکومت نہیں رہی ؟ کیا اس خاندان نے بزور شمشیر اپنی حکومت قائم نہیں کر رکھی تھی ؟ تو اور ملوکیت کس کو کہتے ہیں ؟ دوسرا بڑا نقد یہ ہے کہ سعودی عرب کا نظام مکمل طور اسلامی نہیں ہے کہ وہاں سودی کاروبار کو حکومت وقت نے جواز بخش رکھا ہے جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مانا کہ سعودی عرب کا نظام مکمل طور اسلامی نہیں ہے اگرچہ اس کا آئین اسلامی ہے، اس میں شک نہیں۔

لیکن سعودی عرب کے نظام میں دو بڑی خیریں موجود ہیں؛ ایک یہ کہ ان کا آئین کتاب وسنت کو فائنل اتھارٹی قرار دیتا ہے اور اسی کو یعنی کتاب وسنت ہی کو مملکت کا آئین قرار دیا گیا ہے اور کتاب وسنت کی کسی متعین تعبیر کو بھی قانون کے طور نافذ کرنے سے گریز کیا گیا ہے جیسا کہ دستور کی پہلی دفعہ میں ہے: "مملکت سعودیہ مکمل طور پر خود مختار عرب اسلامی ملک ہے، اس کا دین ''اسلام''، دستور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ، زبان عربی اور دارالحکومت ''الریاض'' ہے۔ اور دفعہ 48 میں ہے: "تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت اسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کریں گے جس طرح کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ سے ثابت ہیں۔ اور ولی الامر (امیر) کی طرف سے نافذ کردہ ان قوانین کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے مخالف نہ ہوں۔"

اسی طرح دفعہ 46 میں ہے: "عدلیہ'' ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہو گا جس پر شریعت اسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔" اور سعودی عرب کے نظام میں دوسرا خیر یہ ہے کہ کتاب وسنت کی تعبیر کا کام سکہ بند علماء پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں قاضی اور ججز حضرات علماء وفقہاء ہوتے ہیں جو ملکی آئین یعنی کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ لہذا سعودی عرب میں کوئی متعین قانون نافذ نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت براہ راست نافذ ہیں یعنی ان کی نصوص۔ اور ان نصوص کی تعبیر علماء پر چھوڑ دی گئی ہے۔

البتہ سعودی عرب نے "نظام" کے نام سے کچھ قوانین کو نافذ کیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ "نظام" شریعت کے دائرے سے باہر کی چیز ہے جیسا کہ ویزہ اور دوسری اقوام سے تجارتی لین دین کے قوانین وغیرہ۔ ان کے نزدیک جہاں دوسری اقوام سے لین دین کا معاملہ آتا ہے تو اس پر اسلامی دستور لاگو نہیں ہو گا جیسا کہ دستور کی دفعہ 81 میں ہے: "اس دستور کو ان معاہدات اور بین الاقوامی سمجھوتوں پر نافذ العمل نہیں کیا جائے گا جو مملکت نے دوسری حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے طے کئے ہوئے ہیں۔"

اگرچہ اس معاملے میں سعودی عرب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ "نظام" کی بعض چیزیں شریعت کے دائرے میں براہ راست آتی ہیں لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں انسانی زندگی کے ایک بڑے دائرے میں کتاب وسنت نافذ ہے بلکہ نظام سے متعلق اگرچہ عدالتیں علیحدہ سے بنی ہوئی ہیں لیکن نظام کے تحت کوئی مسئلہ اگر کسی شرعی عدالت میں چلا جائے تو اس کا فیصلہ شریعت کی روشنی میں ہی ہوتا ہے اور وہ نافذ العمل بھی ہوتا ہے۔ تو سعودی عرب میں دو قانونی نظام چل رہے ہیں؛ ایک شرعی قانون اور دوسرا نظام کے عنوان سے دنیاوی قوانین۔

دوسری طرف سلطنت عثمانیہ سے سعودی عرب کو جو عدالتی نظام وراثت میں ملا تھا، اس میں فوجداری قانون فرانسیسیوں کا تھا کہ جسے ختم کر کے مملکت میں اسلامی حدود کا نفاذ کیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے فرنچ ضابطہ فوجداری کو اپنے ہاں 1840ء میں نافذ کیا تھا۔ یہ واضح رہے کہ انیسیویں صدی کے آغاز سے ہی سلطنت عثمانیہ میں یورپین ممالک کے قوانین کا نفاذ شروع ہو چکا تھا اور انیسیویں صدی کے اختتام تک صورت حال یہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ میں سوائے ایک سول لاء یعنی مجلہ الاحکام العدلیہ کے ہر قانون یورپی اقوام سے ماخوذ ومستعار تھا اور مجلہ الاحکام العدلیہ کا نفاذ بھی اس عرف کے ساتھ تھا کہ عدالتوں میں قاضی حضرات اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند نہیں تھے۔ تو گویا سلطنت کا واحد اسلامی قانون بھی آپشنل ہی تھا۔

البتہ انیسیویں صدی عیسوی سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے قانونی مصادر میں شریعت [فقہ حنفی] کے علاوہ، قانون [عثمانی سلاطین کے تحریری فرامین]، قومی وملکی رسم ورواج اور مقتدر سلطان کے فرامین شامل ہوتے تھے۔ اگرچہ کہا یہی جاتا تھا کہ عثمانی سلاطین کے فرامین، شریعت سے بالاتر نہیں تھے لیکن عملا ایسا نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عثمانی سلاطین نے جو چیزیں اپنے فرمان کے ذریعے بطور قانون نافذ کروانی ہوتی تھیں تو وہ علماء وفقہاء سے زبردستی اس کے حق میں فتوے لے لیتے تھے جیسا کہ سلطان محمد الفاتح نے سب سے پہلے بھائی کے قتل کا قانون نافذ کیا تھا اور اس کے فرمان میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اس نے علماء وفقہاء کی اجازت سے یہ قانون جاری کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق عثمانی خلیفہ کے لیے یہ فرض تھا کہ وہ اپنے تمام بھائیوں کو قتل کروا دے یہاں تک کہ سلطان محمد الفاتح نے تو اپنے شیر خوار یعنی دودھ پیتے بھائی کو قتل کروا دیا تھا۔ [جاری ہے]

~~~~~
دوست کا کہنا ہے کہ آل سعود کو عثمانیوں پر ترجیح دینے کی معقول وجہ آپ کے پاس کیا ہے؟

جواب:
اس کی معقول ترین وجہ یہ ہے کہ آل سعود کی حکومت توحید کے نعرے پر وجود میں آئی اور یہ آل سعود اور آل الشیخ کے باہمی معاہدے کا نتیجہ تھی جو تقریبا 1158 ہجری میں ہوا کہ جس کے مطابق امیر درعیہ محمد بن سعود نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کی تھی کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اسے اسپورٹ کریں گے تو وہ بدلے میں توحید کا نظام قائم کرے گا، شرک اور بدعات کا خاتمہ کرے گا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اہتمام کرے گا۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کے نتیجے میں پہلے امیر عیینہ نے محمد بن سعود کی بیعت کی اور پھر اہل حریملا نے بھی کی اور اس طرح شروع میں دعوت کے نتیجے میں آل سعود کی سلطنت وسیع ہوئی۔ اس کے بعد مقامی عرب قبائل سے ان کی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں لیکن ان کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے متعبین کو اہل شرک وبدعت ستاتے اور اذیت پہنچاتے تھے کہ جس کے نتیجے میں یہ جھڑپیں ہوئیں اور نجد کے قلب پر 1187 ہجری تک آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ تاریخی کتب میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ چونکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کا آغاز نجد سے ہوا تھا جبکہ حجاز ابھی ان کے پاس نہیں تھا تو نجد کے حجاج کو حج کرنے سے باقاعدہ روکا جاتا تھا اور جو کسی طرح پہنچ جاتے تھے تو انہیں قید کر لیا جاتا اور اسی قید میں بہتوں کی وفات بھی ہوئی۔ اس کے بعد حجاز کی حکومت بھی بزور شمشیر آل سعود کے پاس آ گئی۔

لیکن والی مصر محمد علی پاشا نے آل سعود کو 1243 ہجری یعنی 1818ء میں درعیہ میں شکست فاش دے کر ان کی حکومت کو ختم کر دیا، وہابیوں کا خوب قاتل عام ہوا، آل سعود میں سے جو مسیر آئے انہیں پھانسی دے دی گئی جبکہ کچھ ادھر ادھر ہو گئے تھے اور تقریبا 80 سال تک آل سعود تتر بتر رہے۔ اس کے 1902ء میں عبد العزیز بن سعود نے اپنے حریف قبیلے آل رشید سے ریاض کی حکومت دوبارہ واپس حاصل کی۔ دوسری طرف شریف مکہ نے پہلی جنگ عظیم میں عثمانی سلطنت کی کمزور ہو جانے کی وجہ سے ان کے خلاف بغاوت کر کے حجاز پر اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تھا اور آل سعود نے مکہ المکرمہ 1925ء میں شریف مکہ سے حاصل کیا ہے نہ کہ عثمانیوں سے جو کہ خود عثمانی سلطنت کا باغی تھا۔

اب اعتراض یہ ہے کہ آل سعود نے مسلمانوں سے جنگیں کر کے نجد اور حجاز کا اقتدار حاصل کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عثمانی سلاطین نے شام ومصر، فلسطین وحجاز کے علاقے کیا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت میں حاصل کیے تھے ؟ سامنے کی بات ہے ناں کہ عثمانیوں کے جد امجد نے ایشیائے کوچک میں ایک چھوٹی سی شہری سلطنت کی بنیاد رکھی تھی تو اس کے بعد جو سلطنت میں اتنی توسیع ہوئی ہے، تو وہ کیا انگریزوں سے ہی لڑ کر ہوئی ہے ؟ عثمانیوں نے مصر وشام "ممالیک" سلاطین سے حاصل کیا۔

پہلے 1516ء میں حلب کے مقام پر جنگ میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور شام عثمانی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد 1517ء میں مصر فتح ہوا، قاہرہ میں خوب قتل عام ہوا جس کے نتیجے میں عثمانیوں کے ہاتھوں پچاس ہزار مسلمان مارے گئے کیونکہ مصر کے ممالیک نے مزاحمت خوب کی تھی۔ تو عثمانیوں نے بھی مسلمانوں کے قتل عام کے نتیجے میں تمام مسلمان علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا، تو اگر آل سعود کے ہاں یہ باہمی قتل وغارت ناجائز ہے تو عثمانیوں کے ہاں کیسے جائز ہے ؟ یا تو دونوں جگہ ناجائز کہیں، یا دونوں جگہ جائز کہیں۔ اور عثمانیوں نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے مسلمانوں کی جس قدر قتل وغارت کی ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ آل سعود نے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا کیونکہ اتنی وسیع سلطنت کا قیام اتنے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کے بغیر ممکن نہ تھا۔

اور عثمانیوں کو اقتدار کا یہ خمار بہت شروع میں ہی چڑھ گیا تھا جیسا کہ عثمانی حکمران سلطان بایزید نے امیر تیمور سے الجھنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں 1402 ہجری میں انگورہ کی جنگ ہوئی اور عثمانیوں کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ ایک مرتبہ عثمانی سلطنت ختم ہو گئی جیسا کہ آل سعود کی حکومت بھی ختم ہو گئی تھی۔ اور امیر تیمور سلطان بایزید کو قید کر کے پنجرے میں لیے اپنے ساتھ مہینوں پھرتا رہا۔ امیر تیمور نے قیدی سلطان بایزید کو یہی کہا کہ کفار یعنی یورپ کے ساتھ تمہارے جہاد کی قدر میرے دل میں ہے اور جب تک تم وہ کرتے رہتے، میں تمہیں ہر طرح سے اسپورٹ کرتا، مال سے بھی اور لشکر سے بھی، لیکن تم مجھ سے الجھنے لگ گئے اور نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔

اور سلطان سلیم نے یہ سب قتل وغارت گری صرف اس لیے کی تھی کہ اس کے نام کا خطبہ پڑھا جائے اور اسے خادم الحرمین الشریفین کا لقب حاصل ہو لیکن دوسری طرف آل سعود کے ہاں اس قتل وغارت کی کوئی مذہبی وجہ موجود تھی، اور وہ شریعت کا نفاذ تھا، اب بھلے آپ اس مذہبی وجہ سے اتفاق نہ کریں اور انہیں خوارجی قرار دیں لیکن عثمانیوں کے پاس تو سوائے ذاتی اقتدار کے اور کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔ پھر یہ کہ عثمانیوں کے جد امجد ارطغرل متوفی 1288 ہجری نے جب اس سلطنت کی بنیاد رکھی تھی تو مذہب دور دور تک اس کے پیش نظر نہیں تھا، وہ صرف اپنے قبیلے کا اقتدار چاہتا تھا بلکہ بعض مورخین کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن یہ ایک ضمنی بحث ہے۔

البتہ یہ واضح ہے کہ آل سعود کی حکومت ایک مذہبی معاہدے کا نتیجہ تھا جبکہ عثمانیوں کی حکومت، آل سلجوق کی حمایت کا نذرانہ تھی اور اس کے بدلے عثمانیوں نے آل سلجوق سے رہتے دم تک وفا کی، اس میں شک نہیں۔ پھر آل سعود پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو قتل کروا دیتے ہیں تو یہی کام عثمانیوں نے کیا ہے بلکہ آل سعود سے بہت بڑھ چڑھ کر کیا ہے۔ تو دونوں نے غلط کیا ہے ہم کسی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن ہم صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ عثمانی جب اپنے بھائیوں کو قتل کر دیتے تھے، ان میں سے بعض بغاوت کے نتیجے میں قتل ہوتے تھے اور بعض نے ابھی بغاوت نہیں کی ہوتی تھی، پھر بھی قتل کر دیے جاتے تھے اور اس کی دلیلیں قرآن سے ڈھونڈی جاتی تھیں کہ فتنہ، قتل سے بھی بڑا گنا ہے۔ تو آل سعود تو اس حد تک نہیں گرے کہ اپنے بھائیوں کو محض بغاوت کے اندیشے سے ہی قتل کروا دیں اور اس کا کوئی اسٹیٹ آڈر بھی جاری کروا دیں۔

پھر الزام یہ ہے کہ آل سعود نے اہل تشیع کو دبا کر رکھا ہوا ہے اور ذرا سے احتجاج پر انہیں قید کر دیتے ہیں یا پھانسی چڑھا دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ ایرانی حمایت میں بغاوت پیدا کر دیں گے اور یمن میں محض مسلکی بنیادوں پر حوثیوں سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یہی کام عثمانیوں نے بھی کیا ہے اور آل سعود سے کئی گنا بڑھ کر کیا ہے جیسا کہ سلطان سلیم نے اہل تشیع سے بغاوت کے اندیشے میں ایک دن میں چالیس ہزار شیعہ کو قتل کروا دیا اور تیس ہزار کو قید میں ڈال دیا کہ جس کے نتیجے میں عثمانیوں کی ایران سے جنگ ہوئی کیونکہ وہاں شاہ اسماعیل حکمران تھا جو متشدد شیعہ تھا اور ایران میں سنیوں کے قتل عام اور بیخ کنی میں مصروف عمل تھا۔ اور 1514ء میں تبریز کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں عثمانیوں کو ایرانیوں پر فتح حاصل ہوئی اور یہ مشہور ومعروف جنگ ہے۔

~~~~~
پھر اچھے بھلے پڑھے لکھے احناف کا دعوی ہے کہ آل سعود خوارجی ہیں کہ انہوں نے عثمانیوں کے خلاف خروج کیا تھا۔ اصل میں ان بیچاروں کا اور کوئی مسئلہ نہیں، بس انہیں سلفیوں کے خاف چارج کیا گیا ہے اور یہ چارج انہیں ان کے علماء نے کیا ہے۔ تاریخ نجدیہ، تاریخ وہابیت، تاریخ نجد وحجاز جیسی کتابیں اور پھر ابن عابدین شامی سے لے کر مولانا حیسن احمد مدنی تک کے فتاوی نے یہی کام کیا ہے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے مولانا علی میاں اور مولانا منظور احمد نعمانی کا کہ ان جیسے اہل علم نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے چند کلمات خیر کہہ دیے، ورنہ برصغیر کے حنفی، سعودی سلفیت کو سفلیت سے کم درجہ تیار دینے کو جو تیار نہیں ہیں، ان کے پیچھے حنفی علماء کے فتاوی کا ہاتھ ہے۔ جو وجہ جواز ان کبار حنفی علماء کے پاس ہم پر تنقید کی تھی، وہی ہمارے پاس جواب کی ہے۔

تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں یہ اعتراض نہیں کرنا پڑے گا۔ پہلی بلکہ دوسری مرتبہ بھی سعودی سلطنت کا مرکز نجد کا علاقہ تھا۔ اور نجد 500 ہجری کے بعد کسی بڑی سلطنت کی عملداری میں نہیں رہا اور نہ ہی یہاں عثمانیوں نے کبھی قبضہ کیا بلکہ یہاں کا نظام حکومت یہ تھا کہ مختلف شہروں پر مختلف قبائل کے امراء کا قبضہ تھا اور کوئی مرکزی حکومت قائم نہ تھی۔ پہلی سعودی سلطنت 1744ء میں درعیہ یعنی نجد میں آل سعود اور آل الشیخ میں باہمی معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوئی۔ اور جہاں تک حجاز پر قبضے کی بات ہے تو حجاز اگرچہ عثمانیوں کی عملداری میں تھا لیکن آل سعود نے اس پر حملہ میں پہل نہیں کی۔ البتہ آل سعود کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے ڈر کر شریف مکہ نے 1795ء میں ںجد پر حملوں کی ابتداء کی جس کے نتیجے میں حجاز میں ہی عثمانیوں کے خلاف مقامی قبائل نے بغاوت کر دی اور وہ کمزور پڑ گئے۔ اور آل سعود نے مکہ المکرمہ 1806ء میں قتال نہیں بلکہ صلح کے نتیجے میں حاصل کیا کیونکہ ان کا اثر ورسوخ حجاز کے قبائل میں بھی بڑھ چکا تھا۔

البتہ "احساء" کے علاقے کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ براہ راست عثمانیوں کی عملداری میں رہا تھا لیکن آل سعود نے یہ علاقہ بھی بنو خالد سے حاصل کیا تھا جو کہ عثمانیوں کے باغی تھے۔ عثمانیوں کی اس علاقے میں عملداری 1552ء سے 1669ء تک رہی تھی جبکہ آل سعود نے اسے بنو خالد سے بزور شمشیر 1794ء میں حاصل کیا تھا۔ البتہ 1818ء کی جنگ میں آل سعود کی شکست کے بعد یہ علاقہ دوبارہ عثمانیوں کے مصری گورنر محمد علی پاشا کے واپس پاس چلا گیا تھا۔ لیکن محمد علی پاشا کہ جس نے عثمانیوں کی ایماء پر آل سعود کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا، خود عثمانیوں کا باغی ہو گیا اور 1832ء کی جنگ میں عثمانیوں کو شکست دے کر مصر پر قبضہ کر لیا اور اپنے تئیں اسے عثمانیوں سے آزاد کروا لیا۔ اور آل سعود کے اثر ورسوخ کے بڑھنے کی اصل وجہ عثمانیوں کا محلاتی سازشوں میں الجھ جانا تھا۔ جب آل سعود نجد وحجاز میں اپنی حکومت قائم کر رہے تھے، اس وقت سلطان مصطفی الرابع اپنے باپ سلطان سلیم الثالث کو قتل کر کے خود پایہ تخت کو سنبھال رہا تھا۔ اور پھر سلطان مصطفی الرابع نے بھی کوئی ایک سال ہی حکومت کی ہو گی کہ اس کے بھائی سلطان محمود الثانی نے اسے قتل کر کے سلطنت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔

تو آل سعود پر خروج کا الزام لگا کر انہیں عثمانی سلطنت کی کمزوری کا سبب بنانے کی بجائے خود عثمانیوں کی باہمی ریشہ داوانیوں اور جنگوں پر غور کریں۔ جتنے خروج عثمانیوں نے عثمانیوں کے خلاف کیے، اتنے شاید ہی اور سبھوں نے مل کر ان کے خلاف کیے ہوں۔ یہاں تو اگلی حکومت ہی خروج پر قائم ہوتی تھی۔ سلطان بایزید کے چار بیٹے محمد، سلیمان، عیسی اور محمد آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ محمد سلطان بن گیا۔ بایزید کے تین لڑکے کرکود، احمد اور سلیم آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ سلیم غالب آ گیا اور اپنے باپ بایزید کو تخت سے اتار کر حکمران بن گیا۔ پھر آل سعود کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ عثمانیوں کے خلاف کفریہ طاقتوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ یہ کام آل سعود نے تو کیا ہو یا نہ لیکن عثمانی شہزادوں نے ضرور کیا ہے۔ یہ شہزادے آپس کی باہمی جنگوں میں غالب آنے کے لیے یورپ کے عیسائی حکمرانوں کے آلہ کار بنتے رہے۔ اس حوالے سے ایک ترک شہزادے جم کی کہانی کافی معروف ہے۔ تو پہلے تو ان بغاوتوں اور خروجوں کی شرعی حیثیت کا تعین کریں جو عثمانیوں نے عثمانیوں کے خلاف برپا کیے ہیں، پھر آل سعود کی بات کیجیے گا۔

دوسری مرتبہ کی سعودی سلطنت 1902ء میں قائم ہوئی اور اس مرتبہ بھی نجد پر عثمانیوں کی عملداری نہیں تھی اور آل سعود نے ریاض آل رشید سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد حجاز بھی 1925ء میں آل سعود نے شریف مکہ سے حاصل کیا ہے جو کہ عثمانیوں کا باغی تھا اور اس نے بغاوت کر کے 1916ء میں حجاز میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ پھر اعتراض یہ ہے کہ آل سعود برطانوی استمعار سے معاہدے کے تیجے میں وجود میں آئے لہذا یہ اس کے گماشتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئے البتہ انہوں نے ریاست قائم کر لینے کے بعد برطانیہ سے معاہدہ ضرور کیا، اس لیے کہ وہ اس وقت سپر پاور تھا، اور اس لیے کہ وہ اسے تسلیم کرے۔ میں نے معاہدہ پڑھا ہے، مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں ہو سکی جو ان حالات میں کسی قوم کے لیے شرعی طور ناجائز ہو سکے کہ اس معاہدے کی اصل یہ تھی کہ برطانیہ انہیں تسلیم کرے گا اور وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر ان مسلمان علاقوں پر حملہ نہیں کریں گے کہ جن پر برطانیہ کا قبضہ ہے۔

دیکھیں، معاہدہ تو ریاست مدینہ نے بھی مدینہ کے یہود سے کیا تھا یعںی میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ سے بھی کیا جیسا کہ صلح حدیبیہ۔ تو کیا کفار سے صرف معاہدہ کرنے سے مسلمان کفار کے گماشتے بن جاتے ہیں ؟ پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی برطانیہ سے ایک معاہدے کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا، کیا ہم محض اس بنیاد پر اسے برطانوی استعمار کی پیداوار کہہ دیں کہ اس کا خالق برطانیہ ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو آل سعود کے خلاف حنفی مولویوں کی طرف سے چارج زیادہ کیا گیا ہے، ان کے سلفی ہونے کی وجہ سے۔ باقی یہ سوال کہ آپ عثمانی سلطنت کو خلافت سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ ملوکیت والی خلافت تھی جیسا کہ سعودی عرب میں ہے۔ اور میرے نزدیک ملوکیت والی خلافت، خلافت کا ہی ایک درجہ ہے کہ جس میں کم از کم مسلمانوں کی سیاسی اور ملی وحدت برقرار رہتی ہے۔ 1876ء کے عثمانی اساسی دستور کی دفعہ 3 میں واضح طور موجود ہے کہ اقتدار آل عثمان سے باہر نہیں جائے گا اور اس کے بڑے بیٹے کو منتقل ہو گا۔ دوسری طرف سعودی عرب نے کم از کم اپنے دستور میں یہ طے کیا تھا کہ اقتدار شریعت پر عمل کرنے والے بیٹے کو منتقل ہو گا۔ بڑا ہونا کوئی معقول وجہ نہیں ہے لیکن افسوس کہ آل سعود کے ہاں بھی اس شق پر عمل نہیں کیا گیا۔

باقی اس ساری بحث میں اصل سوال ہے کہ تاریخ میں جب یہ بات ثابت ہے کہ اس قسم کی مسلمانوں کی باہمی قتل وغارت گری کے بغیر کوئی بڑی اسلامی سلطنت قائم نہیں ہو سکی اور جو قائم ہوئیں، وہ آج ہمارے لیے آئیڈیل ہیں تو پھر آج القاعدہ، داعش اور طالبان افغانستان کو اس باہمی قتل وغارت گری پر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ؟ کیا یہ امکان نہیں ہے کہ اگر انہیں غلبہ حاصل ہو جائے تو سو سال بعد وہ بھی مسلمانوں کے خلیفہ اور ہیرو قرار پا جائیں، ہماری خود کش حملہ آوروں کے خلاف کی جانے والی تمام فیس بکی پوسٹوں کے باوجود۔ ہم ماضی اور حال میں کیوں ایسا فرق روا رکھتے ہیں کہ ماضی پر ہونٹ سی لیں اور حال کے واقعات پر تنقید کریں۔ کیا ماضی، صرف روایت ہونے کی وجہ سے مقدس گائے بن گیا ہے ؟ تو خلافت کی روایت کو بھی ناقدانہ نظر سے دیکھیں۔ بلاشبہ یورپ کے خلاف جہاد میں عثمانیوں کی بہت خدمات ہیں، ان کی سلطنت ایک مذہبی سلطنت تھی کہ جس میں خیرغالب تھی لیکن یہ سلطنت جس طرح سے قائم ہو رہی تھی یعنی مسلمانوں کے باہمی قتال کے نتیجے میں تو کیا وہ طریقہ جائز تھا ؟

ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہے، اچھا یا برا، اس لیے اس سوال کا جواب لازم ہے تا کہ عصر حاضر کی اسلامی تحریکوں کے لیے کوئی لائحہ عمل طے ہو سکے۔ ہماری رائے میں مسلمانوں کے ہر قسم کے باہمی قتال کی نفی کرنی ہے اور اسے شر ہی کہنا ہے لیکن اگر اس کے نتیجے میں کسی گروہ کو اقتدار اور غلبہ حاصل ہو جائے تو اب اسے تسلیم کر لینا چاہیے، چاہے وہ سلفی ہو یا حنفی۔ ہم نے طالبان افغانستان کے بارے یہی کہا تھا کہ افغانستان میں ان کا غلبہ شر یعنی مسلمانوں کی باہمی قتل وغارت کے رستے ہوا لیکن جب ہو گیا تو اب تسلیم کر لینا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ تو بہت مرتبہ اللہ عزوجل شر سے خیر برآمد کر دیتے ہیں لیکن ہم شر کو شر ہی کہیں گے، بھلے اس سے برآمد ہونے والا خیر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اور ہم شر سے خیر پیدا کرنے والے رستوں کے خلاف بھی بات کریں گے کہ ان کا استعمال کسی طور جائز نہیں ہے۔ باقی آل سعود کوئی مقدس گائے نہیں ہیں، ان کے حالیہ حکمرانوں کو ضرور تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن مسلکی تعصب نکالنے کے لیے نہیں، امت کی خیر خواہی کے جذبے سے۔ اور وہ تبھی نظر آئے گی جبکہ ان کے شر پر نقد کے ساتھ ان خیر کی تعریف بھی کریں گے۔ اگر آپ حنفیوں کو آل سعود میں کوئی خیر نظر نہیں آتا تو پھر سلفیوں کو بھی عثمانیوں میں کوئی خیر نظر نہیں آئے گا۔ آپ اکثریت میں ہیں، اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ہر وقت لینے والا ہاتھ آگے کیے رکھیں۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

The comparative study of Ottoman Sultans & Saudi Kings. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

1 تبصرہ:

  1. پہلے پیراگراف کو پڑھ کر ہی مصنف کی ناانصافی اور نااہلی کا پتہ چل گیا تھا ، سعودیہ جب اسلام پر عمل کر رہا ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ واضح طور پر ترکی میں معاہدہ لوزان اور مصطفیٰ کمال کی پچھلی صدی کی بےوقوفانہ حکومت نے ہی ان کو اس نہج پر پہنچایا ہے جبکہ آل سعود پر نے جب بھی مشکل وقت آیا تو اسلام دشمنوں سے کسی نہ کسی طرح رابطے میں رہ کر خود کو جھکا دیا، یہ تحریر صرف عربوں کو اونچا (جو کہ موجودہ عرب نہیں ہیں) دکھانے کے لیے لکھی گئ ہے

    جواب دیںحذف کریں