تیزی سے بند ہوتے صنعت و کاروبار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔ اوپر سے بڑھتی معاشی عدم مساوات آگ میں گھی ڈالنے جیسی ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ملک کے سیاسی شور میں یہ مسئلہ گم نہ ہو جائے۔
مسلسل بگڑتے حالات کے درمیان یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ہندوستانی معیشت میں مندی کا اثر آنے لگا ہے؟
کیا ہندوستانی کارپوریٹ گھرانے اور کمپنیاں اس کے اثر سے مبرا نہیں رہ گئے ہیں؟
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی معیشت میں مندی نے کمپنیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کمپنیوں نے اپنے عہدیداروں سے کہا ہے کہ وہ اخراجات میں کمی کریں۔ حالانکہ اس رپورٹ کے مطابق ملازمین کی بھرتی پر کوئی پابندی تو نہیں لگی ہے پھر بھی صرف ری-پلیسمنٹ کے طور پر بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ اور یہ معاملہ بچکولے کھاتی معیشت کی جانب اشارہ کر رہا ہے جو ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
حال ہی میں ہندوستانی ریزرو بنک کے گورنر شکتی کانت داس نے دہلی میں ایک کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر ہندوستانی معیشت کے چیلنجوں پر اپنا موقف پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فی الحال عالمی معیشت مسلسل کشیدہ تجارتی مذاکرات کے ماحول میں غیر یقینی کی جانب جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مسائل کا حل نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی اس پیش قیاس یا کہیں کہ اس علامت کے پیچھے موجود کئی حقائق سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
دراصل آج ملک میں آمدنی کی عدم مساوات عروج پر ہے جس کے برے اثرات ملک کی ترقی اور سماج پر نظر آنے لگے ہیں۔ اس سے دستور کے معاشی ، سماجی اور سیاسی انصاف کا عہد بے معنی ہو گیا ہے۔ ذرا سوچیے کہ آج ملک کی جملہ آمدنی کے 51 فیصد حصے پر محض ایک فیصد افراد کا قبضہ ہے۔
گذشتہ تین دہائیوں میں تیزی سے بڑھی معاشی عدم مساوات نے آزادی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے اور آبادی کی اکثریت استحصال اور محرومی کے بیچ جینے کے لیے مجبور ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ بڑھتی معاشی عدم مساوات پر سرکاری دستاویز اور حکومت خاموش ہیں۔ دوفرانسیسی ماہرین معاشیات لوکاس چانسل [Lukas Chancel] اور تھومس پیکیٹی [Thomas Piketty] کا شکر گزار ہونا چاہے جنہوں نے ملک میں دستیاب انکم ٹیکس کے اعداد و شمار پر گہرا مطالعہ کر کے تفصیل سے بتایا ہے کہ ہندوستان میں آمدنی میں غیر برابری، برطانوی غلامی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
ان دونوں ماہرین معیشت نے اپنے تحقیقی مقالہ میں بتایا ہے کہ 1930 کی دہائی کے آخر میں ہندوستان کی 21 فیصد آمدنی پر ایک فیصدی دولتمندوں کا قبضہ تھا۔ 1980 کے دہے کے آغاز میں یہ حصہ گھٹ کر 6 فیصد رہ گیا یعنی ایک فیصد دولت مندوں کا ملک کی جملہ آمدنی کے 6 فیصد حصے پر قبضہ رہ گیا۔
مگر اب دولتمندوں کی جملہ قومی آمدنی میں حصہ داری، ایک فیصد سے بڑھ کر 22 فیصد ہو گئی ہے۔ اتنی معاشی غیر برابری امریکہ، برطانیہ، چین یا دیگر یوروپی ملکوں میں نہیں ہے۔
آزادی کے وقت ملک کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو، آمدنی کی غیر برابری کے اس سماجی اور معاشی منفی اثرات کے تعلق سے کافی چوکنا تھے۔ اس لیے انہوں نے ترقی کا ایسا ماڈل منتخب کیا تھا کہ ملک کی پیداوار میں اضافہ ہو ، آمدنی میں اضافہ ہو اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہو لیکن یہ چنندہ ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے۔
دیگر تمام مطالعات بھی ہیں جن کے ذریعے ملک میں آمدنی اور وسائل کی تقسیم میں گہری خلیج کا پتا چلتا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے دفتر کے جمع کردہ اعداد و شمار کا مطالعہ کر کے ایک رپورٹ آئی ہے۔ اس کے مطابق ملک کے کل وسائل کے 28 فیصد حصے پر ایک فیصد لوگوں کا قبضہ ہے جو 1991ء میں 11 فیصد تھا۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک کے ایک فیصد لوگوں کے پاس جملہ قومی دولت کا 51.5 فیصد حصہ ہے اور ملک میں 10 فیصد لوگوں کے پاس 77.4 فیصد دولت ہے۔ نیچے کے 60 فیصد لوگوں کی جملہ قومی دولت میں حصہ داری محض 7.4 فیصد ہے۔ ان میں سب سے غریب 20 فیصد لوگوں کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں بلکہ ان پر 34 لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے۔
ناکامیوں کو چھپانے کے لیے شرح نمو کو زیادہ دکھانے کی روایت 6-5 سال میں ہی شروع ہوئی ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ترقی ملک کے ایک یا 10 فیصد لوگوں کے لیے ہے یا باقی آبادی کے لیے بھی، جن میں متوسط طبقہ بھی شامل ہے؟
بار بار بتایا جاتا ہے کہ کتنے کروڑ ہندوستانی سطح غربت سے او پر آ گئے ہیں؟ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ان کا دوبارہ سطح غربت کے نیچے جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے کیوں کہ آمدنی کی غیر بر ابری کی وجہ سے ان کی آمدنی نہیں بڑھ پاتی۔ علاج کے اخراجات کی وجہ سے ہی تقریباً 5 کروڑ ہندوستانی سطح غربت کے نیچے چلے جاتے ہیں۔
معاشی اصلاحات بنیادی طور پر قومیانہ کو ختم کرنے پر ہی مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں اور خانگیانہ کا مطلب ہو گیا ہے کہ سرکاری کمپنیاں بھی نجی شعبہ کے حوالے کر دینا۔
معاشی اصلاحات سے شرح نمو تو تیز ہوئی لیکن جس فائدہ کا دعوی کیا گیا تھا وہ بھرم ثابت ہوا۔ نتیجتاً ملک کے کچھ ہاتھوں میں ہی آمدنی اور سرمایہ کا بڑا حصہ سمٹ کر رہ گیا۔ معاشی اصلاحات اور لبرلائزیشن کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر پنڈت نہرو اپنی تقاریر میں ظاہر کر چکے تھے۔ نئے معاشی دور کے 30 سالوں میں ہی ملک کی آمدنی اور وسائل پر چند لوگوں کا شکنجہ کس گیا ہے!!
تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبوں میں نجی شعبہ کی بڑھتی در اندازی سے 60 فیصد آبادی بہتر تعلیم اور علاج سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ مشہور معاشی تجزیہ نگار راجیش رپریا [Rajesh Raparia] نے ایک رپورٹ میں چونکانے والے حقائق کی جانکاری دی ہے کہ آمدنی کی بڑھتی غیر برابری کا فرق کتنا دردناک ہوتا ہے؟
یہ نوزائدہ اور بچوں کی شرح اموات سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً سب سے کم آمدنی والے طبقہ میں نوزائدہ شرح اموات 40.7 فیصد ہے۔ جبکہ دولت مند طبقہ میں یہی فیصد 14.6 ہے۔
پانچ سال کی عمر کے بچوں کی شرح اموات دولت مند طبقہ میں 19.8 فیصد جبکہ سب سے کم آمدنی والے طبقے میں 56.3 فیصد ہے۔
ایسا فرق ان طبقات میں بچوں کے سوئے تغذیہ اور خواتین کی تعلیم میں بھی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ملک کی ایک بڑی آبادی کا زیادہ خرچ ضروری اشیاء کی خریدی پر ہو رہا ہے۔ صارف اشیاء کی خریدی سے اس طبقہ نے منہ پھیر لیا ہے جو مندی میں اور شرح نمو میں لگاتار اتار چڑھاؤ کی وجہ ہے۔
یہ شرح نمو پر بڑھتی آمدنی عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر جان بوجھ کر انجان بنی ہوئی ہے۔
بہرحال ایک طرف جہاں روزی روٹی ختم ہو رہی ہے، صنعت و کاروبار بند ہو رہے ہیں، وہیں دوسری طرف سماج کی معاشی عدم مساوات نے حالات کو اور بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت سیاسی پالیسیوں کو بنانے بگاڑنے میں مصروف ہے۔ حکومت کی قوت ارادی معاشی نظام کی مضبوطی کی طرف کم ہی نظر آ رہی ہے۔
***
بشکریہ: روزنامہ "منصف (حیدرآباد)" (11/اگست 2019)
Rajeev Ranjan Tiwari, trajeevranjan[@]gmail.com
بشکریہ: روزنامہ "منصف (حیدرآباد)" (11/اگست 2019)
Rajeev Ranjan Tiwari, trajeevranjan[@]gmail.com
The shrinking of Indian Economy. Article: Rajeev Ranjan Tiwari
بہترین تجزیہ
جواب دیںحذف کریںارشد حسین