علی سردار جعفری کے خطوط بنام پروفیسر جگن ناتھ آزاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-17

علی سردار جعفری کے خطوط بنام پروفیسر جگن ناتھ آزاد

sardar-jafri-jaganath-azad

یکم مئی 1976ء
برادرم آزاد صاحب ۔ تسلیم
دہلی سے واپسی پر آپ کی نظمیں مل گئی تھیں ۔ دہلی میں برنی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ اقبال نمائش کی ا زسر نو ترتیب و تزئین کے لئے میں انہیں پہلے خط لکھ چکا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ فوٹو ڈویژن کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ آپ سے بھی ربط قائم ہوگیا ہوگا ۔اب یہ نمائش جلد آراستہ ہوجائے تو بمبئی میں اس کے دکھانے کا انتظام کیاجائے ۔ کیا آ پ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس نمائش کی مکمل فہرست انگریزی میں میرے پاس بھیج دیں؟ اگر ضرورت ہوگی تو اس نمائش کو دیکھنے کے لئے میں سری نگر آجاؤں گا ۔ اقبال پر فلم بنانے کے لئے اس نمائش سے بہت کام لینا ہے ۔ اس میں آ پ کا مشورہ بھی ضروری ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس سال کے آخر تک اقبال کی ایک اچھی سوانح عمری تین زبانوں میں تیار ہوجائے ۔ اس کے متعلق مشہور کرنے کے لئے میں آپ کو بمبئی آنے کی زحمت دینا چاہتا ہوں ۔جو ن کا پہلا ہفتہ مناسب ہوگا ۔ چھ سات دن یہاں قیام کیجئے ۔ آپ کی آمد و رفت کے اخراجات اقبال کمیٹی کی طرف سے ادا کئے جائیں گے ۔ مجھے فوراً اطلاع دیجئے کہ آپ کب آسکتے ہیں!
دہلی میں شنکر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی ۔ انہوں نے آپ کی کتاب”اقبال اور مغربی مفکرین” کا ذکر کیا اور آپ کا خط دکھایا۔ میں نے اس بات کی پرزور تائید کی ہے کہ اس کتاب کا جشن اجرا چیمسفورڈ کلب میں منایاجائے ۔ اس میں میں بھی شریک ہوں گا ۔ کتاب تیار ہوچکی ہے۔ اس کی ایک جلد عنایت کیجئے تاکہ تقریر کی تیاری کرسکوں۔
“گفتگو”کا شمارہ اب دس پندرہ دن میں آجائے گا ۔ آ پ کے والد محترم محروم صاحب کا مضمون آئندہ انتخاب میں شامل کررہا ہوں ۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔
آپ کا
سردار جعفری

28/مئی 1976ء
برادرم آزاد صاحب۔ تسلیم
تین چار دن ہوئے سی آئی ڈی کے دفتر کے ذریعے سے آپ کا پیام ملا کہ آُ7/جون کے بعدبمبئی آسکیں گے ۔ میں نے اسی دفتر کے ذریعے سے آپ کو پیام بھجوادیا تھا کہ یہ تاریخیں میرے لئے موزوں ہیں ۔ آپ تک میری بات پہنچ گئی ہوگی۔ اب آپ اپنے آنے کی اطلاع مجھے تار کے ذریعے سے دیجئے ۔ وقت اتنا نہیں ہے کہ خط بر وقت پہنچ سکے ۔ آپ کس تاریخ کو کس ٹرین سے کس وقت پہنچیں گے ؟
میں آپ کے ٹھہرنے کا انتظامM۔L۔A۔ S Hostelمیں کررہا ہوں ۔ مہاراشٹر اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جناب فاروق پاشا صاحب کی طرف سے ذمہ دار افراد کو اطلاع دے دی گئی ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ آ پ کے لئے ایک کمرہReserveکردیاجائے ۔ آپ خود بھی اپنی سرکاری حیثیت کے مطابق نیچے لکھے ہوئے پتے پر تار دے دیجئے اور خط بھی لکھ دیجئے کہ آ پ کے لئےM۔L۔A S Hostelمیں ایک کمرہReserveکردیاجائے ۔ پتہ یہ ہے :
Secrectary
Building and Communications Department
Government of Maharashtra Sachivalaya, Bombay
تین چار دن میں قرۃ العین حیدر ، آپ اور میں تینوں مل کر اقبال کی سوانح عمری کا خاکہ تیار کرلیں گے۔ فلم کے متعلق بھی آپ سے بات کرنا ہے ۔ نمائش کی فہرست ابھی نہیں ملی ۔ ساتھ لیتے آئیے گا۔
اقبال پر انگریزی میں جتنی کتابیں ملتی ہیں ان کی ایک فہرست بھی بنالیجئے اور ایک فہرست کلام اقبال کے انگریزی تراجم کی، تاکہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ میں خود بھی فہرست بنارہا ہوں۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔
آپ کا
سردار جعفری

بمبئی۔9/اکتوبر 77ء
برادرم ۔ تسلیم
میں2/اکتوبر کو دہلی چلا گیا تھا ۔ کل رات کو واپس آیا ۔ آج صبح آپ کا 4/اکتوبر کا خط دیکھا ۔ اس دوران میں آپ کو میرا خل مل گیا ہوگا جو میں نے دہلی جانے سے پہلے لکھا تھا۔ سری نگر کے سیمنار میں آل احمد سرور نے مجھے مدعو نہیں کیا ہے اس لئے وہاں جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مدعو کرتے بھی تو میں نہ جاسکتا ۔ اقبال صدی کے کاموں کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں ۔ اب میں 20/اکتوبر کو پھر دہلی پہنچ جاؤں گا اور سمینار کے خاتمے تک وہاں قیام کروں گا ۔ آپ بھی ذرا جلدی آجائیے تو کاموں میں آسانی ہو۔
“مرقع اقبال” کے اجرا کے لئے میں ایل ۔ کے اڈوانی صاحب سے بات کی ہے اور انہوںنے وعدہ بھی کیا ہے ۔ شہباز میرے ساتھ گئے تھے ۔ سیمنار کا افتتاح 30/اکتوبر کو وگیان بھون میں گجراتی کے عظیم شاعر اوما شنکر جوش کریں گے ۔ اس تقریب میں اڈوانی صاحب مرقع اقبال کا اجرا کریں گے ۔ میں نے موصوف سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ سیمنار میں شریک ہونے والے بیرونی اور ہندوستانی دانش وروں کو مرقع کا ایک ایک نسخہ تحفۃً دیاجائے ۔ اب اس سارے کام کو تکمیل تک پہنچانا پبلی کیشن ڈویژن کے ڈائرکٹر صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے اڈوانی صاحب سے ملاقات کے بعد ان کو خط لکھ دیا ہے جس کی نقل پبلی کیشن ڈویژن کے ڈائرکٹر صاحب کے پاس بھیج دی ہے۔NCERTکی شائع ہوئی کتاب کا اجرا ممکن نہ ہوگا ۔ اس سلسلے میں مجتبی حسین مجھ سے ملے تھے ۔ میں نے اقبال سیمنار کے اور احباب سے مشورہ کیا ، سب کی یہ رائے ہے کہ آپ کا مرتب کیا ہوا مرقع اقبال ، زیادہ وقیع کتاب ہے۔ اس کا اجرا ہورہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہی مصنف کی دوسری کتاب کا اجرا مناسب نہیں ہے ۔ پھر وہ بچوں کی کتاب ہے جس کا اجرا بین الاقوامی سمینارمیں کچھ جچے گا نہیں۔
شنکر صاحب کی ایک تجویز یہ ہے کہ آپ کی کتاب”اقبال اور مغربی مفکرین” ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی کتاب”اقبال اور حافظ، اسلوب احمد انصاری کی کتاب”اقبال کی نثری نظمیں، اور میری کتاب”اقبال شناسی ، کا ایک ایک نسخہ سمینارمیں شریک ہونے والے دانش وروں کو پیش کیاجائے ۔ اقبال کمیٹی کے پاس اتنا روپیہ نہیں ہے کہ چاروں کتابوں کی ایک ایک جلد خریدے ۔ اس لئے چاروں کتابوں کے دو ناشروں کو خط لکھا جارہا ہے کہ یہ تحفہ ان کی طرف سے آنا چاہئے ۔آپ پبلی کیشن ڈویژن کے ڈائرکٹر صاحب کو لکھئے کہ”مرقع اقبال البم” کے لئے خوبصورت ڈبہ تیار کرائیں اور اس پر جشن اقبال کمیٹی اور پبلی کیشن ڈویژن کا نام خوبصورت حروف میں طبع کرائیں ۔
اب مجھے مختلف رسائل اور سیمنارکے لئے اقبال پر چار مضامین لکھتے ہیں اور ڈاکو منٹری فلم مکمل کرنی ہے۔ وقت کم ہے کام زیادہ۔
باقی بر وقت ملاقات۔
آپ کا
سردار جعفری

18/فروری1981ء
برادرم ۔ تسلیم
میں نے دو مفصل خط آپ کی خدمت میں روانہ کئے تھے اور یہ لکھا تھا کہ میں 20/فروری کے بعد جموں یونیورسٹی آسکتا ہوں ۔ بصورت دیگر وزیٹنگ پروفیسری کے لئے اکتوبر، نومبر، دسمبر 1981ء میں آجاؤں گا ۔ آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس لئے اب یہی مناسب ہے کہ تاریخیں آگے بڑھا دی جائیں ۔ یقینا اس صورت میں آپ کو کچھ زحمت ہوگی اور نئے بجٹ میں اس کی صورت پیدا کی جائے گی ۔ لیکن یہ کام آپ آسانی سے کرلیں گے ۔
میں آج ناظم( پپو) میاں کی شادی کے مراحل سے فارغ ہوا ہوں۔ آج شام کو کچ مہمان رخصت ہورہے ہیں، کچھ دوچار دن بعد جائیں گے ۔ گھرمیں بہو آگئی ہے اور رونق میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
مارچ کے مہینے میں دہلی میں آپ سے ملاقات ہوگی اس وقت جاوید نامے کی طباعت کا کام شروع کردیاجائے گا۔ آپ کے مشوروں سے منصوبہ بنایاجائے گا۔
ایک خوشخبری یہ ہے کہ حیدرآباد کے احباب اس سال جشن جوش ملیح آبادی منانا چاہتے ہیں اور اس میں شرکت کے لئے جوش صاحب کو مدعو کرنا چاہتے ہیں ۔ اس اہم کام میں آپ کے مشوروں اور تعاون کی بھی ضرورت ہوگی ۔ میں اب جلد سے جلد جموں یونیورسٹی کے توسیعی خطبات”قبلہ رنداں جہاں” کو مکمل کرلوں گا اور آپ کی یونیورسٹی کو طباعت کے لئے دے دوں گا تاکہ جشن جوش کے وقت کتاب ان کی خدمت میں پیش کی جاسکے ۔
میںکچھ بیمار تھا ، کچھ مصروف تھا اس لئے بملا بھابی سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ آپ نے لکھا تھا کہ وہ چیک اپ کے لئے بمبئی آئی تھیں۔ امید ہے کہ وہ بخیریت ہوں گی۔
گفتگو کی دوسری جلد پریس میں ہے ۔یعنی ترقی پسند ادب نمبر جلد دوم۔اس میں آپ کی نظمیں بھی شامل ہیں ۔ پہلی جلد بہت پسند کی گئی ۔ پہلی جلد کی پانچ کاپیوں کا بل آپ کی یونیورسٹی پر واجب الادا ہے ۔ممکن ہو تو اس کو جلد ادا کرادیجئے۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
آپ کا
سردار جعفری

3/نومبر 1981ء
برادرم۔ تسلیم
اردو عالمی کانفرنس کے ایک جلسے میں لکھنو گیا تھا۔ دہلی کی طرف سے گزر ہوا۔ اپنی ڈاکو منٹری فلم کے سلسلے میں جموں میں تھوڑا سا کام تھا۔ شوٹنگ سے پہلے کاکام ۔ میں دودن کے لئے یہاں آگیا ۔ مگر کسی سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ نہ آپ سے نہ یوسف ٹینگ۔ یونیورسٹی بھی بند ہے ۔بہر حال کچھ کام تنہا کرلیا۔ اب آج شام کو واپس جارہا ہوں ۔ ہمہ شوق زندہ بودم
آپ کا
سردار جعفری

7/جولائی 1984ء
برادرم جگن ناتھ آزاد۔ تسلیم
آپ کا خط ملا ۔ خوشی ہوئی کہ آپ خیریت سے جموں پہنچ گئے ۔ 21/جولائی کو اقبال کمیٹی کی مجلس عاملہ اور جنرل باڈی کے جلسے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کچھ قانونی قباحتیں ہیں۔ اس لء ے اب دہلی کا سفر ملتوی کرنا پڑے گا ۔ نئی تاریخوں کی اطلاع اندر کمار گجرال سے مشورے کے بعد دوں گا۔اناماری شمیل کی کتابGabriel's Wingمیرے پاس ہے ۔ یہاں فارسی کتابوں کی ایک دوکان ہے وہاں اس کتاب کے ملنے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ آپ دہلی میں Rama Krishna & Sons۔ Cannought Placeکو خط لکھ دیجئے ۔ وہ آپ کے لئے کتاب منگا دیں گے ۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی یونیورسٹی اور ادو شعبے کے کتب خانوں کے لئے اور سری نگر کے اقبال انسٹی ٹیوٹ کے لئے بھی یہ کتاب منگوالیجئے ۔ اس طرح چار کتابوں کا آرڈر دیاجاسکتاہے ۔ راما کرشنا اینڈ سنز ایک جلد بھی منگوادیں گے ۔
تاشقند کے سلسلے میں جب دہلی جاؤں گا تب بات کروں گا۔ غالباً اس کام میں قمر رئیس بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔ وہ وہاں بحیثیت پروفیسر گئے تھے لیکن صحت کے خیال سے واپس آگئے۔ درمیان میں سنا تھا کہ گوپی چند نارنگ بھی کوشاں ہیں ، لیکن اب کیا صورت ہے اس کا علم نہیں۔
میں اب تک اپنی انگریزی کتابProgressive Movemnet and Urud Peotryکا مسودہ پریس کے لئے تیار نہیں کرسکا ہوں ۔ نہ جانے وقت کہاں خراب ہوجاتا ہے ۔ اس مسودے کے کچھ حصے ٹائپ کرانا باقی ہیں۔ وہ خود ہی کررہا ہوں ۔ نظموں کے ترجمے مکمل ہیں ۔ کوشش کررہا ہوں کہ اس ماہ میں مکمل کر کے پریس کو بھیج دوں ۔ وہ لوگ بھی کچھ وقت لیں گے ۔
آپ نے غالباً ذکر کیا تھا کہ کراچی سے صہبا لکھنوی کا خط آیا ہے ۔ وہ افکار خاص نمبر نکال رہے ہیں۔ آپ نے ان کے لئے مضمون لکھ دیا یا نہیں ۔ سہیل کو آپ شاید کوئی چیز لکھ کر بھیج چکے ہیں صرف یاددہانی کے لئے۔ چیلا شیف صاحب کو آپ نے خط لکھ دیا یا نہیں ۔ ان کا جو مقالہ آپ نے مجھے دہلی میں دیا تھا وہ نامکمل ہے ۔ آٹھ صفحے آئے ہیں پھر صفحہ11 ہے اور اس کے آگے کچھ اور ہے ۔ ان سے مکمل مسودہ منگالیجئے ۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔
آپ کا
سردارجعفری

13/ستمبر1984ء
برادرم آزاد۔ تسلیم
ایک عرصے سے آپ کی خیریت معلوم نہیں ہوئی ۔ اب شاید ملاقات کی صورت پیدا ہوہی ہے۔23/ستمبر کو جالندھر میں ٹیلی ویژن کا ایک مشاعرہ ہے ۔ میں شریک ہورہا ہوں ۔ یقین ہے کہ آپ بھی مدعو ہوں گے ۔ وہاں سے میں آٹھ دس دن کے لئے جموں آنا چاہتا ہوں ۔ وسط اکتوبر میں دہلی یونیورسٹی میں نظام خطبات پیش کرنے ہیں لیکن ابھی تک ایک خطبہ بھی مکمل نہیں کرسکا ۔ وجہ یہ ہے کہ بمبئی میں مکروہات بہت زیادہ ہیں ۔ اگر یونیورسٹی کے مہمان خانے میں آٹھ دس دن کے لئے ایک کمرہ مل جائے تو وہاں بیٹھ کر خطبات لکھ لوں گا ۔ 11/اکتوبر کو سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے بھی مشاعرہ ہے۔ اس میں بھی شریک ہونا ہے ۔ میں نے اپنی منظوم آپ بیتی نومبر میرا گہوارہ کے کچھ اور حصے لکھے ہیں۔ جموں کی آب و ہوا راس آئی تو شاید کچھ اور تخلیق ہوجائے ۔ آپ تو اس زمانے میں وہاں ہوں گے ۔ ملاقات ہوتی رہے گی۔
میں نے یونیورسٹی کے مہمان خانے میں کمرہ کے لئے وائس چانسلر صاحب کو خط نہیں لکھا ہے۔ آپ میری طرف سے بات کرکے انتظام کردیجئے اور مجھے تار کے ذریعے سے اطلاع دے دیجئے کہ انتظام ہوگیا ۔ میں19/ستمبر تک بمبئی میں رہوں گا ۔ 20/ کو دہلی پہنچ جاؤں گا اور دوگل کے گھر قیام کروں گا ۔ 22/ کی شام تک جالندھر۔ مشاعرہ 23 کو ہے ۔ اس کے معنی ہیں کہ آپ 24/ سے31/ستمبر تک کے لئے کمرے کا انتظام کردیجئے ۔
کراچی سے صہبا لکھنوی کا پیام آیاہے۔”افکار” کے سردار جعفری نمبر کے لئے یہاں کے مضامین مانگ رہے ہیں ۔ کچھ چیزیں ان کے پاس پہنچ گئی ہیں مثلاً ڈاکٹر وحید اختر کا مضمون آپ کا مضمون اب تک نہیں ملا ہے ۔ آپ نے شاید کوئی مضمون میرے جموں کے قیام پر لکھا ہے سہیل کے لئے ۔اگر آپ نیا مضمون نہ لکھیں تو وہ پاکستان میں بھی شائع ہوسکتا ہے ۔
کشمیر کے کوئی نصرت چودھری ہیں، ان کا ایک انٹر ویو جو انہوں نے فیض سے لیا ہے کتاب نما کے تازہ شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ انہوں نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ”سردار جعفری کی آج کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آ پ کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔”فیض نے اپنے انداز میں اس کی تصدیق بھی کی اور یہ بھی اشارہ کردیا کہ آج کے دور میں سب شعرا انہیں کے رنگ میں شاعری کررہے ہیں۔انٹر ویو پڑھ کر جی خوش ہوا ۔سوچاکہ اس مسرت میں آپ کو بھی شریک کرلوں۔
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔
آپ کا
سردار جعفری
پس نوشت: پوری صاحب سے میرا سلام کہئے گا۔ شعبہ اردو کے تمام احباب کو بھی آداب ۔ کالرا صاحب کا عید کارڈ آیا تھا اس کا شکریہ اب تک ادا نہیں کیا۔ اب آؤں گا تو ذاتی طورسے شکریہ ادا کردوں گا۔
سردار

بمبئی۔ 29 ستمبر1984ء
برادرم آزاد۔ تسلیم
ابھی آپ کا25 ستمبرکا خط ملا ۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے جموں نہ آنے سے آپ کو زحمت ہوئی۔میں دراصل جالندھر دور درشن کی بدانتظامی کی وجہ سے 23/کے مشاعرے میں نہ جاسکا۔ خط اس لئے نہیں لکھا کہ میر ا خیال تھا کہ آپ اس مشاعرے میں ہوں گے اور میرے نہ جانے کی اطلاع آپ کو خود بخود مل جائے گی ۔ میں فی الحال بمبئی میں ہوں اور دہلی یونیورسٹی کے لئے نظام خطبات لکھ رہا ہوں ۔ لیکن لکھ نہیں پارہا ہوں ۔ موضوع دلچسپ ہے لیکن خاصا دشوار۔ ترقی پسند تحریک کی نصف صدی۔ اس کو لکھنے کے لئے کچھ زیادہ سکون کی ضرورت ہے اور میرے معاملات سب کے سب بے سکونی کے شکار ہیں ۔ ابھی تک اپنی انگریزی کتاب Progressive Movement and Urdu Poetryوکاس پبلشنگ ہاؤس کو نہیں دے سکاہوں۔ کچھ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ کام روک کر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ اب پرسوں صبح دو دن کے لئے اورنگ آباد جانا ہے ۔سکندر علی وجد پر ایک کتاب کا اجرا ہے ۔یوسف ناظم بہت عزیز دوست ہیں ان کا اصرار ہے کہ اورنگ آباد سے ایک دن کے لئے ان کے وطن جالنہ بھی چلوں ۔ اس کے معنی ہیں کہ چار دن تک کچھ نہیں لکھ سکوں گا ۔ بمبئی کے قیام میں اس قسم کی مشکلات در پیش رہتی ہیں ۔ کوشش کروں گا کہ آج اور کل کچھ لکھنے کا کام کروں ۔ اس کے بعد اورنگ آباد سے واپسی پر تین چار دن پھر لکھوں گا۔ سری نگر کے مشاعرے کے لئے 10/اکتوبر کی شام کی پرواز سے دہلی جاؤں گا اور 11 کو سری نگر ۔ وہاں سے مشاعرہ پڑھ کر 13/اکتوبر کو جموں آجاؤں گا ۔ اور یونیورسٹی کے مہمان خانے میں16/اکتوبر تک رہوں گا ۔ اور اپنے خطبات مکمل کروں گا۔ وہاں سے 17/ کو دہلی جاؤں گا اور 18،19 /اکتوبر کو خطبات یپش کرکے فارغ ہوسکوں گا ۔ ان خطبات کے لئے بھی قمر رئیس اور پروفیسر ظہیر احمد صاحب کے اصرار پر آمادہ ہواہوں ۔ ورنہ اور بہت سے کام ہیں اور سب سے بڑا کام زندہ رہنے کے لئے لئے پیسہ کمانا۔ اس عمر میں ابھی تک میرے بیٹے کاموں سے نہیں لگے ہیں۔ ناظم بمبئی میں ہیں اور اپنا پریس لگا رہے ہیں۔ اس کے لئے خاصی رقم کا انتظام کرنا ہے ۔ چھوٹے صاحبزادے حکمت اس سا ل دسمبر میں اپنی تعلیم ختم کرلیں گے ۔ ان کے اخراجات کی آخری قسط تقریباً 20/ہزار روپے ہے۔ ملاقات ہوگی تو اورباتیں ہوں گی ۔ اب آپ میرے لئے مہمان خانے میں 12/اکتوبر سے16/اکتوبر تک انتظام کرادیجئے ۔ پوری صاحب کی خدمت میں آداب۔
قرۃ العین حیدر کا پتا میرے پاس نہیں ہے ۔ انہوں نے یہاں سے جاکر کوئی ربط قائم نہیں رکھا۔ وہ دہلی اور علی گڑھ کے درمیان رہتی ہیں۔ ایک خط پروفیسر ثریا حسین شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی معرفت لکھ دیجئے شاید کچھ پتا چلے ۔
امید ہ کہ آپ بخیریت ہوں گے ۔
آپ کا
سردار جعفری
بھائی آزاد
ضرور تشریف لائیے اور وزیر اعظم کے دست مبارک سے کتاب کا ایک نسخہ حاصل کیجئے۔
سردار
10۔Sedta Mahal
Bomban ji Petil Road
Bombay۔400036

7/فروری 1997ء
برادرم جگنناتھ آزاد۔تسلیم
آپ کے کلام کے انتخاب کی تین جلدیں ملیں۔ کتاب کی طباعت بہت ناقص ہے۔ ربودگی کا ایک لمحہ صفحہ70 پر، پھر یہی نظم غزل کے نام سے صفحہ78 پر شائع ہوئی ہے ۔ایک اور غزل بھی دوبارہ شائع ہوئی ہے ۔میںآ پ کے کلام سے چند اور چیزیں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ اور اس کی وجہ سے آپ کی نشان لگائی ہوئی نظموںمیں سے کچھ کم کردی جائیں گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے کسی انتخاب میں وہ نظم ضرور شامل ہونی چاہئے جس میں آپ کے دل کی تڑپ سب سے زیادہ خوبصورت الفاظ میں ظاہر ہوتی ہے ۔ وطن کی صبح میں، شام غریباں لے کے آیا ہوں، سلام مچھلی شہری کی موت پر جو نظم ہے وہ بھی مجھے پسند ہے۔ ایک بہت پرانی نظم زندگی ہے، اب دیکھتا ہوں ، سرمایہ سخن میں کتنی جگہ دے سکوں گا۔
کتاب سرمایہ سخن، نہرو فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے ۔ یہ ایک مختصر سی اردو شاعری کی لغت ہے جو چار پانچ جلدوں میں شائع ہوگی ۔ پہلی جلد کے چار سو صفحات کی کتابت ہوگئی ہے ۔ تقریباً دو سو صفحات کی کتابت باقی ہے ۔ یہ جلد دیباچے اور الف کی تختی پر مشتمل ہے اس میں آبرو،آتش، انشاء، محمد حسین آزاد، انیس، اقبال، واجد علی شاہ اختر، جاں نثا ر اختر، اختر شیرانی وغیرہ شامل نہیں۔اس مجلس میں جگن ناتھ آزاد بھی یں۔ اس لئے انتخاب کے لئے آپ سے مشورہ ضروری سمجھا۔ آپ کے چاہنے والے ایوب واقف بھی اس مشورے میں شریک ہیں۔ سرمایہ سخن اس اعتبار سے لغت ہے کہ اس میں الفاظ حروف تہجی کے اعتبار سے لکھے گئے ہیں ۔ لیکن یہ دراصل شاعرانہ الفاظ کی لغت ہے جسمیں لفظ اور اشعارمیرے حواشی کے ساتھ چھپ رہے ہیں ۔ مثلاً لفظ آدم، آوارہ، کوئے ملامت، بت ، پرکئی کئی صفحے لکھے ہیں اور ابھی لکھنے کا کام جاری ہے۔ اس لغت میں بیس پچیس ہزار الفاظ ہوں گے اور تقریبا دو سو شاعر۔
اس کو مکتبہ جامعہ شائع کررہا ہے ۔ پہلی جلد مارچ مارچ اپریل تک آجائے گی ۔ اس کے بعد دوسری جلد کی تیار ی شروع ہوگی جو سال کے آخر تک شائع ہوجانی چاہئے ۔ یہ کام 1969ء میں شروع ہو تھا اب تکمیل کی منزل کے قریب آیاہے۔
اگر آپ اپنی نظموں اور غزلوں کے انتخاب پر نظر ثانی کرنا مناسب سمجھیں تو جلدسے جلد اطلاع دیجئے۔میں آج حیدرآباد جارہا ہوں ۔ میرابیٹاناظم وہاں ہے۔ عیداس کے بچوں کے ساتھ منائیں گے۔ 12/ فروری تک واپس آجاؤں گا ۔ وسط فروری میں دہلی جاؤں گا ۔ دہلی یونیورسٹی اپنی پلیٹینیم جوبلی کے موقع پر اپنے چند پرانے طلبہ کو اعزاز دے رہی ہے ۔ اس کے لئے میرا بھی انتخاب کیا گیا ہے ۔ میںنے بی۔ اے کی ڈگری اینگلو عربک کالج(قدیم دلی کالج) سے لی تھی ۔ انشاء اللہ آپ سے فروری اور مارچ میں ملاقات ہوگی۔
آپ کا
سردار جعفری

ماخوذ از کتاب:
علی سردار جعفری کے خطوط
مرتبہ : خلیق انجم

Letters to Prof Jaganath Azad. Article: Ali Sardar Jafri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں