منگل سوتر - پریم چند کا آخری ناول - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-31

منگل سوتر - پریم چند کا آخری ناول - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ


پریم چند (پ: 31/جولائی 1880 - م: 8/اکتوبر 1936) نے اپنے مشہور ناول "گئودان" کے بعد، اپنی جان لیوا بیماری کے دوران ہی ناول "منگل سوتر" لکھنا شروع کیا تھا لیکن ابھی ناول کے چار باب ہی مکمل کر پائے تھے کہ وفات پا گئے۔ ڈاکٹر حسن منظر نے پریم چند کے اس ناتمام ہندی ناول کا اردو ترجمہ 1991 میں شائع کرایا تھا۔
تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہ ناتمام ناول "منگل سوتر" پیش خدمت ہے۔ تقریباً سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر اس کتاب کے دیباچے میں پریم چند اور ان کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں ۔۔۔
پریم چند اردو اور ہندی فکشن کے کئی لحاظ سے اہم ترین ادیب ہیں۔ ان دو زبانوں میں انہیں بامقصد ادب کا سنگ بنیاد رکھنے والا مختصر افسانہ نگار اور ناولسٹ کہا جانا چاہیے۔
پریم چند نے تقریباً اپنے تمام فکشن میں شمالی ہندوستان بالخصوص اترپردیش کے دیہات کو اپنی دلچسپی کا محور بنایا۔ وہیں کے بسنے والوں میں انہیں اپنے پورے ملک کے لوگوں کی آرزوئیں، ناکامیاں، مجبوریاں نظر آتی تھیں۔ انہی کی زندگی پر جس طرح انگریزی حکومت، ایک بوسیدہ زمینداری نظام، مذہبی تنگ نظری اور اوہام پرستی اثرانداز تھے اور جس طرح ان کے دلوں میں ترقی پسند تحریکیں اور حریت پسندی گھر کر رہی تھی، اس کے مطالعہ اور الفاظ میں تصویر کشی کو انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا نصب العین رکھا۔ پریم چند کا دور برصغیر کی سیاسی اور سماجی جاگرتی کا دور تھا جب نوجوانوں کے سامنے ان کی منزل تھی اور اس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے تھے۔
پریم چند نے جس طرح ہندوستان میں انگریزی دورِ حکومت کی تاریخ اپنے کرداروں کے روپ میں پیش کی ہے اور سماجی زندگی کو جس سچائی سے اپنی تحریروں میں محفوظ کر دیا ہے اس کے پیش نظر پریم چند کی زندگی اور ان کی تمام لکھائی کا مطالعہ ہمیشہ ادب، تاریخ اور عمرانیات کے قارئین کے لیے ناگزیر رہے گا۔

پریم چند نے اپنے پیچھے کوئی باقاعدہ خودنوشت سوانح عمری نہیں چھوڑی۔ ان کے حالاتِ زندگی کا سب سے اہم مآخذ ان کی بیوی شورانی دیوی کی کتاب "پریم چند گھر میں" ہے۔
اسی سوانح میں ایک جگہ شورانی دیوی لکھتی ہیں:
اگست 1936 میں 'آج' کے دفتر میں گورکی کی موت پر میٹنگ ہونے والی تھی۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ رات کے دو بجے لیکچر لکھنے بیٹھے۔ میرے سوال پر بولے:
'اپنی خوشی سے کام کرنے میں آرام یا تکلیف کا احساس نہیں ہوتا ہے'۔
میں نے کہا: 'وہ کون ہندوستانی تھے؟'
وہ بولے: 'یہی ہم لوگوں کی تنگ دلی ہے۔ گورکی اتنا بڑا ادیب تھا کہ اس کے بارے میں قومیت کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ادیب ہندوستانی یا یورپین نہیں دیکھا جاتا۔ وہ جو لکھے گا اس سے سب ہی کو فائدہ ہوتا ہے ۔۔۔ ادیب کے پاس ہوتا ہی کیا ہے جسے وہ الگ الگ بانٹ دے۔ ادیب کے پاس تو اس کی ریاضت ہی ہوتی ہے۔ وہی سب کو وہ دے سکتا ہے۔ اس سے سب لوگ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ ادیب تو اپنی ریاضت کا کچھ بھی حصہ اپنے لیے نہیں رکھ چھوڑتا۔ اور لوگ جو ریاضت کرتے ہیں وہ تو اپنے لیے، ادیب جو ریاضت کرتا ہے اس سے عوام کا کلیان ہوتا ہے۔ وہ اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرتا'۔

پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز ان ادبی رسائل سے ہوا تھا جن کے مدیر غیرمسلم تھے۔ ان پر سناتنی تہذیب پر حملے کا الزام بھی لگایا گیا ہے اور انہیں آریہ سماجی ہندو بھی کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردو میں مسلمان گھرانوں سے متعلق چند بہترین افسانے پریم چند ہی کے ہیں۔ مثلاً: عیدگاہ اور حجِ اکبر۔
پریم چند نے اپنے پیچھے شاید 303 مختصر افسانے چھوڑے ہیں، جن میں سے 132 پہلی بار اردو میں لکھے گئے اور چھپے تھے۔ آخری کے 92 افسامے انہوں نے ہندی میں لکھے تھے اور شاید ابھی تک 79 ایسے افسانے ہیں جو ہندی سے اردو میں منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔ اردو چھوڑ کر ہندی میں لکھنے کا فیصلہ صریحاً انہوں نے گاندھی جی کہ ہندوستانی بولی کو مروج کرنے کی کمیٹی ناگری پرچار سبھا سے خود کو شناخت کرنے کے بعد کیا تھا۔ اس میں بڑی حد تک اردو کے اچھے ناشروں کے فقدان کا بھی حصہ تھا جو معاوضہ ادا کرنے کے معاملے میں اس دور میں بھی اتنے ہی نادہند تھے جتنے آج تین چوتھائی صدی بعد۔ پریم چند بعد میں اپنی ہندی تخلیقات کا خود اردو میں ترجمہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن بیماری اور عمر کے قطع ہو جانے کی بنا پر نہ کر سکے۔

اردو میں ادھورے ناول اور کہانیاں چھاپنے کا رواج نہیں ہے۔ جس معاشرے میں مکمل تخلیقات ہی بمشکل چھپ پاتی ہوں وہاں ان ادھوری تحریروں کو پڑھنے کا کسے اشتیاق ہوگا؟ جبکہ مغربی ممالک نے اپنے مستند ادیبوں اور شاعروں کے ادھورے شہ پارے ہمیشہ بڑے اہتمام سے چھاپے ہیں اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ہے۔ جیسے الیگزنڈر پشکن کا ناول "دی نیگرو اوف پیٹر دی گریٹ" ، نکولائی گوگول کا ناول "دی ڈیڈ سولز" ، جروسلوف ہاسک کا "گڈ سولجر سواجک" کے علاوہ بنکم چندر چٹرجی کا ہندی ناول "راج موہن کی بیوی"۔

ناول "منگل سوتر" مکمل اور تاآخر حقیقت پسندی کے دور کا ناول ہے۔ یہ عام لوگوں کی کہانی ہے اور اپنے اندر بےانتہا تجسس اور امکان لیے ہوئے ہے۔
پریم چند کی زندگی، بالخصوص آخری دو برسوں کی تفصیل اور ناول کے مرکزی کردار دیوکمار کی زندگی اور فکر کا تقابل ناقدین کے اس مفروضے کی تردید کرتے ہیں کہ یہ ناول مصنف کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی تھا۔ ناول کے ہیرو کی طرح پریم چند نے حالات کے پیش نظر زندگی کے بارے میں اپنے نظریات کو بدلا نہیں تھا۔ وہ ادیب کو قومیت کے تنگ دائرے میں قید نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور تشدد سے انہیں آخر تک شدید نفرت رہی تھی۔
ناول "منگل سوتر" کا خاکہ پریم چند کی زندگی پر مکمل طور سے مبنی نہیں ہے اور اس کے کرداروں کے منہ سے کہی جانے والی ہر بات کے بارے میں سمجھ لینا کہ وہ پریم چند کے منہ سے نکلی ہے، تخلیقی عمل سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ ایک مصنف اپنے اعتقادات کو پس پشت ڈال کر اپنے کرداروں کے مختلف اعتقادات کا اظہار اپنی تحریر میں کرتا ہے۔ تخلیقی فنکار جس وقت وجدان کی اونچی لہر پر ہوتا ہے وہ کم اہم جزئیات کو اس وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہے جب وہ اصلی بات کہہ چکا ہوگا۔

***
نام ناول: منگل سوتر
مصنف: پریم چند
تعداد صفحات: 95
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Mangalsutra-PremChand.pdf

Direct Download link:

Mangalsutra, a novel by Premchand, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں