پاکستان کو ہمیشہ نہایت مفلس اور کنگال ملک سمجھا گیا، اور ہمارے پچھلے حاکموں نے تو اس ملک کی حیثیت ایک بین الاقوامی محتاج خانہ کی بنا رکھی تھی جس کے ہاتھ میں کاسہ گدائی تھا اور لب پر یہ صدائیں کہ:
"اللہ کے نام کی روٹی۔ محمد نام کا پیسہ، حَسن کے نام کا کپڑا، بلا کر دے بھلا ہو گا۔"
چنانچہ امریکی سخی داتا اپنے مویشیوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کو گیہوں بھیج دیا کرتے تھے۔ روپے پیسے سے بھی مدد دیا کرتے تھے اور مرے ہوئے گوروں کے پرانے کوٹ بھی آ جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس مسکین ملک کے لئے امریکی گھی، اور امریکی دودھ بھی آتا تھا۔ جس کے جواب میں یہ ملک دامن پھیلا پھیلاکر امریکہ کو جان و مال، دولت و اقبال کی دعائیں دیتا رہتا تھا کہ:
"اللہ سلامت رکھے، قدم قدم کی خیر، تیری ہر مائی کا ہر لعل جئے، تو دودھوں نہائے پوتوں پھلے، اولاد سے گودی اور ڈالر سے جیب بھری رہے۔"
اب اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ امریکہ سے جب یہ گیہوں جہاز پر لاد کر پاکستان بھیجا گیا ہے تو اس گیہوں کا باقاعدہ خیر مقدم کیا گیا تھا۔ جن اونٹوں پر یہ گیہوں لادا گیا تھا، ان کے گلے میں تخیاں لٹکائی گئی تھیں جن پر لکھا ہوا تھا:
THANK YOU AMERICA
اور پاکستان کے شاعروں نے مارے غیرت کے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ؎
تھینک یو کہتے ہوئے اونٹ تو ہم دیکھ چکے
دیکھئے اور دکھائے ابھی گندم کیا کیا
اونٹوں کی زبان سے تھینک یو کہلوانے میں بڑا شاعرانہ استعارہ تھا۔ مطلب یہ تھا کہ ہم اہل پاکستان فی الحال وہ اونٹ ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے، مگر اے امریکہ تیرا شکریہ کہ تو نے اس شتر بے مہار ملک کو فاقوں کی موت سے بچا لیا۔ اس لیے کہ ہمارے پاس زر خیز زمینیں تو ہیں مگر اس وقت ہم چونکہ خود اپنی آب زر سے آبیاری کر لیتے ہیں لہذا ہم کو اتنی فرصت کہاں کہ فصلیں اگانے کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ ہم تو فی الحال اسی طرح دریوزہ گری کر کے پیٹ پالنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خیرات کھا کھا کر اپنے ضمیر کو مارتے رہے اور خود بے حیائی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ ہاتھ پھیلانا ہماری عادت بن گیا۔ جس نے جو کچھ دے دیا، دعائیں دے کر لے لیا۔ نہ دیا کسی نے کچھ تو صدائیں لگاتے رہے مسلسل۔
مگر اب پرامن فوجی انقلاب کے بعد اس ملک کے افلاس کا بھانڈا پھوٹا ہے کہ تجوریوں کے علاوہ سمندر کی گہرائیوں تک سے سونا نکلتا ہے۔ ایک سے ایک پھٹیچر اور شکل صورت کے یتیم کے پاس سے لاکھوں روپے نکلے ہیں۔ ایسے ایسے لوگ لکھ پتی ثابت ہوئے ہیں جو آپ کے پاس آ جاتے تو آپ یہی کہتے کہ:
"شاہ جی آگے بڑھئیے، برکت ہے۔ بس جمعرات کو آیا کیجئے۔ "
پتہ چلایا گیا ہے کہ کروڑپتی ایک سے ایک پڑا ہوا ہے آپ کے اس مفلس ملک میں۔ جب لوگوں نے اپنی آمدنی ظاہر کی تو معلوم ہوا کہ چھپی ہوئی آمدنی ساٹھ کروڑ تو صرف کراچی زون میں تھی، بتیس کروڑ لاہور زون میں تھی، اور اٹھارہ کروڑ مشرقی پاکستان میں، گویا پندرہ جنوری تک تو اعداد و شمار خدا جانے کیا ہوں گے، فی الحال ایک سو دس کروڑ کی چھپی ہوئی آمدنی ظاہر ہوئی ہے۔
ایک کروڑ روپے سے زائد آمدنی ظاہر کرنے والے کچھ نہیں ہیں اس نادار ملک میں۔ پچاس لاکھ روپے سے زاید آمدنی والے بھی آپ کی دعا سے چشم بددور کافی ہیں اور سو کے قریب تو صرف وہی لوگ ہیں جن کی آمدنی ایک لاکھ سے زیادہ تھی مگر یہ "مفلوک الحال" لوگ ٹیکس نہیں دیتے تھے اس لئے کہ اتنی سی آمدنی میں کوئی کیا ٹیکس دے اور کیا بچائے۔ ننگی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی؟ ان میں سے نہ جانے کتنے لوگ تو وہ تھے جو میلے کچیلے کپڑے پہنے گندے مکانات میں نہایت قابل رحم زندگی بسر کر رہے تھے کہ اگر آپ ان کو دیکھ لیتے تو آپ کا دل بھر آتا اور آپ یقیناً ایک آدھ پیسہ ان کی ہتھیلی پر رکھ دیتے۔
وہ مشہور ہے کہ خزانہ پر سانپ بیٹھتا ہے۔ در اصل سانپ وانپ کچھ نہیں ہوتا یہ خود ہی اپنے زمانہ کے سانپ ہوتے ہیں۔ ان کی قسمت میں پیسہ تو ہوتا ہے پیسے کا سکھ نہیں ہوتا۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا مقولہ ہے کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں مگر صرف نہیں کر سکتے بھلا وہ ٹیکس کیا دیں گے، جاڑے میں پھٹا ہوا کمبل لپیٹے اکڑا کرتے ہیں اس لئے کہ لحاف اگر بنائیں گے تو اس خزانہ میں روپیہ کم پڑ جائیں گے۔ وہ بارش میں سر پر پاؤں رکھے پھرا کرتے ہیں چھاتہ اور برساتی خریدنے کی فضول خرچی نہیں کرتے۔ وہ گرمیوں میں لو کے تھپیڑے کھانا اور دھوپ میں جھلسنا برداشت کر لیتے ہیں مگر راستہ پیدل ہی طے کرتے ہیں اس لئے کہ بس کا کرایہ خرچ کرنا کفایت شعاری کے اصول کے خلاف ہے، اور ان ہی نجس لوگوں کے پاس انتقال کے بعد لاکھوں روپے نکلتے ہیں۔ اور اس دولت کا پتہ بھی اس وقت چلتا ہے جب میونسپلٹی والے ان کو دفن کر چکتے ہیں۔
اس قسم کے فقیروں کے متعلق اکثر خبریں آتی رہتی ہیں کہ آج ایک فقیر نے جو ایک گدڑی میں لپٹا ہوا تھا۔ سر راہ ایک فٹ پاتھ پر دم توڑ دیا لوگوں نے کفن دفن کے چندہ کیا، مگر جب مرحوم کو گدڑی سے نکالا گیا تو اسی گدڑی میں پچیس ہزار کے نوٹ بھی ایک پوٹلی میں بندھے ہوئے ملے۔ ظاہر ہے کہ اس نامراد فقیر کا کوئی بھی نہ تھا، جس کے لئے اس نے یہ دولت جمع کی تھی، اس پیسہ کو اس نے اپنے اوپر کبھی صرف نہ کیا، جس طرح ہاتھ پھیلائے، سر جھکائے بھیک مانگا کرتا تھا، مسلسل مانگتا رہا، سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھاتا رہا، ہزاروں روپے لئے بیٹھا رہا مگر وہ روپے اس کے کام نہ آ سکے۔
اگر سچ پوچھئے تو یہ بھی ایک شامت ہے کہ دولت مل جائے مگر دولت کو صرف کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو سکے، اس قسم کے "بامراد محروم" نہایت قابل رحم ہوتے ہیں، ان کی حالت اس بکری کی سی ہوتی ہے جس کے سامنے سبز چارہ موجود ہو مگر تھوتھنی پر جالی چڑھا دی گئی ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اپنے اپنے متعلق کہا ہے۔ جی نہیں، یہ شعر ان ہی حضرات کے متعلق ہے:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
گدڑی کے ان لعلوں کا یہ ملک پاکستان مدتوں کنگال مشہور رہا، خیرات پر گزر بسر کرتا رہا۔ جھولی پھیلائے بیٹھا رہا اور اپنی خود داری کو نیلام چڑھائے رہا۔ اس پر رحم تو سب ہی کھاتے رہے مگر اس کو خاطر میں کبھی کوئی نہ لایا۔ اور کوئی خاطر میں لاتا بھی کیسے جن جن کا یہ دست نگر تھا وہ اس کو اپنا بندۂ احسان تو سمجھ سکتے تھے اس کے علاوہ اور کیا سمجھتے۔ یہ اسی کا نتیجہ تو ہے کہ لارڈ ایٹلی کی گھر والی تک نے منہ بنا کر کہہ دیا کہ:
" آج کل پاکستان کی پروا ہی کس کو ہے۔"
مگر ان بیگم صاحبہ نے یہ بات ذرا غلط وقت پر کہی ہے، اگر اب سے کچھ دن پہلے وہ یہ بات کہتیں تو ایک بات بھی تھی مگر اب حالات بدل چکے ہیں، اب پاکستان وہ نہیں رہا جس کی کسی کو پرواہ نہ ہو۔ اب پاکستان کی پروا کرنا پڑے گی۔ اور پاکستان اپنی پروا خود کرائے گا۔ اب یہ بھیک منگوں کا ملک نہیں ہے، اب یہ یتیم خانہ اور دارالمساکین نہیں ہے، اب اس کے سمندر سونا اگلتے ہیں اس کی زمینیں دولت پیدا کرتی ہیں، اور اس کے ہر خزانے کے سانپ اپنی کینچلی بدل چکے ہیں اور خزانوں پر سے ہٹ گئے ہیں۔ اپنی اس دولت کے احساس نے ہر پاکستانی کو خوددار بنا دیا ہے اور اب اس کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ کاسہ گدائی لئے بین الاقوامی بازار میں فقیرانہ صدائیں بلند کرتا پھرے، بلکہ ابھی 15/جنوری کے بعد دنیا اسی کنگال کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے گی کہ یہ محتاج خانہ تو سونے کی کان نکلا۔ اب اس ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہیں ہے جو کوڑیوں کے ہار پہنے صدائیں لگاتے پھرتے تھے کہ ؎
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
اب اس ملک کا نظم و نسق ان کے ہاتھ میں ہے جو اسی افلاس سے خوش حالی نچوڑ سکتے ہیں اور ایک سے اک مفلوک الحال کو نچوڑ کر لکھ پتی بتا چکے ہیں۔
***
ماخوذ از کتاب:
بیگم بادشاہ غلام (مزاحیہ نثری مجموعہ)
ماخوذ از کتاب:
بیگم بادشاہ غلام (مزاحیہ نثری مجموعہ)
Hum dua kar chuke, humorous essay. By: Shaukat Thanvi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں