چندریان :2 کو سیاسی حربہ بنانے کی کوشش - حسن کمال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-21

چندریان :2 کو سیاسی حربہ بنانے کی کوشش - حسن کمال

chandrayan2-political-tactics

ہر چند کہ چندریان:2 چاند کی دھرتی پر اس طرح نہیں اتر سکا، جس طرح اس کا اترنا مقصود تھا، لیکن اسرو کے اس مشن کو ناکام کہنا بھی غلط ہوگا۔ مشن نے کم از کم یہ تو ثابت ہی کر دیا کہ ایشیا میں صرف دو ہی ملک، چین اور بھارت، ایسے ملک ہیں، جو اتنی ترقی یافتہ سائنسی مہم کی لیاقت رکھتے ہیں۔ ایشیا کے دوسرے ممالک تو سائنسی میدان میں ابھی گھٹنوں کے بل ہی چل رہے ہیں۔ جاپان بھی سائنسی اعتبار سے آگے ہے لیکن ہم نے اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ چاند چھو لینے کی مہم، اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
اسرو کے سائنس داں کئی لحاظ سے مبارک باد اور ستائش کے مستحق ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں چندریان 2 کا وہ راکٹ بنا لیا، جس کی رفتار 42 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ چندریان:2 اسی رفتار سے چاند کے قریب گیا۔ پروگرام کے مطابق چاند کی جنوبی سطح کے قریب پہنچ کر چندریان:2 سے منسلک وکرم لینڈر [Vikram lander] کو اس سے الگ ہو کر صرف 7/کلومیٹر فی گھننٹہ کی رفتار سے چاند پر اترنا تھا۔ اس رفتار سے اسے 1.2 کلومیٹر کا وہ فاصلہ طے کرنا تھا، جو راکٹ سے جدا ہونے کے بعد اس میں اور چاند میں باقی رہ گیا تھا۔
یہ عرصہ ، یہ فاصلہ اور یہ واقعہ ایک جان لیوا آزمائش جیسا تھا۔ ہندوستان میں کروڑوں لوگ سانس تھامے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے، جو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا تھا۔ راکٹ سے جدا ہو جانے کے بعد "وکرم لینڈر" کو خودکار ہو جانا تھا اور بنگلور میں واقع اسرو کے کنٹرول روم کے سگنلوں پر عمل کرنا تھا۔ افسوس کہ بس اسی مقام پر جب یہ کہا جا سکتا ہے کہ "دو چار ہاتھ جب کہ لب 'فرش' رہ گیا" وہ کمنڈ ٹوٹ گئی، جس نے اسے اسرو سے باندھ رکھا تھا۔ نہ جانے کتنے ہندوستانی اپنے آنسو اور اپنی سسکیاں نہ روک سکے ہوں گے۔
پھر بھی اسے کامیابی قرار دینے کے کئی اسباب ہیں۔ چندریان:2 پر کل ملاکر 978/کروڑ روپیہ خرچ ہوا تھا۔ بظاہر یہ رقم بہت بڑی لگتی ہے لیکن درحقیقت بہت کم ہے۔ ہالی ووڈ کی "اسٹار وارس" اور اس جیسی دوسری فلموں کا بجٹ ایک ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
چندریان:2 کوئی فلم نہیں ایک زندہ حقیقت تھا۔ علاوہ ازیں گجرات میں سردار پٹیل کا مجسمہ 3/ہزار کروڑ روپے میں تیار ہوا تھا۔ مہاراشٹر کے سمندر میں شیواجی کا مجسمہ نصب کرنے کا بجٹ 2800 کروڑ روپیہ تجویز کیا گیا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو عدم پیداوری کہی جا سکتی ہیں۔ چندریان نے تو ہندوستان اور اسرو کا دنیا میں وقار بلند کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی سائنس دانوں نے بھی اسرو کے سائنسدانوں کی تعریف کی ہے اور امریکی ناسا نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ آج نہیں تو کل اسرو اپنے مشن میں کامیاب ضرور ہوگا۔

عجیب بات یہ ہے کہ اسرو کے سائنس داں جتنی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں، اتنی ہی ہمدردی کے مستحق بھی ہیں۔ ستم ظرافی ملاحظہ ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو ایک ایکشن ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرو کے سائنس دانوں نے اس دیش میں اسپورٹس مین اسپرٹ کی طرح اسرو اسپرٹ پیدا کر دی ہے اور ساری قوم کو متحد کر دیا ہے لیکن ان کی سرکار نے ابھی کچھ ہی دن پہلے اسرو کے سائنس دانوں کی تنخواہوں میں دس ہزار روپیہ ماہانہ کی تخفیف کر دی ہے۔ ان کی سرکار اسرو کو نجی سیکٹر میں دئے جانے کی بھی تیاریاں کر رہی ہے جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک بڑے سائنس داں تپن مشرا [Tapan Misra] نے استعفی بھی دے دیا ہے۔ بہرحال اگر ملک کے سائنسدانوں کے لئے منہ سے بےساختہ واہ نکلتی ہے تو سیاست دانوں کا سستا پن دیکھ کر منہ سے آہ نکل جاتی ہے۔

چندریان:2 جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کوئی نیا اور پہلا تجربہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے 2008ء میں چندریان:1 کو چاند پر بھیجنے کی کوشش ہو چکی تھی۔ بدقسمتی سے وہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی، لیکن نہ اس کے آغاز پر کوئی غلغلہ بلند کیا گیا تھا، نہ ہی اس کے انجام پر زیادہ اشک شوئی کی گئی تھی۔ اسے خلاء میں بھیجے جاتے وقت ڈاکٹر من موہن سنگھ، جو اس وقت وزیراعظم تھے، نہ کنٹرول روم میں موجود تھے ، نہ اسے کوئی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ تجربات کے سارے کام سائنس دانوں پر چھوڑ دئے گئے تھے۔ یہ رسم 1960ء سے جاری تھی، جب پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہدایت پر ملک کے اہم ترین سائنس دانوں کو اکٹھا کر کے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن یعنی "اسرو [ISRO]" کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ سرکار کا کام ملک کی ترقی کا پروگرام بنانا ہے، باقی کام اس ترقی کے طریقے جاننے والوں پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ سرکار کا کام ترقیاتی پروگرام کے لئے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے، ترقیاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے والوں کے کام میں دخل دینا نہیں۔ لیکن اس بار تو جیسے بی جے پی کی لیڈرشپ نے چندریان:2 رکو ایک سیاسی حربہ یا ایونٹ بنانے کا تہیہ کر لیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ پالتو چینلوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ چندریان:2 کے زمین سے پرواز کرنے سے وکرم لینڈر کے چاند پر اترنے کا ایک ایک منٹ کا آنکھوں دیکھا حال بالکل اسی طرح نشر کیا جائے، جس طرح یک روزہ کرکٹ میچ کا حال نشر کیا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر بی جے پی کی تمام ریاستی شاخوں کو بھی ہدایت دی گئی تھی کہ وکرم لینڈر کے چاند کی دھرتی پر اترتے ہی پٹاخے داغے جائیں اور ہر ریاست کی راجدھانی میں فتح کے جلوس نکالے جائیں۔ یقیناً یہ سب کیا بھی جانا چاہئے تھا کیونکہ ایک نئی تاریخ مرتب ہو رہی تھی۔ یقیناً یہ ایک تاریخی واقعہ بھی ہوتا لیکن مقصد کچھ اور تھا۔ مقصد یہ تھا کہ واقعہ کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جیسے یہ ہمارے سائنس دانوں کی لیاقت اور محنت کا نہیں، نریندر مودی کی سیاسی قیادت کا کمال ہے۔ نعرے بھی گڑھ لئے گئے تھے۔ ایک نعرہ یہ بھی تھا:
"دوسرے ملکوں کے تو جھنڈوں پر چاند ہے، ہمارا تو جھنڈا چاند پر لہرا رہا ہے"
ایک نیوز پورٹل "نیوز کلک" کے مطابق وزیراعظم زیرو آور سے ذرا دیر پہلے اسرو کے کنٹرول روم میں داخل ہوئے اور جب چینلوں کے کیمرے اندر آئے تو آگے بڑھے اور اسرو چیف ڈاکٹر سیوان [Kailasavadivoo Sivan] کو چھاتی سے لگا کر ان کی پیٹھ تھپتھپائی۔ اس منظر کو بھی کروڑوں نے دیکھا اور اس کی داد بھی دی ، لیکن جب وکرم لینڈر کا کنٹرول سے رابطہ ٹوٹ گیا تو وزیراعظم خاموشی سے مڑے اور باہر نکل گئے۔ اس وقت انہوں نے ڈاکڑ سیوان کی طرف دیکھا بھی نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس سائنسی کارنامہ کو سیاسی حربہ بنانے کی کوشش کیوں کی جا رہی تھی؟ کیا اس لئے کہ مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ میں صوبائی انتخابات ہونے جا رہے ہیں؟ کیا اس لئے کہ اترپردیش کی 13/ پارلیمانی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں؟ یا اس لئے کہ۔۔۔
  • بی جے پی کے پاس اب کہنے کو کچھ بھی نہیں بچا ہے؟
  • ظاہر ہے ملک کی ناقابل یقین حد تک دگرگوں حالت پر تو بولا نہیں جا سکتا۔
  • ظاہر ہے کہ 54 سال بعد ملک میں بے روزگاری کی شرح ناقابل بیان حد تک بڑھ چکی ہے۔
  • ظاہر ہے کہ اس کی بات تو کی نہیں جا سکتی کہ ملک میں ایسی کساد بازاری کا خطرہ ہے، جس کا سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
  • ظاہر ہے یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا کہ اگر، جیسا کہ پارٹی اور سرکار کا دعوی ہے کہ وادی کشمیر میں حالات بالکل نارمل ہیں ، تو تمام کے تمام سیاسی لیڈر گھروں میں نظر بند کیوں ہیں، وہ لیڈر بھی جو ہندوستان کے ہمیشہ حامی رہے ہیں، جن کے اشتراک سے بی جے پی مرکز اور جموں و کشمیر ریاست میں سرکاریں بھی بنا چکی ہے۔

چنانچہ اگر چندریان:2 کا تجربہ کامیاب ہو جاتا تو بی جے پی کو نہ مذکورہ معاملات پر بولنے کی ضرورت پڑتی، نہ کسی اور کو ان معاملات پر بولنے کی اجازت دی جاتی۔ کوئی بولتا تو اسے بے دھڑک "دیش دروہی" قرار دے دیا جاتا۔
چنانچہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستانی سائنس داں ایک نہ ایک دن منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ انہوں نے دوسرے ہی دن سے مشن کو آگے بڑھانے کا کام شروع کر دیا۔ ان کے حوصلے اب بھی جوان ہیں لیکن بی جے پی کی لیڈر شپ ضرور سمجھ رہی ہے کہ ایک نایاب سیاسی حربہ اس کے ہاتھ آتے آتے رہ گیا۔ اس لئے اس کا حوصلہ پست نظر آ رہا ہے۔

***
بشکریہ:
hasankamaal100[@]gmail.com
روزنامہ سالار ، بنگلور، 20/ستمبر 2019۔

Attempt to make Chandrayan:2 as a political tactics. Article: Hassan Kamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں