حج بیت اللہ شریف اور زیارت مدینہ منورہ کی تفصیلات پر مشتمل، اردو زبان و ادب کے ایک استاذ احمد بدر کا یہ ایک ایسا منفرد سفرنامہ ہے جس کی تحریر کی سادگی، دلچسپ اظہار بیان اور تسلسل واقعات اصل خصوصیات ہیں۔ اس سفرنامے میں کہیں کہیں مصنف نے انشائیے جیسی کیفیت بھی پیدا کی ہے تاکہ کتاب میں دلچسپی برقرار رہے۔
سن 2010 کے حج سفرنامہ "۔۔۔ کہاں سے لوٹ آئے" کی اشاعت 2012 میں پٹنہ (بہار) سے ہوئی تھی۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے اسلم بدر لکھتے ہیں:احمد بدر صاحب اردو زبان و ادب کے استاد ہیں اس لیے یہ کتاب ادبی اور معلوماتی بھی ہے۔ بہت اچھے شاعر ہیں، اپنی سادہ و پرکار شاعری کی وجہ سے جانے مانے جاتے ہیں، سو اس کتاب کی نثر میں بھی وہی سادگی و پرکاری ہے اور پھر مضامین کے عنوان دیکھیے ۔۔۔ کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے، راکھ تلے اک چنگاری تھی، ادھر قدرت کے منصوبے جدا تھے، منزل کا حال رخت سفر بولنے لگا وغیرہ۔ نقاد و ادیب بھی ہیں اس لیے تحریر میں تنقید بھی ہے اور ادب بھی۔
احمد بدر کی یہ کتاب محض ایک سفر کا بیان نہیں ہے ، نہ ہی یہ حج و عمرہ کی گائیڈ بک ، نہ ہی مستجاب دعاؤں اور وظیفوں کا مرقع۔ تحریر کی سادگی ، دلچسپ اظہار اور تسلسل واقعات کتاب کی اصل خصوصیات ہیں۔ اندازِ بیاں ایسا کہ ایک بار ہاتھ میں لیا تو چھوڑنا مشکل۔ شاید کسی انشائیہ سے گذرتے ہوئے بھی قاری کے انہماک کا عالم کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر اسے محض انشائیہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں آوارہ خیالی نہیں ہے، واقعات کی کڑیاں کہیں ٹوٹی نہیں ہیں اور مقصد تحریر کے تمام جوہر اپنے مرکز کے گرد ہی رقص میں مگن ہیں۔ کہیں کہیں مصنف نے انشائیے جیسی کیفیت ضرور پیدا کی ہے تاکہ دلچسپی برقرار رہے اور کتاب ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
انشائیہ کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ۔۔۔ ادبی انشائیہ، تاریخی انشائیہ، سوانحی انشائیہ وغیرہ۔ مجھے اگر اسے انشائیہ ہی کہنا ہو تو میں اس کتاب کو "زیارتی انشائیہ" کہوں گا۔
اس کتاب کا ایک دلچسپ اور معلوماتی باب "صیادی چاول اور فارسی مچھلی" ذیل میں ملاحظہ کیجیے ۔۔۔نادر خاں سرگروہ کا ذکر آ گیا تو ان کے تعارف کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ پیشے سے انجینئر، کونکن کے یہ نادر سپوت بڑے تکلف سے مسکراتے ہیں، بڑی سنجیدگی سے مزاح لکھتے ہیں، بڑی انکساری سے اپنی تحریریں پڑھواتے ہیں اور بڑے اصرار سے مہمان نوازی کرتے ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ میں پہلے سے ان سے واقف کیوں نہ تھا۔ یہ دلشاد نظمی کے پرانے شناسا ہیں، انہوں نے ہی رانچی سے میرے بارے میں انہیں میل کر دیا اور میرا فون نمبر دے دیا ۔ رابطہ کر کے ملنے آ گئے ۔ اپنی کچھ تحریریں پڑھنے کو عنایت کیں اور ملنے آتے رہے۔ اپنی گاڑی پر مکہ کی ایک جھلک دکھائی ۔ پہلی ہی ملاقات میں کھل گیا کہ ہم دونوں طنز و مزاح کے شیدائی ہیں تو زیادہ تر اسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہی ۔ مطالعہ اچھا اور پسند و ناپسند تقریباً میرے جیسی ہے یا کم از کم مہمان نوازی کی روایات کی پاسداری میں انہوں نے یہی ظاہر کیا۔
ایک دن مکہ سے طائف جانے والی شاہراہ پر اپنی پسند کے ایک ریسٹورنٹ میں لے گئے جو مچھلیوں کے لیے مشہور ہے۔ شوکیس میں الگ الگ رنگ، روپ اور وزن کی مچھلیاں برف میں رکھی تھیں۔ نادر صاحب نے مچھلیاں پسند کر کے وزن کرائیں اور ہم بیٹھ کر ان کے پکائے جانے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ بیس پچیس منٹ میں تیار ہو جاتی ہیں۔ کم تیل مصالحہ والی یہ اوون میں سینکی ہوئی مچھلی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بغیر شورہے کی مچھلیاں سوکھے چاول کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔ ہاں، کھانے والے کی سہولت کے لیے ساتھ میں املی کا پانی اور سفید سی پھیکی چٹنی بھی مہیا کی جاتی ہے۔
چاول بھی نادر صاحب نے خصوصی طور پر آرڈر کیے تھے۔ ایک ہی پلیٹ میں ایک طرف سفید سادے چاول، دوسری طرف بالکل بھورے چاول ،جو "صیادی" کہلاتے ہیں۔ نادر صاحب نے وضاحت کی کہ صیاد عربی میں مچھوارے کے لیے مستعمل ہے (چڑی مار کے لیے نہیں)۔ یعنی مچھلی کھائیے مچھوارے کی پسند کے چاول کے ساتھ، اس کو کہتے ہیں "خوش ذوقی"۔
میں نے چاول کے ساتھ مچھلی بہت کھائی ہے لیکن مچھلی کے ساتھ چاول شاید پہلی بار کھائے۔ مجھے ایک خاصی بڑی 'فارس' مچھلی ، جس میں کانٹے برائے نام تھے، کھانی پڑی اور اوپر سے ڈھیر سارے بڑے بڑے جھینگے، جو مجھے ویسے ہی بہت پسند ہیں۔ بالآخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ چاول کی خاصی مقدار چھوڑ دینی پڑی پھر بھی مچھلی تھوڑی بہت بچ ہی گئی۔
ایک دن ایک انڈونیشین ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ وہاں ایک ڈش آرڈر کی جس کا نام تھا مُشَکِّل (میم کو پیش، ش کو زبر اور ک کو تشدید کے ساتھ زبر دے کر پڑھیے)۔ اس کی تشکیل میں کئی چیزیں شامل تھیں۔ ایک پلیٹ میں تھوڑے سادے چاول اور ان کے چاروں طرف بڑے سلیقے سے دو طرح کی سبزی ، دو طرح کا گوشت، تھوڑا سا مرغ، ایک انڈے کا سالن، تھوڑے سے ایک خاص قسم کے چھوٹے چھوٹے پاپڑ وغیرہ۔ ان کے درمیان سادے چاولوں کی حیثیت ایسی ہی لگ رہی تھی جیسے اکبر بادشاہ نو رتنوں سے گھرا بیٹھا ہو۔
نادر خان سرگردہ کی تحریریں بھی اگر فارس مچھلی کی طرح اندر سے نرم اور اوپر سے کرکری ہیں تو 'مُشَکِّل' کی طرح رنگا رنگ ہیں۔ انشائیہ میں شروع سے اخیر تک readability قائم رکھتے ہیں اور بات سے بات پیدا کر کے شگفتہ مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا مجموعہ "باادب بامحاورہ، ہوشیار!" زیرترتیب ہے۔
***
نام کتاب: کہاں سے لوٹ آئے
مصنف : احمد بدر
تعداد صفحات: 200
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Kahan-se-laut-aae_Hajj-safarnama.pdf
فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | بےکم و کاست | 5 |
2 | احمد بدر کا زیارتی انشائیہ | 6 |
3 | کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے | 9 |
4 | راکھ تلے اک چنگاری تھی | 12 |
5 | ادھر قدرت کے منصوبے جدا تھے | 14 |
6 | روح کا شکریہ | 20 |
7 | منزل کا حال رخت سفر بولنے لگا | 25 |
8 | معاملے تھے کرم کے سارے | 28 |
9 | میرے مولیٰ بلا لو مدینے مجھے | 31 |
10 | نائن الیون | 33 |
11 | پہلا طبق روشن ہوا | 36 |
12 | تو عرصۂ محشر میں ہے | 40 |
13 | نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن | 45 |
14 | کل حاجی! کل حاجی! | 48 |
15 | بھولے بھٹکے بھی راہ پاتے ہیں | 54 |
16 | چلتا ہوں تھوڑی دور ۔۔۔ | 59 |
17 | صوالین | 66 |
18 | قربانی کا وقت | 71 |
19 | چھ حج چھیالیس عمرے | 75 |
20 | گرد و پیش | 79 |
21 | منیٰ کی پہلی رات | 83 |
22 | وہ خیموں کی دنیا | 88 |
23 | فی سبیل للہ | 92 |
24 | عرفات کا ایک دن | 96 |
25 | ماڈرن مرشد | 99 |
26 | نفسی نفسی | 103 |
27 | شیطانی حرکت | 110 |
28 | وہائٹ منی ۔۔۔ بلیک منی | 114 |
29 | شاہی محل کی ایک جھلک | 116 |
30 | آخری دعا | 121 |
31 | السرایا الثریا | 125 |
32 | اردو ہے جس کا نام | 128 |
33 | وہ چہرے یاد آتے ہیں | 131 |
34 | مامتا کا نور | 134 |
35 | جتنے حاجی اتنے مفتی | 136 |
36 | چمکتے چہرے | 139 |
37 | مسجد عائشہ یاتنعیم | 141 |
38 | سگِ کوئے حرم | 144 |
39 | صیادی چاول اور فارسی مچھلی | 146 |
40 | منہ میرا ہندوستان کی طرف؟ | 148 |
41 | اپنی اپنی تیاری | 150 |
42 | کھوکھلے جذبے | 153 |
43 | گو پاؤں کو جنبش نہیں ۔۔۔ | 156 |
44 | میوزیم | 161 |
45 | 6 دسمبر | 163 |
46 | مدینے کا سفر ہے ۔۔۔ | 165 |
47 | نہ حاضری کا کوئی سلیقہ ۔۔۔ | 168 |
48 | مقدس وہ دیوار و در اللہ اللہ | 173 |
49 | سخن سنجان طیبہ | 178 |
50 | یا مجید | 181 |
51 | وہ عالم سرشاری | 184 |
52 | آثار جدیدہ | 187 |
53 | تازہ کھجوریں | 190 |
54 | کمروں میں میزان | 193 |
55 | یقین سے نہیں کہہ سکتے | 195 |
56 | لال بیگ کالا بیگ | 197 |
Kahan se laut aae, a travelogue of Hajj. By: Ahmad Badr, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں