تلنگانہ لبریشن ڈے - بی جے پی کی فرقہ وارانہ سوچ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-23

تلنگانہ لبریشن ڈے - بی جے پی کی فرقہ وارانہ سوچ


ہر سال جب بھی 17 ستمبر آتا ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے دل میں تلنگانہ کے لئے بے پناہ جذبات امڈ پڑتے ہیں۔ نظام اور ان کے دور حکومت میں ہوئے ظلم و ستم پر وہ اس موقع پر خاصے غصہ کا اظہار کرتی ہے۔ وہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے بہادروں اور ان کی قربانیوں کی کہانیاں سناتے نہیں تھکتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر تاریخ سے بے خبر لوگوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ بی جے پی یا ان کے پیش رو ادارہ کے لوگوں نے سچ مچ نظام کے خلاف جدوجہد کی ہوگی، لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ نظام مخالف جدوجہد میں نہ بی جے پی، نہ ہی آر ایس ایس اور نہ ان کی معاون تنظیموں کا ذرا بھی رول تھا۔
ضروری نہیں ہے کہ کسی جدوجہد میں محض رول نہ ہونے سے کسی کو اس تحریک کی تعریف نہیں کرنی چاہیے یا پھر اس پر تنقید اور تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ بی جے پی اس جدوجہد کی تعریف نہیں کر رہی ہے، بلکہ اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی/آرایس ایس کے رہنماؤں کی کوشش یہ ثابت کرنے کی ہے کہ چونکہ اس وقت کے حکمران مسلمان تھے اس لئے انہوں نے ہندو مذہب کے لوگوں پر ظلم کیا تھا۔ وہ تلنگانہ کے لوگوں کی مسلح بغاوت کو مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہندو عوام کی جدوجہد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جبکہ سچائی یہ ہے کہ تلنگانہ کے تمام مذاہب کے لوگوں نے نظام کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ وہ جدوجہد مذہب سے پرے تھی۔ اس سچائی کے باوجود بی جے پی یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دیا جائے تاکہ آگے چل کر اس کو انتخابی فائدہ ملے۔ تلنگانہ مسلح جدوجہد کو بھنا کر سیاسی روٹیاں سینکنا بی جے پی-آر ایس ایس کا منشا ہے۔ خاص طور پر وہ اب 17 ستمبر کو تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کی ایک گہری چال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تلنگانہ کی جدوجہد اور اس کی وجہ:
تلنگانہ مسلح تحریک مطلق العنان حکومت و زمیندارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر جمہوریت قائم کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ وہ جدوجہد کسی مذہب کے خلاف نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی وہ اسلام مخالف تحریک تھی کہ چونکہ اس وقت کا حکمران نظام مسلمان تھا۔ دراصل نظام کی حکومت کی مضبوط اور جامع بنیاد ہندو جاگیردار اور زمین دار ہی تھے، خاص طور پر ہندو زمیندار ہی اس کی حکومت کے مضبوط ستون تھے۔ وہ جدوجہد سب سے پہلے ہندو زمین دار کے خلاف ہی شروع ہوئی تھی جس کو دبانے کے لئے نظام کی پولیس اور فوج میدان میں اتری تھیں۔
اس تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کے تحت بی جے پی ان زمین داروں کی بات نہیں کر رہی ہے، جن کے خلاف وہ جدوجہد ہوئی تھی اور نہ ہی وہ یہ بتاتی ہے کہ اس زمانے میں گاؤں میں بندھوا مزدوری کی روایت کو کون لوگ چلا رہے تھے جس کو اس جدو جہد کی بدولت رد کیا گیا تھا۔ بی جے پی اس زمانے میں تلنگانہ کے گاؤں میں قائم رعایا ریاستوں (عوامی حکومتوں) کا ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتی جس کی رہنمائی میں غریب کسانوں مزدوروں کے درمیان زمینیں بانٹی گئی تھیں۔
در اصل بی جے پی زمین دار سے زمینیں چھین کر غریب عوام کے درمیان بانٹے جانے والے اصول کی حمایت ہی نہیں کرتی۔ اتنا ہی نہیں، یونین کی فوجوں نے عوام کے درمیان بانٹی گئی زمینوں کو پھر سے زمینداروں کے حوالے جو کیا تھا، اس کی بی جے پی نے کبھی تردید نہیں کی تھی۔ گاؤں میں "رعایا ریاستوں" کو تباہ کر کے، گاوں سے بھاگے ہوئے زمین دار کو واپس لا کر، پھر سے گاؤں میں اقدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں سونپنے پر بھی بی جے پی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مختصراً کہا جائے تو ، جن معاملات کو لے کر تلنگانہ کے کسانوں کی مسلح تحریک چلی تھی، ان معاملات کا نہ تو بی جے پی ( یا اس کی پیش رو تنظیموں) نے کبھی حمایت کی تھی ، نہ ہی اب ان مدعوں سے اس کو ہمدردی ہے۔

اس کے باوجود کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا، پھر بھی وہ نظام مخالف مسلح جدوجہد کی تعریف کرتے نہیں تھک رہی ہے۔ آخر کیوں؟
کیونکہ 1946 سے 1951 کے درمیان چلی تلنگانہ مسلح کسان جدوجہد کے متعلق تلنگانہ کے لوگوں کے دلوں میں آج بھی بہت احترام ہے۔ اس لئے بی جے پی کی کوشش یہ ہے کہ اس جذبہ کو بھناتے ہوئے اس کو توڑا مروڑا جائے اور اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دے دیا جائے تاکہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس کی ایسی حکمت عملی کی کئی حالیہ مثالیں بھی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں، خاص طور پر اتر پردیش میں انتخابات کے ٹھیک پہلے بی جے پی نے کس طرح فرقہ پرستی کو ہوا دی تھی، اس سے سب واقف ہیں۔ ٹھیک اسی طرح تلنگانہ میں بھی 17 ستمبر کے نام سے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانا بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

تلنگانہ کی آزادی یا لبریشن کے نام سے بی جے پی جو دلیلیں دے رہی ہے وہ تمام جھوٹی اور خیالی ہیں، اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔ مثلاً، اول - بی جے پی یہ کہتی ہے کہ جب پورے ہندوستان کو آزادی ملی تھی، تب تلنگانہ کو نہیں ملی تھی، جو درحقیقت تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ سچ یہ ہے کہ حیدر آباد ریاست انگریزوں کی کالونی تھی ہی نہیں۔ برٹش انڈیا کی حکومت کے ساتھ کچھ معاہدے ضرور تھے، لیکن حیدرآبادر یاست کی الگ فوج، الگ کرنسی، الگ ٹیلی مواصلات، الگ ریڈیو اسٹیشن اور الگ ریلوے اسٹیشن تھے۔ وہ پوری طرح سے ایک آزاد ملک تھا۔
15 اگست 1947 کو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد حیدرآباد ریاست ان تمام معاہدوں سے بھی آزاد ہوئی تھی اور ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آئی تھی اس لئے بی جے پی کی یہ تشہیر کہ 15 اگست 1947 کو تلنگانہ کو آزادی نہیں ملی، نری بکواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ۔۔۔ تاریخ کے ساتھ بی جے پی کی چھیڑ چھاڑ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ وہ 17 ستمبر 1948 کو حیدر آباد ریاست کے ہندوستانی یونین میں انضمام کو آزادی (لبریشن) بتاتی ہے۔ بقول بی جے پی، ہندوستانی یونین کی فوجوں نے نظام کو ہرا کر تلنگانہ کے عوام کو آزادی دلائی۔
لیکن سچائی یہ ہے کہ اس دور میں کمیونسٹوں کی رہنمائی میں تلنگانہ کے عوام نے نظام حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہوا تھا۔ تین ہزار سے زیادہ گاؤں میں نظام حکومت کو نیست و نابود کیا گیا تھا اور نظام کے زمین داروں کی لاکھوں ایکڑ زمینیں چھین لی گئی تھیں۔ گاؤں میں عوامی حکومتوں (رعایا ریاست) کی تشکیل ہوئی تھی۔ کمیونسٹ طاقتیں دن بہ دن مضبوط ہوتی جا رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت ہند کو یہ ڈر ستانے لگا تھا کہ کہیں حیدرآباد کمیونسٹ کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ اسی ڈر سے انہوں نے اناً فاناً "پولیس کارروائی" کے نام سے تلنگانہ پر حملہ کیا اور تلنگانہ کا ہندوستان میں انضمام کیا تھا جبکہ ہندوستانی یونین کے ساتھ نظام کی صورت حال (status quo) بنائے رکھنے کا سمجھوتہ پہلے سے نافذ تھا۔

اسی موضوع کی بی جے پی کے لوگ تشہیر کرتے رہتے ہیں کہ ولبھ بھائی پٹیل نے تلنگانہ کو آزادی دلائی تھی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بی جے پی یا آر ایس ایس کے لوگوں کو ان سوالوں کا بھی جواب دینا ہوگا:
  • اگر پٹیل نے تلنگانہ کو آزادی دلائی تھی تو اسی نظام کو پٹیل نے تلنگانہ کا ریاستی سربراہ کیسے مقرر کیا تھا؟
  • جب خود نظام ہی ریاست کے سربراہ ہوں تو وہ کس طرح کی آزادی کہلاے گی؟
  • نظام کے دورحکومت میں ہوئے استحصال و مظالم کے بارے میں کمیونسٹوں سے بھی بڑھ چڑھ کر تشہیر کرنے والی بی جے پی/آرایس ایس کے لوگ اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ آخر نظام کو جیل میں رکھنے کے بجائے ریاست کا سربراہ کیوں بنایا گیا تھا؟ اس کے لئے وہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی تنقید کیوں نہیں کرتے؟

سوالوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ نظام کے نیم فوجی دستہ، رضا کاروں کے سردار قاسم رضوی نے لوگوں پر جو ظلم و ستم کئے تھے، اس کے بارے میں جاننے سننے والے یہی کہیں گے کہ اس کو پھانسی دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن پٹیل جی نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا؟ کچھ دنوں تک جیل میں رکھنے کے بعد اس کو پاکستان جانے دیا گیا تھا۔ قاسم رضوی کی موت ضعیفی کے بعد ہی کراچی میں ہوئی۔ قاسم رضوی کے مظالم کا حوالہ دے کر ہی ہندوستانی فوج کی مدد سے ہزاروں بے قصور مسلمانوں کا فسادات میں قتل کروایا گیا تھا۔ آخر پٹیل نے اس پر اجتماعی قتل، انسانی حقوق کی پامالی ، جنگی جرائم وغیرہ کے مقدمے درج کروا کر پھانسی کی سزا کیوں نہیں دلوائی؟ کیا بی جے پی یا سنگھ کے لوگوں کے پاس اس کا کوئی معقول جواب ہے؟

نظام کو جیل میں نہیں ڈالا گیا اور قاسم رضوی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ لیکن دوسری طرف نظام/رضوی کے خلاف لڑنے والے تلنگانہ کے تقریباً 4000 لوگوں کو ہندوستانی فوجوں نے مار ڈالا تھا۔
کیا یہی ہے تلنگانہ کی آزادی؟
کیا اس لئے سردار پٹیل کو تلنگانہ کا نجات دہندہ مان لیں؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ نظام کے خلاف لڑنے والے نلا نرسمہلو جیسے کئی کمیونسٹ رہنماؤں کو نظام کی عدالت نے پھانسی کی سزائیں دی تھیں۔ ہندوستانی یونین میں حیدر آباد کے انضمام کے بعد سپریم کورٹ میں ان سزاؤں کو رد کرنے کی اپیلیں داخل کی گئی تھیں لیکن ہندوستان کی عدالت عظمی نے ان اپیلوں کو خارج کیا تھا۔
اس کے بعد جب عالمی سطح پر جینیوا اور لندن میں ان پھانسی کی سزاؤں کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے تب جا کر اس وقت کے ہندوستان کے صدر نے ان کو عمر قید کی سزاؤں میں تبدیل کیا۔
یعنی جہاں ایک طرف نظام کو ریاست کا سربراہ بنایا جاتا ہے اور رضوی کو جیل میں محفوظ رکھا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف نظام کے خلاف لڑنے والے 4000 لوگوں کو مار دیا جاتا ہے اور اس جدوجہد کی قیادت کرنے والے کمیونسٹ کو دی گئی پھانسی کی سزاؤں کو رد کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
سردار پٹیل کی رہنمائی میں تلنگانہ کی جس آزادی کی بات بی
جے پی کر رہی ہے، اس کی اصلیت یہی ہے۔ بی جے پی درحقیقت کوشش یہ کر رہی ہے کہ تلنگانہ کی اصل تاریخ کو جھٹلا کر، جھوٹ، آدھا سچ اور تاریخ کی مسخ شدہ قرات کی بنیاد کے سہارے اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔

***
تلگو سے ترجمہ، بشکریہ:
روزنامہ منصف ، حیدرآباد، 22/ستمبر 2019۔

BJP demands for Telangana liberation day. Article: Linga Papi Reddy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں