ہم آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح تھے - خالد علیگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-18

ہم آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح تھے - خالد علیگ

Khalid Alig

"ہم آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح تھے"

حافظہ بھی عجب ہے کہ کبھی تو برسہا بر س قبل کی باتیں یاد ہی نہیں آتیں بلکہ ہمارے ذہن میں ایک فلم سی چلنے لگتی ہے، معمولی سی بات بھی اپنے پس منظر سے غیر معمولی بن کر زبان تک آجاتی ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ سامنے کی بات ہے اور کچھ یاد نہیں آتا۔ گزشتہ دنوں پروفیسرشاہد کمال صاحب(کراچی) سے خالد علیگ کا تذکرہ چھڑ گیا ۔ ان موصوف سے دو ملاقاتیں رہی ہیں۔ آخری بار جب ملےتھے تو اُس وقت خالد علیگ عمر کے آٹھ دہے عبور کر چکے تھے، بظاہر دَھان پان مگر اپنے حوصلے اور جرأت کے باوصف وہ قوی شخص تھے۔
ٹونک والے ڈاکٹر یوسف جاوید سے بزرگی پر گفتگو ہورہی تھی، موصوف کہنے لگے کہ
" میاں !معمر ہونا عجب نہیں اور ہر معمر بزرگ ہو، ہر گز ضروری نہیں۔۔۔ یہ تو ایک اعزاز ہے اور ایسا اعزاز جو قدرت تفویض کرتی ہے۔ ورنہ کہنے کو توزمانہ ہر معمر فردکو بزرگ کہتا ہے مگر ایسی بزرگی جھاگ کی طرح ہوتی ہے۔’ بزرگی‘ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ بعد از مرگ بھی اپنا اثر کھوتی نہیں دیکھیے زندگی کے کتنے شعبے ایسے ہیں جہاں یہ بزرگی قائم و دائم ہے۔ "
چودہ برس ہونے کو ہیں بزرگوار خالد علیگ سے ملے ہوئے مگر ابتک وہ اپنے تمام محاسن کے ساتھ ذہن کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ وہ بظاہر ترقی پسند تحریک کے آدمی تھے مگر قدرت نے اُن کو جیسا مُعزَز بنا رکھا تھا ویسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ سِوِل انجینئرئنگ سے انہوں نے اپنی عملی زندگی شروع کی اور پاکستان کے ایک بڑے روزنامے’مساوات‘ کے ایڈیٹر کے منصب تک پہنچے، سیاست وادب ہی کے لوگ نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے اصحاب بھی ان کی عزت کرتے تھے، وہ جو کہا گیا ہے کہ وتو عزو من تشا ٔ ۔۔۔ خالد علیگ اسی قول کی زندہ مثال تھے کراچی میں۔
ہم مسلمانوں کی تاریخ میں "خالد" ایک تاریخی کردار کا نام ہے ۔ خالد بن وَلید کی شجاعت اور مومنانہ صفات سے ہر پڑھا لکھا مسلمان واقف ہے مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ نبیرہ ٔ امیر ِمعاویہ یعنی خالد بن یزید بھی ایک تاریخی کردار گزرا ہے جو بادشاہ ِوقت کی اولاد ہوتے ہوئے بھی تاج و تخت اپنے اجداد کے نظریات سے دستبردارہوا اور مسلمانوں میں علمِ کیمیا کے بنیادی اُستادوں میں شمار ہوا ، پٹھانوں کے شہر قائم گنج (فرخ آباد۔ یوپی) نے بڑے بڑے لوگوں کو جنما ہے خالد علیگ نےبھی 1923 میں اسی سرزمین پر آنکھیں کھولی تھیں مگر وہ شمشیر وسناں والے خالد ؔ بن ولید سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ خالد بن یزید سےاُنکی (معنوی) نسبت تھی یہ اور بات کہ خالد بن یزید نے علمِ کیمیا کو تقویت پہنچائی تو خالد علیگ نےصبح کا پھریرا لہرایا ۔ اخبار، صبح کی ایک علامت ہے اور ہمارے نزدیک صبح، حق کا اعلان بھی ہے۔

ہم اُنھیں حق کا علم بردار اور ظلم کے خلاف قلم بردار ایک سپاہی جانتے ہیں ۔ ظلم و ظلمت کا مخالف حق کامشعل بردار مساوات کا نقیب ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ
میرا شہر مجھ پر گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغ ِراہِ وفا ہوں مَیں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں
خالد علیگ اپنے شہر والوں سے خائف نہیں بلکہ انھیں گواہ بناتے ہیں جو، اُن کے حسن ِظن کا اعلان ہے اسی طرح اُن کا ایقان بھی ایمانِ وفا بنا ہوا ہے۔ یہ سطریں رقم کرتے ہوئے ذہن میں اُن کا سراپا ہی نہیں گھوم رہا ہے بلکہ ان کے چہرے پر اطمینان کا وہ منظر بھی آنکھوں میں گردِش کر رہا ہے جو آج بڑے بڑے اہل ِ ثروت کو بھی نصیب نہیں یہ اطمینان اُن کے ایقان ہی کا مظہر ہے، اس موقع پر
حضرتِ انجم فوقی بدایونی کا یہ مطلع بھی یاد آتا ہے:
مطمئن بیٹھا ہوں خود کو جان کر
اور کیا ملتا خدا کو مان کر

چھوٹوں اور بڑوں میں موازنہ کرنا اچھا عمل نہیں سمجھاجاتا مگر کیا کِیا جائے کہ بڑوں ہی سے چھوٹوں کی شناخت اور چھوٹوں ہی سےبڑوں کی بڑائی ثابت ہوتی ہے۔ خالد علیگ اور ہمارے درمیان خرد و کلاںہی کا تعلق ہے وہ کراچی کے ایک بڑے اخبار (مساوات)کے مدیریعنی پاکستان کے صحافیوںمیں اِک ممتاز مقام کے حامل ، ہم ہندوستان میں اُردو کے دورِ ارزانی کے ایک معمولی سے اخبارچی ۔
اپنے سے ہر حال میں بلند اور باکمال شخص کے بارے میں کچھ لکھنا ، کچھ کہنا ،چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق ہے مگر جس طرح کبھی کبھی شاعری وغیرہ میں لفظ کے مروجہ معنی بدل دِیے جاتے ہیں اُسی طرح یہ خرد اِس بزرگ سے نسبت کا مدعی ہے ۔یہ نسبت اُن (خالد ) کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی مگر اِس اخبارچی کیلئے حسنِ معنیٰ ضرور رکھتی ہے وہ یوں کہ خالد علیگ ہمارے معاصر ہیں ہم نے اُنھیں سنا ہے، دیکھا ہے کہ تاریخ سے کسی بھی طور تعلق رکھنے والے تاریخ کا ادنیٰ ہی سہی مگر اُس کا حصہ بن جاتے ہیں۔۔۔ فی زمانہ جسے دیکھو دُنیا طلبی میں مبتلا ہے مگر ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ دُنیا نےجن کی طلب کی اور وہ دُنیا کے ہاتھ نہیں آئے،سید زادے خالدعلیگ انہی میں شمار کیے جائینگے، سچ ہے کہ زندگی ایسے ہی اشخاص کے قدموں پر نچھاور ہوتی ہے۔۔۔خالد علیگ ہی نے کہا ہے:
دُنیا نے تو ہر موڑ پہ سَو دام بچھائے
ہم تیرے خیالوں کی طرح ہاتھ نہ آئے

پاکستان کا ماضی ، پاکستان کا حال سب کی نظر میں ہے مگر اس ماضی اور حال سےمستقبل کی جو آہٹ سنائی دیتی ہے اُس میں خالد علیگ جیسے لوگ آفتاب ِزرد ہوتے ہوئے بھی اُجالے کا استعارہ ہیں وہ یونہی نہیں کہتے:
بُجھتا ہوا اِ ک دیپ سہی ہم، ہمیں پھر بھی
جب تک کہ نہ ہو جائے سحر ساتھ میں رکھنا
(اس شعر کو اُن کی تعلّی نہ سمجھا جائے بلکہ اِسے اُن کی شفقت پر محمول کیا جائے) ہمارا خیال ہے کہ خالد علیگ نے تو انکسار اً کہا ہے کہ "ساتھ میں رکھنا " مگر آج دُنیا اور بالخصوص برِصغیر کی طرف ظلم و ظلمت کی جس آندھی کے آثار ہویدا ہیں اُس میں خالد علیگ جیسے آہنی حوصلہ اور مضبوط اِرادے کے حامل لوگ ہماری ضرورت ہوں گے اور یہ وہ ضرورت ہیں جس میں شفقت ومحبت نے آمیز ہو کر ایک قوت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ہمارے لئے آج آلودہ فضاکی ہرسانس زہر بنی ہوئی ہے ایسے میں خالد علیگ جیسے بزرگ کسی بھی طرح قوتِ مدافعت سے کم نہیں ۔ دُعا کیجئے کہ HIV لگی ہوئی انسانی فکر میں یہ قوتِ مدافعت کسی طور باقی ر ہے کہ اسی میں آدمیت و انسانیت کی بقا بھی مخفی ہے ۔خالد علیگ کا یہ شعر کسی نام نہاد مجذوب کی بڑ نہیں:
اب دردِ مشترک ہے مِرا درد دوستو!
اب مقتلِ وفا میں اکیلا نہیں ہوں مَیں

خالد علیگ جیسا زندہ اہلِ قلم اور ایسا زِندہ کہ زندگی ازل تا ابد اس کی رفیق بنتی نظر آتی ہے ۔ ہنود کے ہاں شنکر کا کردار بڑا پر کشش ہے اُس نے زہر پیا تھا ، زہر پینا بھی بڑے دِل گردے کی بات ہے ایک جرأت کا کام ہے زہر لاکھ جان لیوا سہی لیکن جن لوگوں کو زہر پیناآتا ہے وہ زِندۂ جاوید ہوجاتے ہیں ۔ خالد علیگ نے حالات کا زہر پیا ہے اُن کے اِیقان پر ایمان لاتے ہی بنتی ہے ۔
اے حادثِ قدیم کی مُردہ روایتو!
مَیں اِتنا جانتا ہوں کہ مرتا نہیں ہوں مَیں
ایسا صاحب ِیقین و صاحب ِایمان خالد علیگ پاکستان اور پاکستانیوں کو مبارک ہو اور ہم تو وطن اور وطنیت سے پَرے صرف علم و ادب ہی کے رِشتے سے ایک فخر محسوس کرتے ہیں وہی فخر جو خالد بن یزید کے تاج و تخت سے بےنیازی اور علم سے شغف سے ہمیں محسوس ہوا خالد علیگ سے رِشتہ بھی اسی علم وادب کا حاصل ہے یہ وہ رِشتہ ہے جو انبساط کا صرف احساس ہی نہیں دِلاتا بلکہ ہمیں بھی کسی طور اُس شغف سے قریب کرتا ہے ۔

پندرہ اگست2007 کو یہاں جب کراچی سے اُن کی سناؤنی آئی تواُسی کے ساتھ اُڑتا ہوا اُن کا یہ شعر بھی ہم تک پہنچا تو منہ سے بس آہ ہی نکلی:
موتی تو نہیں تھے، کوئی پلکوں سے جو چنتا
ہم آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح تھے

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

The memoirs of Khalid Alig. Column: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں