مسلم پرسنل لا بورڈ ، علما اور مشائخین کی ایک مجرمانہ غفلت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-25

مسلم پرسنل لا بورڈ ، علما اور مشائخین کی ایک مجرمانہ غفلت

mplb-clerics-scholars-criminal-negligence

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا پچھلے ہفتہ حیدرآباد میں دو روزہ ورکشاپ منعقد کیا گیا، اور آئے دن کہیں نہ کہیں ایسے سیمینار اور ورکشاپ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ موضوعات وہی پرانے یعنی اصلاحِ معاشرہ، تحفّظِ شریعت، تین طلاق، دارالقضا وغیرہ ہوتے ہیں اور مقرّرین وہی حضرات جو برسہابرس سے وہی تقریریں دوہراتے آرہے ہیں۔ اس پر ہمیں اعتماد صدیقی مرحوم کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
کیا مرے عہد کا تقاضہ ہے
کیا صدا آرہی ہے منبر سے

ذمہ دارانِ بورڈ سے التماس ہیکہ غورفرمائیں کب تک ہم یہ طلاق کا ریکارڈ بجاتے رہیں گے؟ جس طرح مودی حکومت اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے بابری مسجد، تین طلاق یا این سی آر کے ایشوز پیدا کرتی ہے کیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی یہی نہیں کر رہا ہے؟ کیا ایسے نہیں لگتا کہ تحفّظِ شریعت کا پورا موضوع آ کر طلاق پر ختم ہو چکا ہے؟ یہ بتایئے کہ آج کی تاریخ میں کتنی طلاقیں ہو رہی ہیں اور اس کے مقابلے میں نکاح کتنے ہو رہے ہیں؟ یہ کیسی فقہ اور کیسی شریعت ہم نے اپنے اوپر مسلّط کرلی ہے کہ طلاق سوسائٹی میں بمشکل ایک فیصد ہوتی ہے جبکہ شادیاں 99 فیصد گھروں میں ہوتی ہیں، کیا وجہ ہے کہ طلاق کے موضوع پر تو سینکڑوں سیمینار، جلسے اور خطبے منعقد کئے جارہے ہیں، کروڑہا روپیہ برباد کیا جارہا ہے، ہر عالم ہر خطیب اور ہر لیڈر بس تین طلاق کے چولھے پر اپنی روٹیاں سینک رہا ہے، صحیح سنّتِ نکاح کو قائم کرنے کے بارے میں تو کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا؟
صحابہؓ کی تاریخ سے طلاق کے واقعات جمع کرکے طلاق کے قوانین مرتّب کردیئے گئے، ضخیم کتابیں اور ہزاروں مضامین ان قوانین کی وضاحت میں لکھ دیئے گئے، طلاق کے قوانین پر اِس قدر بحث اور اِس قدر زور کہ ایسے لگتا ہے کہ اسلام صرف طلاق پھیلانے آیا تھا۔ اور ان قوانین کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ایسے ایسے صحابیوںؓ کے واقعات کو لا کر قانون بنادیا گیا جن صحابیوں کے نام اُس واقعہ کے علاوہ تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتے۔ جب خود رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے بے شمار واقعاتِ نکاح جن کی روشنی میں ایک مکمل قانون ِ نکاح تدوین کیا جاسکتا تھا یہ کام کیا ہی نہیں گیا اور سنّتِ نکاح محض ایک مستحب یا فرضِ کفایہ بن کر رہ گئی۔
جہاں فقہ ہر ہر فعل کو واجب، فرض، موکّدہ، غیرموکّدہ، نفل ، مستحب یا مباح کی فہرست میں رکھتی ہے اس کی رو سے علما اورمفتی کرام یہ بتائیں کہ جس طریقے پر رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور جس طریقے پر صحابہؓ نے نکاح کیا اسی طریقے پر نکاح کرنا واجب ہے، فرض ہے، موکّدہ ہے ، غیرموکّدہ ہے، نفل ہے ، مستحب ہے، ضروری ہے یا ضروری نہیں ہے؟
علما اور مفتی کرام یہ بھی بتائیں کہ " النکاح من سنّتی" سے مراد نکاح کرنا ، طریقہ چاہے جیسے بھی ہو ، یہ ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طریقے پر آپ ﷺ نے نکاح یعنی شادی کی بات چیت سے لے کر ولیمہ تک ساری تقریبات کو منعقد فرمایا؟ بالکل اسی طرح نکاح منعقد کرنا کیا ضروری ہے؟

حدیث کی رو سے سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ ہو۔ اس حدیث کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ سب سے بدترین نکاح وہ ہے جس میں زیادہ خرچ ہو۔
اگرچہ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ، علما اور مشائخین نے کبھی فضول خرچی کرنے نہیں کہا، انہوں نے ہمیشہ آسان شادی کرنے ، جہیز نہ لینے اور ہندوؤانہ رسموں سے پرہیز کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ فرمانِ رسول ﷺ جان لینے کے بعد بھی اگر کوئی شخص بدترین شادی کرنے پر تلا ہوا ہو، سمجھانے کے باوجود وہ اپنی استطاعت، برادری یا کاروباری یا سیاسی یا سماجی ضرورت کا واسطہ دے کر سنّت کے خلاف عمل کرنے کیلئے شدّت پسندی پر اتر آیا ہو، فخر و ریا یا زمانے کے چلن یا عورتوں کی ضد کی وجہ سے منگنی، سانچق، جہیز، ہُنڈا (جوڑے کی رقم)، جو کہ خوشی سے دینے اور لینے کے نام پر ایک دھوکہ ہے، ایسی شادی کو بلاجھجھک اسراف، تبذیراور غیرمسلموں کی نقل کہاجاسکتا ہو، کیا ایسی شادی میں شرکت کرنا قرآن ہی کی رو سے جائز ہے؟ اگر عام لوگ لاعلمی یا جہالت کی وجہ سے شریک ہوتے ہوںتو نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن علما ، مفتی اور مشائخین تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی شادیوں میں شرکت کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔ لیکن ایسی شادیوں میں یہ معزّز حضرات برابر شریک بھی ہوتے ہیں اور خوشی سے لینے یا دینے کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ خود اپنے گھر کی شادیاں بھی بجائے نبی ﷺ کے طریقے پر کرنے کے رامچندر جی اور سیتا جی کے نقشِ قدم پر کرتے ہیں۔ اسلئے مجبوراً ہمیں اِسے "مجرمانہ غفلت" کہنا پڑ رہا ہے۔ جب تک علما اور مشائخین ان دو سوالات کا جواب نہ دیں وہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہیں:
1۔ سنّتِ نکاح یعنی بات چیت سے لے کر شادی کے مکمل اختتام تک ہونے والی ساری تقاریب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2۔ کیا خلافِ سنّت تقریبات والی شادی کی کسی بھی تقریب میں شریک ہونا، پیٹ بھر کھاکر نکلنا جائز ہے؟

طلاق کے طریقے سے لوگوں کو واقف کروانے کی آج جس قدر محنت کی جارہی ہے اگر اس محنت کا آدھا حصہ بھی نکاح کے صحیح طریقے کو رائج کرنے پر لگادیں تو معاشرہ میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔ یاد رہے طلاق چاہے کوئی صحیح طریقے پر دے یا کہ غلط طریقے پر، اس سے نہ دوسروں کے دل میں طلاق دینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور نہ کوئی مبارکباد پیش کرتا ہے بلکہ ہر شخص مذمّت کرتا ہے، کوئی اس کی تعریف نہیں کرتابلکہ عبرت لیتا ہے۔ جبکہ اگر ایک نکاح غلط طریقے پر ہو تو سینکڑوں لوگ فتنے میں پڑتے ہیں، جو شادی جتنی غیرشرعی رسموں پر مبنی ہوتی ہے اتنی ہی مقبول ماڈل بن جاتی ہے، ہر مرد اور عورت اس سے بہتر کرنے کا ارمان لے کر وہاں سے نکلتے ہیں۔ جو جتنی تبذیر کرتا ہے اتنے زیادہ لوگ آکر اس کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،ہررسم کھلے عالم ہوتی ہے جبکہ طلاق کو لوگ چھپاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فتنہ کا سامان کرنے والے غیرشرعی تقاریب والے نکاح پر کوئی روک نہیں لگائی جاتی ، صرف غیرشرعی طلاق پر روک لگانے پر پورا زور صرف کیا جاتا ہے؟

مسئلہ یہ ہیکہ نکاح کے احکام کسی بھی حدیث یا فقہ کی کتابوں کے "باب النکاح" سے لے لئے جاتے ہیں۔ فقہ کی رو سے اگر ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہوجائے تو فقہی طور پر نکاح ہو جاتا ہے۔ منگنی، جہیز، جوڑا، مہرِ نقد وغیرہ اس نکاح کے جائز ہونے کے راستے میں حائل نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں زیادہ تر مولوی نکاح سے جوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ جب ایسا نکاح، سنّتِ نکاح کی تعریف میں داخل کردیا جاتا ہے تو پھر ایسی شادی کی دعوتوں کے مزے اڑانا بھی خودبخود جائز ہوجاتا ہے۔ کوئی بہت زیادہ متقی ہو تو اس کے نزدیک یہ چیزیں ناپسندیدہ ہیں لہذا وہ کہتا ہے کہ صرف شرکت کرنی چاہئے اور کھانا کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ لیکن وہ شرکت جائز ہے یا نہیں اس کی تحقیق کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ تعلقات ہر انسان کو شریعت سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ ورنہ اگر شریعت عزیز ہوتی تو وہ کبھی ایسی شادی میں شرکت کرنا تو دور کی بات ہے ایسے شادی کرنے والوں سے ایسے ہی دور رہتا ہے جیسے دیوبندی اور بریلوی یا اہلِ حدیث ایک دوسرے کی مسجدوں سے دور رہتے ہیں۔ اور کچھ مولوی "دعوت کو قبول کرنا چاہئے والی احادیث پیش کرکے ایسی پوری شادی کو جائز ہونے کی سند عطا کردیتے ہیں۔

شرکت کرنا جائز ہے یا نہیں اس کو معلوم کرنے کیلئے باب النکاح سے پہلے "باب الفتن" کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ جن شادیوں میں منگنی، جہیز، بارات کا کھانا اور جوڑے کی رقم شامل ہے۔ مہر تو گیارہ ہزار ہے لیکن لڑکی والوں کو گیارہ لاکھ خرچ کرنے پڑتے ہوں وہاں شرکت سے پہلے ہمیں بخاری اور ترمذی کے باب الفتن کا پڑھنا لازمی ہے۔ مہر کے احکام پڑھنے لازمی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں کہیں اُدھار مہر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ یا ہمیں کم از کم سورہ نساءکی آیت 43 پڑھنا لازمی ہے جس میں مرد کو قوّامیت اس بنیاد پر دی گئی کہ وہ مال خرچ کرتا ہے۔ جو مرد بجائے خود مال خرچ کرنے کے عورت سے خرچ کروائے، پلنگ، فریچر، گاڑی، بارات کا کھانا عورت سے لے تو یہ قرآن کی اس آیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اب علما اور مفتی حضرات یہ بتائیں کہ اِس آیت کی رو سے کیا مرد پر مال خرچ کرنے کی ذمہ داری شادی کے اگلے دن سے ڈالی گئی ہے؟ کیا شادی کے دن تک لڑکی والوں کو جیسے چاہے لوٹنے، ان سے خوب خرچ کروانے کی آزادی دے دی گئی ہے؟
یہ نکتہ نہ مسلم پرسنل لا بورڈ والے سمجھنا چاہتے ہیں نہ علما اور نہ مشائخین۔ اس وقت ایک طلاق یا تین طلاق سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ ایسی شادیوں میں شرکت کے جائز ہونے یا ناجائز ہونے کا مسئلہ ہے۔ کسی ناچنے والے کے سامنے لاکھ تقریریں کرلیں، جب تک اس کا ناچ دیکھنے والے آتے رہیں گے وہ برابر ناچے گا۔ ناچ دیکھنے والوں کو پہلے یہ بتائیں کہ وہ جائز کررہے ہیں یا ناجائز۔ جب ناچ دیکھنے والے نہ ہوں گے تو ناچنے والا خود یہ دھندا روک دے گا۔ اسی طرح ایسی شادیوںمیں جب تک شرکت کرنے والے موجود ہوں گے کوئی شادی سنّت کے مطابق سادگی سے نہیں ہوسکتی۔ جب تک لوگ اپنی زبان سے یہ نہیں کہیں گے کہ ہم ایسی غیرشرعی دعوتوں میں ہرگز شریک نہیں ہونگے شادیاں کرنے والوں کے دل میں کوئی کانٹا نہیں چبھے گا نہ ان کا ضمیر جاگے گا۔
لوگوں کا ضمیر جگانے کیلئے تقریر کی نہیں بلکہ علما کی جانب سے دعوت نامے کو قبول کرنے سے انکار کی ضرورت ہے۔ دعوت نامہ مسکرا کر قبول کر لینا اور شادی میں شرکت نہ کرنا بائیکاٹ نہیں کہلاتا بلکہ بزدلی کہلاتا ہے۔

بورڈ، علما اور مشائخین یہ بات نوٹ فرمائیں کہ اس وقت طلاق کے مسئلے سے پریشان خاندانوں کی تعداد پورے ہندوستان میں ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس غلط طریقۂ نکاح کی وجہ سے تباہ ہونے والے خاندانوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ گھر بِک رہے ہیں، سود پر پیسہ لینا یا پھر بھیک اور چندے مانگنا عام ہو رہا ہے۔ بھائی کنگال ہو رہے ہیں اور خود اپنی شادی میں دوسرے گھروں کو کنگال کر رہے ہیں۔ لڑکیاں غلط راستوں پر جارہی ہیں۔ بورڈ کے علما کو یہ خبر ہی نہیں کہ گاؤں گاؤں غربت و افلاس کا سبب یہی شادیاں ہیں، ہرشخص بیٹیاں جوان ہونے کے بعد بِلک رہا ہے، کسی مسیحا کیلئے تڑپ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اس کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کروا دے۔ بے شمار لوگ مولویوں کو کوس رہے ہیں کہ یہ صرف تقریریں کرتے ہیں۔ تقریریں ان کے درد کا درماں تو نہیں بن سکتیں۔ لیکن کیا کریں خود مولوی بھی بے بس ہیں۔ وہ اِس ظلم کو نہیں روک سکتے۔ اگر انہوں نے ان رسومات کو سختی سے حرام کہا یا ایسی شادیوں میں جا کر کھانے کو ناجائز کہا تو ان کی تنخواہیں بند ہوجاتی ہیں، اِن کے مدرسوں کے چندے بند ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ تنخواہیں اور چندے اُن امیرزادوں کی جیب سے آتے ہیں جو اپنے گھروں کی شادیاں کئی کئی لاکھ کی کرتے ہیں۔

مولوی حضرات دعوت قبول کرنے اور پیٹ بھر کھانے کی حدیثوں کی روشنی میں جواز نکال کردیتے ہیں کیونکہ انہوں نے باب الدعوة الطعام یا باب النکاح سے اخذ کرلی ہیں۔ انہیں چاہئے تھاکہ ایسی دعوتوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا حکم باب امربالمعروف میں تلاش کرتے۔ انہیں ترمذی حدیث 2712 ملتی جس میں منکرات کو ہاتھ سے روکنے یا زبان سے یا پھر دل سے نفرت کرنے کا حکم ملتا۔ یا ترمذی حدیث 4522 ملتی جسمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
"آدمی اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے"
صحابہؓ کے پوچھنے پر بتایا کہ :
"یعنی اپنے آپ کو خود ایسی مصیبت سے دوچار کرنا جِسے جھیلنے کی وہ استطاعت نہ رکھتا ہو"۔
کیا آج ہر شخص عام شادیوں کے برابر یا اس سے بہتر کرنے کی ہوس میں اپنے آپ کو اور اپنے آپ کو ہی نہیں سب کو ایسی مصیبت سے دوچار نہیں کر رہا ہے جسے جھیلنے کی کوئی بھی استطاعت نہیں رکھتا سوائے پانچ یا دس فیصد ان امیروں کے جن کی آمدنی یاتو باپ دادا کی میراث سے آرہی ہے یا پھر حرام کمائی سے؟۔ کیا کوئی اس دور میں حلال کمائی سے کوئی دوسو روپئے کا دعوت نامہ بنوانا گوارا کرسکتا ہے؟ اس طرح اسی حدیث کے بموجب ساری قوم خود اپنے آپ کو ذلیل نہیں کر رہی ہے؟

بورڈ کے علما یہی کہتے ہیں کہ وہ تو برابر جہیز کی برائیوں پر تقریریں کررہے ہیں، کوئی سننا نہیں چاہتا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان تقریروں کی ضرورت نہیں ہے۔ جہیز کی خرابیوں پر لاکھوں تقریریں اور وعظ ہوچکے ہیں۔ اگر شراب یا حشیش یا گُٹکے کی وجہ سے مریض مرنے کے قریب آچکا ہے تو اس کے سامنے شراب یا گُٹکے کے نقصانات مت گِنوایئے، پہلے اس سے یہ مہلک چیزیں چُھڑوایئے۔ تھوڑی تھوڑی کرکے نہیں بلکہ یکلخت چھڑوائیں گے تو تبھی مریض بچے گا ورنہ نہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ صدیوں پرانی رسمیں ہیں اچانک ختم نہیں کی جاسکتیں۔ تھوڑی تھوڑی کرکے کم کی جاسکتی ہیں۔ گویا جب تک کوئی مکمل شراب نہیں چھوڑے اس کے ساتھ بیٹھ کر سمجھاتے ہوئے دو دو گھونٹ بھی لینا چاہئے۔ کیا پیٹ میں کینسر کا ٹیومر ہو تو اسے فوری جڑ سے نکالنا چاہئے یا تھوڑا تھوڑا کرکے نکالنا چاہئے؟
ہمیں علما مشورہ دیتے ہیں کہ شراب بھی ایک دم حرام نہیں کی گئی، تھوڑی تھوڑی کرکے حرام کی گئی۔ واہ کیا خوب دلیل ہے۔ کیا اس دلیل کے پیشِ نظر کسی شرابی کو ہر ہفتہ ایک ایک گھونٹ کم کرنے کو جائز کہا جائیگا؟ بورڈ کے اصلاحِ معاشرہ کے ذمہ دار حضرات یہ محسوس کریں کہ بورڈ کی مقبولیت اور اثر پذیری جس تیزی سے کم ہو رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے نام پر تقریریں تو ہو رہی ہیں بلکہ صرف تقریریں ہی ہو رہی ہیں، وہ تقریریں ہورہی ہیں جنکی مثال یوں دیں تو غلط نہ ہوگا کہ بھوک سے مرنے والے کو فوری روٹی دینے کے بجائے اُسے ٹافیاں دی جا رہی ہیں۔ اب اصلاحِ معاشرہ کی تقریروں کو بند کرکے ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والوں کے خلاف جنگی پیمانے پر کام کیا جائے۔ حقیقت تو یہ ہیکہ شادیوں کی وجہ سے بربادی انہی تقریروں کی وجہ سے آئی ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ جتنے دین کا علم رکھنے والے جہیز اور کھانوں کے خلاف گرجدار تقریریں کرتے ہیں، کئی تو تقریریں کرکے لفافے بھی لے جاتے ہیں، وہی اپنے گھر کی شادیاں اپنے نبی ﷺ کے طریقے پر نہیں بلکہ زمانے والوں کی طرح کرتے ہیں، ایسی غیرشرعی تقریبات والی شادیوں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور تصویریں بھی کھنچواتے ہیں،کئی مشائخین تو ایسی دعوتوں کو اپنی شرکت سے تقدّس بخش کر نذرانے وصول کرکے لے جاتے ہیں تو لوگوں کی نظر میں اس سنّتِ نکاح کی اہمیت گھٹ گئی۔
خود بورڈ کے کئی ذمہ داروں کے گھروں کی شادیاں، بڑے بڑے مدرسوں کے بانیان اور علما کے گھروںکی شادیاں اور مشائخین کے گھروں کی شادیاں امبانی کی بیٹی کی شادیوں کی طرح ہوئی ہیں۔ جب لوگوں نے سوال کیا تو ان لوگوں نے "خوشی سے دینے اور لینے" کو جائز کرکے ہر آدمی کو فضول خرچی کرنے کا اجازت نامہ دے دیا اور ان لوگوں کی شادیوں میں شرکت کرکے جواز کو سند بھی عطا کردی۔ اب بتلایئے بھلا عام آدمی کیونکر ایسی لعنت بھری شادیوں سے توبہ کرے گا؟ کیا اب علما کی تقریریں اثر کریں گی؟

عام علما کے پاس سب سے آسان جواز یہ ہیکہ چونکہ ایسی شادیاں نہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں تھیں، نہ ائمّہ کرام کے عہد میں اور نہ اولیا اللہ کے دور میں ، اس لئے جن رسومات اور تقریبات کا فقہ کی کسی قدیم کتاب میں کوئی تذکرہ نہ ہو اسے مباح یا عرف کے نام پر جائز سمجھا جاتا ہے۔ اہم علما اور مشائخین جو حق بات جانتے ہیں وہ علی الاعلان نہیں کہہ سکتے کیونکہ پہلی وجہ یہ ہیکہ وہ برسہابرس سے ایسی کئی دعوتیں کھاتے آرہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہیکہ ان کے ہمعصر بااثر علما یا مشائخین کے گھروں کی شادیاں دھوم دھام سے ہوچکی ہیں اب ایسی شادیوں پر تنقید کرنا اور ان میں شرکت کو ناجائز کہنے سے نہ صرف اپنی ہی برادری کے علما و مشائخین پر حرف آتا ہے بلکہ انُ سے تعلقات بھی خراب ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہیکہ جو کہ ہم بیان کرچکے ہیں امیروں سے چندے اور مریدوں کے نذرانے بند ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسلئے یہ حق جاننے والے علما و مشائخین بھی حکمت کے نام پر مصلحت اور بہانے بازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جب تک بورڈ ایک فیصلہ کن بات نہ کرے، ایسی شادیوں میں شرکت پر، جس طرح طلاق پر ریسرچ کی گئی، اسی طرح اس موضوع پر ریسرچ نہ کروائے اور ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والوں کو دو ٹوک الفاظ میں شرکت جائز ہے یا نہیں ، نہ بتائے، یہ طوفان تھمنے والا نہیں۔
غربت و افلاس بڑھتا رہے گا اور یہ قوم مالی اعتبار سے ایک طرف دوسرے نہیں بلکہ تیسرے یا چوتھے درجے کی شہری بن جائیگی چوروں اچکّوں ڈرائیوروں اور سیلزمینوں یا واچ مینوں کی قوم بن جائیگی تو دوسری طرف اخلاقی اعتبار سے چوروں، لوگ کیا کہیں گے خوف سے جینے والے بزدلوں، کی قوم نکلے گی جو اپنے مرد ہونے کا فائدہ اٹھا کر لڑکیوں کے باپ کو لڑکی پیدا کرنے کی سزا کے طور پر مکمل فقیر کرکے رکھ دیں گے۔

یقیناً ہمارے حرام حرام یا جائز ناجائز کہنے پر علما و مشائخین چین بہ جبیں ہونگے لیکن ہم نے کوئی فتویٰ اپنی طرف سے نہیں دیا۔ ہم نے ان علمائے حق جو آج مٹّھی بھر چند ہیں جو حق کو ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کی ہمت رکھتے ہیں ان کے فتوؤں کو اپنی ویب سائٹ ، یوٹیوب اور فیس بک پر اجماع سیریز کے تحت پیش کر دیا ہے۔ ان علما میں دیوبند ، اہلِ سنت الجماعت ، اہلِ حدیث سلفی اور شیعہ علما شامل ہیں جنہوں نے واضح الفاظ میں ایسی شادیوں میں شرکت کو ناجائز بلکہ حرام کہا ہے جن میں لڑکی والوں سے خوشی سے دینے اور لینے کے نام پر منگنی، جہیز، ہنڈا، جوڑا اور بارات کا کھانا لیا جاتا ہے یا نوروز، جمعگی وغیرہ کی دعوتیں لی جاتی ہیں، نہ دینے کی صورت میں لڑکی کا مسقبل خطرے میں پڑنے کا خوف ہوتا ہے۔ اس طرح جو شادیاں ایک سوشیل بلیک میل یا ایموشنل بلیک میل کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں شرکت ہی وہ جرم ہے جو ایسی شادیاں خود کرنے والوں کے جرم سے کہیں بڑھ کر ہے۔

ہم نے غیر شرعی رسموں اور ان میں شرکت کیوں ناجائز ہے اس کے تعلق سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل تحقیق اپنی کتابوں "مرد بھی بکتے ہیں ۔۔ جہیز کیلئے" اور "نکاح یا وِواہ" میں تمام مکاتبِ فکر کے چوٹی کے علما کے مقدّمے کے ساتھ پیش کر دیا ہے جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
ہمارا مقصد صرف یہ ہیکہ ان شادیوں کی وجہ سے قوم جس تیزی سے پستی میں گِر رہی ہے اسے روکنا ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہیکہ اگر کوئی نوجوان جاکر مودی یا بھاگوت سے کہے کہ میں اپنا نکاح اپنے پیغمبر ﷺ کے طریقے پر سادگی سے کرنا چاہتا ہوں تو وہ لوگ استقبال کریں گے۔ لیکن وہ نوجوان جب اپنے گھر آکر کہے گا تو ماں باپ بزرگ اور رشتہ دار سارے اس کے مخالف ہوجائیں گے۔ اصل مودی اور بھاگوت تو خود ہمارے گھروں میں چھپے ہیں ہم دوسروں پر اسلامک قوانین میں دخل اندازی کا الزام دے کر سارے ہندوستان کو سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں۔ پہلے اپنے گھروں کے بی جے پی یا آریس یس کے عناصر سے گھر اور معاشرے کو پاک کریں پھر دوسروں پر پرسنل لا میں دخل اندازی کا الزام دیں۔ دشمن اسلام فاشسٹوں سے جنگ کرنا کوئی آسان نہیں۔ ان سے لڑنے سے پہلے اپنی اندرونی صفوں کو درست کرنا لازمی ہے۔ افراد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ افراد آئیں گے کہاں سے؟ ہر بھائی کے سر پر جب بہنوںکی شادی کا بوجھ ہو، ہر باپ کے سر پر دو

چار بیٹیوں کی شادی کا بوجھ ہو تو پرسنل لا یا کسی بھی جماعت کا ساتھ دینے کوئی نہیں آسکتا۔ نہ کوئی چندے دینے آگے بڑھ سکتا ہے۔ بڑے بڑے ہیرے آج قوم میں موجود ہیں لیکن بہنوں اور بیٹیوں کی مجبوری کی وجہ سے کوئلے کے دام بک رہے ہیں۔
1972میں جب مسلم پرسنل لا بورڈ قائم کیا گیا تھا اس وقت اس کے قیام کے اسباب کچھ اور تھے۔ جو تھے وہ اس وقت کے لحاظ سے بے حد اہم تھے۔ پچاس سال میں اب وہ اسباب اور ان کے حل کرنے کے تقاضے مکمل بدل چکے ہیں۔ پچاس سال میں دو نسلوں کا فاصلہ ہوچکا ہے۔ اب مسلم پرسنل لا کونئے سرے سے اپنی ترجیحات مرتّب کرنی ہونگی۔ افراد کے انتخاب کے معیارات بھی بدلنے ہونگے۔ اب مدارس سے وہ طبقہ ملنا ممکن نہیں جو کوئی بڑی تبدیلی لانے کی ہمت یا شعور رکھتا ہو۔ اگر مسلم پرسنل لا اپنی ترجیحات میں اول درجے پر آج کی شادیوں کو روکنے کیلئے پہلا قدم کے طور پر ایسی شادیوں میں شرکت کرنے والوں پر روک لگانے والے تدابیر اختیار کرے اور ان پر جنگی خطوط پر کام کرے تو انشااللہ ثم انشااللہ کم سے کم پانچ سال میں ایک بڑی تبدیلی یا انقلاب ممکن ہے۔ جسے دیکھ کر 58 کروڑ ہندو بھائیوںکے دل میں اسلام سے محبت پیدا ہونا ممکن ہے۔ ورنہ امت کی اخلاقی اور مالی حالت ان شادیوں کی وجہ سے آئندہ دس تا پندرہ سال میں ہریجنوں سے بھی بدتر ہوجائی گی جس کے ذمہ دار بورڈ کے ذمہ داران، ہر مسلک کے علما اور ہر سلسلے کے مشائخین ہونگے۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

A criminal negligence of scholars, clerics and Muslim Personal Law Board, by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں