سرور ڈنڈا - دکن کا فراموش کردہ مزاحیہ شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-01

سرور ڈنڈا - دکن کا فراموش کردہ مزاحیہ شاعر

sarwar-danda

دکنی زبان کے تعلق سے زور صاحب نے ابتدائی شعرا کو روشناس کروایا اور خوب سراہا مگر بیسویں صدی میں کئی شعرا دکنی میں لکھنے لگے تھے۔ سرور ڈنڈا، سلیمان خطیب دہقانی ، کھٹا ، علی صائب میاں ، حمایت بھائی ، سب نے اپنا اپنا حصہ دکنی ادب کو سونپا ہے اور یہ ثابت کیا کہ دکنی زبان یا شاعری صرف مزاحیہ نہیں ہوتی ، اس میں رومان بھی ہوتا ہے اور سیاسی نظریات بھی ہوتے ہیں۔ سرور ڈنڈا کا لہجہ تو وہ تھا کہ جس سے انہوں نے سنجیوا ریڈی کو دہلا دیا تھا۔

نام اردو ہے مرا اکھنڈ گرو جان لئیں
میں وہ منتر ہوں جسے چھوٹے بڑے سب پڑھ تئیں
لڑائی ہندی کی جب لڑتئیں تو اردو میں لڑتئیں
میری بڑائی کو سب چھوٹے بڑے جان لئیں
کِتے کی وقت میرا سب امتحان لئیں
نام اردو ہے مرا اکھنڈ گرو جان لئیں

پھر اردو کی کہانی اردو کی زبانی سناتے ہیں جو آج بھی وہیں ہے جہاں کل کھڑی تھی:

کیسی آئی یہ نحوست کی گھڑی اماں گے
دوستاں دشمناں سب میرے وزن کو تو تولتئیں
کرک جتنی بھی تھی سب ہندو مسلم ڈھولئیں
دل کے بھیداں کو غزل نظم میں جوڑ لئیں

"چال ہے اس کی چکر مکر بیٹھک اس کی پکی"
یہ دکنی کی ایک پہیلی ہے جس کا مطلب ہے "سانپ"۔
ڈنڈا صاحب اس سانپ کو اپنا استعارہ بناتے ہیں کہ نیتا لوگ کس طرح اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔
دال اور دلیہ مونگ مٹر کے بڑھتے جاریں بھاواں
ہلو ہلو گھٹتے جاریں سستائی کی چھاواں
نادروں کے منہ پو ملیہ پھر ٹیکسوں کی مُکھی
"چال ہے اس کی چکر مکر بیٹھک اس کی چکی

آپ نے آج 'بتکما' کا زور شور سنا ہے، ڈنڈا کی بتكما بھی پڑھ لیجیے:

شانتی بتكما وویالو، شانتی بتكما وویالو
اٹک مٹک اب چھوڑ ری سہیلی منہ کو نکو موڑ سہیلی وویالو
بات سے بات روزچ ملتا ہے
دل سے دل کو ملا لو وویالو

آج کل سارے حیدرآباد میں یہ افواہ پھیلی ہے کہ اس کو سنگاپور بنا دیں گے تو ہم ڈنڈا صاحب کی یہ نظم یاد کر لیں تا کہ معلوم ہو کہ ہمارا حیدرآباد کیسا تھا۔

شاہ پور واڑی سے پہاڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر، لالہ ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ ہے اسمبلی کا ہال، یہاں ہیں سیاسی دلال
ان کی بخشتی ہوئی ہے کھال
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پو
یہ ہے شکر کا سرمایہ
اس پو نیتاؤں کا سایہ
پھر یہ گاندھی بھون کہلایا
انہوں نے پولیس کے دفتر کو بھی نہیں چھوڑا
یہ ہے دفتر پولیس، یاں کے قانوناں بے حس
یاں کے دھندے چارسو بیس
لالہ ہو جانا فٹ پاتھ پو

ڈنڈانے اپنے قلم سے وہ سچ بتایا جو کل بھی تھا، آج بھی ہے۔ "چڑی مڑی غپ چپ" ہم سے اکثر کی دادی ماں کہانی سنانے سے پہلے کہتی تھیں ، انگریزوں کو بھگا کر جو حکومت بنی وہ کیسی ہے؟
بھارت کے بھاگاں جاگے
انگریز یاں سے بھاگے
ایک ہور قدم آگے
میں سوب یچ بتاتا ہوں

اب نئی حکومت کے بارے میں سنیے:
نئیں نئیں سو موسم کاڑے
کیا رات کیا دن دھاڑے
جنتا کو زندہ گاڑے
میں سب یچ بتاتا ہوں
چڑی مڑی غپ چپ
ہر عہدہ دار اعلیٰ آفت کا ہے پرکالا
سب کچھ ہے کھانے والا
میں سوب یچ بتاتا ہوں
میں کتھا سناتا ہوں چڑی مڑی غپ چپ

کسی نے بھی اپنی عرضی چیف منسٹر کو نہیں دی ہوگی جیسی ڈنڈا نے آنجہانی چیف منسٹر سنجیوا ریڈی کو دی تھی:
جنتا کی ہے یہ عرضی، آگے تمہاری مرضی
وہ آندھرا کے گاما، سنجیوا ریڈی ماما
بے کاری ، بیروزگاری، یہ عام ہے بیماری
روزگار سے لگانا ، سنجیوا ریڈی ماما
تعلیم نئیں سو بچے، نکلیں گے کاں سے اچھے
تعلیم پھکٹ دلانا ، سنجیوا ریڈی ماما
اچھی بری گذر گئی سب کی نشہ اتر گئی
روتوں کو ہے ہنسانا ، سنجیوا ریڈی ماما

ویسے ہم اب تک کئی حکومتیں دیکھ چکے ہیں مگر ہمیں آج بھی ڈنڈا کی دکھائی ہوئی حکومت ہی دکھائی دیتی ہے۔
ان کی وہ ہوندی چال ہے سو ہے
جينا اپنا محال ہے سو ہے
ان کی قسمت میں مرغی ہور مچھی
میری قسمت میں دال ہے سو ہے

وہ آگے کہتے ہیں:
یہ ہوندی حکومت کے ہوندے کرم سے
نہ دالچ وقت پو، نہ خشکہ چپاتیاں

آج جب لوگ اردو کے لیے جدوجہد کرنے کی بات کر رہے ہیں تو ڈنڈا کی چار نظمیں ضرور ساتھ رکھیں جس میں انہوں نے اردو زبان کی ہمہ جہتی ترقی کو خوب نکھارا ہے۔

آندھرا کی یلما ہو یا منجولا مراٹھن
کرناٹک کی ناگ منی ہو یا گلشن بی کی سوکن
چاروں سہیلیاں پوتی نامہ اردو میچ کھولے

مخدوم محی الدین کی ایک خوبصورت غزل کے دوسرے روپ کو ڈنڈا نے لکھا ہے:
زندگی ہے نا ارمانوں کی دھن مڑی
زندگی ہے فقط بھرکیاں دوستو
سر گھڑ ، منہ پاڑ رکھتے تھے جو
ہور سدا روتی صورت جو مشہور تھے
جب سے فیشن کے ہتھے چڑھیں جان من
دل بھی لینے لگا چنگیاں دوستو

***
بشکریہ: روزنامہ "منصف" (آئینۂ شہر سپلیمنٹ، یکم/اگست 2019)

Sarwar Danda, famous urdu humourous poet of Deccan. Article: Udesh Rani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں