امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اتوار کو وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کے ہمراہ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے ایک جلسے سے خطاب کیا۔ "ہاؤڈی مودی" نامی اس پروگرام کی ہندوستان اور امریکہ کے میڈیا نے بڑے پنانے پر کوریج کی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمر نے لکھا کہ اس پروگرام میں صدر ٹرمپ نے ثانوی کردار ادا کیا جب کہ اصل کردار نریندر مودی کا رہا۔ ایک اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدرٹرمپ نے مودی کی ریلی میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور مودی نے امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات کیلئے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ جب کہ ہمارے ملک کے ایک موقر اخبار "دی ہندو" سے وابستہ ایک خاتون صحافی سہاسنی حیدر نے اس پروگرام پر اپنی رائے دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ: ہندوستانی وزیراعظم اور امریکی صدر نے دہشت گردی اور سرحدی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ان کے خیال میں دونوں رہنماؤں میں سے کسی نے بھی ہند امریکی تجارتی مسائل کے معاملے کا تذکرہ نہیں کیا۔ البتہ ان دونوں رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ مذاکرات میں تجارتی اختلافات حل کر لیں گے۔
نریندر مودی نے اپنی تقریر میں بالواسطہ طور پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سب کو علم ہے کہ نائن الیون اور ممبئی حملوں کے ذمہ دار کہاں سے آئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے والوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی نے دستور کی دفعہ 370 پر پاکستانی تنقید کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں سے اپنا ملک نہیں سنبھل رہا ہے انہیں دفعہ 370 کے خاتمے سے پریشانی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مودی نے دہشت گردی اور اس کی اعانت کرنے والوں کے خلاف لڑائی کی بات کر کے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس مسئلے پر دونوں میں زبردست اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تین باتیں کہیں: اسلامی دہشت گردی، سرحدی تحفظ اور دراندازی۔ اور یہ تینوں باتیں ہندوستان کے دل کے قریب ہیں۔ گویا اس طرح صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کی دہشت گرد مخالف پالیسیوں کی تائید کی ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ ان کو ہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر بھی کر دیا۔
اس پروگرام کو کئی حلقے امریکی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ میں ہندوستانی نژاد ووٹروں کی تعداد 60 تا 70 لاکھ ہے۔
اپنے خطاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے خطاب کیلئے صدر ٹرمپ کو مدعو کرنے سے قبل "اب کی بار ٹرمپ سرکار" کے نعرے کے ذریعے ہندوستانی نژاد امریکی ووٹروں سے صدر ٹرمپ کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔
مبصرین کا یہ خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس جلسے میں اس لئے بھی شرکت کی کہ وہ ہیوسٹن میں آباد ہندوستانی نژاد امریکی ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ حالانکہ کسی ملک کے سربراہ کو کسی دوسرے ملک میں جا کر وہاں کسی ایک پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی غیر دانشمندانہ حرکت سے احتراز کرنا چاہئے۔ چنانچہ نریندر مودی کی جانب سے ٹرمپ کے حق میں نعرہ لگانے پر ہندوستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کا نگریس نے بھی اعتراض کیا۔ کانگریس پارٹی کے ایک سینئر رہنما آنند شرما نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات (انتخابات) میں مداخلت نہ کرنے کی ہندوستان کی باوقار اور دیرینہ پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ بات ہندوستانی مفادات کے بھی منافی ہے۔
آنندشرما کا یہ کہنا بجا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ ہیں۔ مزید یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نریندر مودی کی انتخابی مہم ہندوستان اور امریکہ کے جمہوری اقدار کو پامال کرتی ہے۔
جس وقت ہیوسٹن شہر کے این آر جی اسٹیڈیم میں مذکورہ پروگرام ہو رہا تھا اس وقت اسٹیڈیم کے باہر لوگ مودی مخالف احتجاج بھی کر رہے تھے۔ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج کے دوران نریندر مودی کی حکومت کو مبینہ طور نسل پرست حکومت قرار دیا اور جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔
بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مختلف معاملات میں ہندوستانی موقف کی حمایت کی، لیکن وہ ایک تلون مزاج لیڈر ہیں وہ کب اپنا موقف تبدیل کر دیں اس کے بارے میں قیاس کرنا مشکل ہے۔ ہندوستان کو ٹرمپ انتظامیہ سے معاملت کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
***
بشکریہ:
روزنامہ رہنمائے دکن ، حیدرآباد، 26/ستمبر 2019۔
بشکریہ:
روزنامہ رہنمائے دکن ، حیدرآباد، 26/ستمبر 2019۔
PM Modi addresses Howdy Modi community programme in Houston.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں